فریبِ آرزو۔۔شاہین کمال

عمر کے اس آخری پڑاؤ میں اپنے شجر سایہ  دار تلے سانس لینا یقیناً نعمت خداوندی ہے کہ بےشک اولاد اللہ تعالیٰ کا بیش بہا تحفہ ہے اور اگر سعادت مند اولاد ہو تو کیا ہی کہنے ۔
زندگی کسی کی آسان نہیں ہوتی بہت کچھ جھیلنا، بھوگنا اور دل کو مارنا تو زندگی کی شرط اولین ٹھہرا ۔ جوانی کی خوبی یہ ہے کہ قوی مضبوط ہوتے ہیں سو جسم کو مشقت اور اعصابی نظام میں دھچکے کو جھیلنے کی قوت ہوتی ہے۔ جوانی تو عمر فانی کا وہ پر عظم دور ہے کہ اگر بندہ ٹھان لے تو پہاڑوں کو بھی تسخیر کر لے۔
اس احقر پر ذات باری کا احسان کہ جو بھی ابتلا و مصیبت پڑی وہ جوانی ہی میں آئی۔ میں نے خاصی مشکل زندگی گزاری ہے مگر یہ میرا اپنا انتخاب تھا کہ سُجھانے بتانے والوں نے بہت سارے شارٹ کٹ اور خوش کن مناظر بتائے بھی اور دکھائے بھی ،پر ان پر عمل پیرا ہونے سے انسانیت رسوا ہو جاتی اور انسان کا مول انسانیت ہی تو ہے ورنہ اس خاک کے پتلے میں بھلا دھرا کیا ہے؟
میں ایک خوش باش اور مطمئن ریٹائرڈ بندہ ہوں۔ میرا بچپن ویسا ہی تھا جیسے غریب بچوں کا ہوتا ہے، سسکتا بلکتا محرومیوں سے پیوستہ پر اس دور کی ایک اچھی بات یہ تھی کہ اس وقت دکھاوے کا مرض وبائی نہیں ہوا تھا سو تعیشات کی عدم دستیابی غیر مراعات شدہ طبقے کو نہ تو نفسیاتی مریض بناتی تھی اور نہ ہی تشدد پر ابھارتی تھی۔ سادگی اور صبر کا چلن عام تھا، کھانے کو روکھا سوکھا اور تن ڈھانپنے بھر کپڑا کافی خیال کیا جاتا تھا۔ اس وقت نہ انسان بھیڑ چال کا شکار تھا اور نہ ہی ہوس کی دلدل میں گردن گردن تک دھنسا ہوا ۔

میں حیدر علی اپنے ماں باپ کی ساتویں اولاد تھا پر لکی سیون ہرگز نہیں۔ ابا لالہ موسیٰ میں ریلوے میں کانٹا بدلنے کی ڈیوٹی پر معمور تھے۔ ہم سب ریلوے لائن کے قریب بوسیدہ ریلوے کوراٹر کے تنگ دست مکین جو سفید پوشی کا بھرم رکھنے کی کوششوں میں لیر و لیر ہوئے جاتے تھے ۔

ہم تین بہنیں اور چار بھائی ریل کی پٹڑی  کے ساتھ کھیل کھیل کر بڑے ہوگئے۔ مشکل سے دو وقت کی روٹی میسر تھی اور ریلوے کالونی میں موجود ٹاٹ اسکول میں پڑھتے ہوئے بابو صاحب بننے کا خواب دیکھتے دیکھتے میں نے میٹرک پاس کر لیا۔ اماں ابا میں ہم آہنگی تو نہ تھی پر صد شکر کے محبت تھی سو ہم لوگوں کا بچپن محلے کے دیگر بچوں کی طرح کلستا جھلستا نہ تھا۔ کچھ اماں محنتی بھی بہت تھی اور ان کے نزدیک کسی چیز کو ضائع جانے دینا گویا گناہ کبیرہ تھا۔ ان کے پاس بےکار سے بےکار چیز کا بھی مصرف ہوتا اوروہ صفائی ستھرائی اور چیزوں کو برتنے کے فن میں طاق تھیں۔
میری تینوں بہنوں نے چھٹی آٹھویں سے زیادہ نہیں پڑھا۔ اماں نے سولہواں برس لگتے لگتے تینوں کو بیاہ دیا۔ رہ گئے میرے تینوں بڑے بھائی تو وہ بھی پڑھنے کے شوقین نہ تھے۔ مشکل سے میٹرک پاس کر کے ایک موٹر میکینک بن گیا، ایک نے درزی کی صحبت اختیار کی اور تیسرا پرچون کی دوکان پر سامان تولنے لگا۔
بس ایک مجھے بابو بننے کا جنون تھا سو میں نے اپنے خوابوں کی ہمسری کے لیے جان لڑا دی ۔

انٹر کے بعد میں لاہور آ گیا کچھ دن امی کے دور پار کے رشتے کے بھائی کے گھر رہا پر جب ممانی کے پیشانی کے بل بہت بڑھ گئے تو میں نے اپنے آپ کو وہاں سے گھٹا لینے میں ہی عافیت جانی۔
یہاں لاہور میں ہر طرح کا کام کیا۔ کیا پنکچر لگانا اور کیا بیراگری۔ کبھی اسٹیشن پر سوتا تو کبھی کسی دوکان کے تھڑے پر۔ لاہور کہ اللہ کے ولی کا شہر ہے اس لیے جب کہیں کچھ بھی کھانے کو نہ ملتا تب بھی داتا دربار سے پیٹ کی آگ بجھ ہی جاتی تھی مگر قلق مجھے اپنے وقت کے زیاں کا تھا کہ بی۔کوم کے داخلے کی آخری تاریخیں سر پر تھیں اور میں اس سوچ میں تھا کہ لالہ موسیٰ واپس چلا جائے کہ معجزہ ہو گیا۔ بات نہایت معمولی بلکہ فلمی سی ہے۔ آپ نے بھی فلموں میں دیکھا ہو گا کہ گاؤں سے آیا ہوا مفلوک الحال ہیرو در در کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے اور اچانک کوئی حادثہ اس کی تقدیر بدل دیتا ہے بس میرے ساتھ بھی اس شام عین مین یہی ہوا۔

اس دن میں سبزی منڈی میں سبزیاں اور پھل کی بوریاں ڈھو ڈھو کر لوگوں کی گاڑیوں تک پہچانے کی مزدوری کر رہا تھا کہ یہ مہربان مل گئے۔ ان کا سامان ان کی گاڑی کی ڈیگی میں رکھ کر وہیں کھڑا پسینہ ہی پونچھ رہا تھا کہ زمین پر گرے ہوئے بٹوے پر نظر پڑی پر تب تک یہ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوچکے تھے۔ میں گاڑی کے پیچھے بھاگا شکر کے رش کی وجہ سے ان کی گاڑی کی رفتار زیادہ نہیں تھی کچھ لوگوں نے بھی مجھے گاڑی کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتے دیکھ کر انہیں اشارے کرنا شروع کر دئیے یا شاید انہوں نے رئیر مرر میں دیکھا اور انہوں گاڑی روک دی۔ ان کا گاڑی روکنا تھا کہ میری رکی ہوئی زندگی چل پڑی۔ میرے متعلق جان کر وہ مجھے اپنے ساتھ اپنےگھر لے آئے۔ میں نے دو راتیں ان کے گھر کی چھت پر کاٹھ کباڑ سے بھرے اسٹور میں گزاری پھر رضوان صاحب نے اپنی کتابوں کی دکان جو مین بازار میں تھی اسی میں بیک وقت میرا روزگار اور سونے کا ٹھکانہ دونوں مقرر کر دیا۔ یہ دراصل ریٹائرڈ پروفیسر تھے اور اب یہ کتابوں کی دکان ان کا شوق اور معاش دونوں تھی اور میری فلمی کہانی بھی بس یہیں تک۔
آگے بہت کچھ ہوا مگر وہ سب نادان دل کی
نادانی تھی۔
چاند کی خاطر ضد نہیں کرتے
اے میرے اچھے انشا چاند

میں کالج کے بعد دکان سنبھالتا اور رات میں دکان بند کرنے کے بعد اپنی پڑھائی، اس طرح میں نے بی۔ کام کیا اور نتیجہ نکلنے کے بعد سر رضوان کی سفارش پر محکمہ شماریات میں نوکری بھی لگ گئی ۔ اب میں بھاٹی گیٹ میں ساجھے داری پر کرائے کے گھر رہنے لگا تھا اور ہر سنیچر کی شام سر کے ساتھ ان کی دکان پر بسر ہوتی۔ پراؤیٹ ایم۔ کام بھی کیا اور انہیں دنوں محکمے میں کمپیوٹر نیا نیا آیا تھا سو وہ بھی جی جان سے سیکھا اور مسلسل اپنی قابلیت بڑھتا رہا۔ میں کہ چاند کا تمنائی تھا مگر چکور کب چاند کے چرن چھو سکا ہے؟
نری دیوانگی ہی تھی یہ، پر دل کب عقل کے کہے میں آیا ہے؟
میں تو شعوری طور پر اس کو سوچنے سے بھی گریز کرتا تھا کہ طبقاتی فرق تو اپنی جگہ تھا ہی مگر میرے شانے تو احسانات کے بوجھ سے بھی بوجھل تھے میں بھلا کیسے رضوان سر کی نواسی کا نام لے سکتا تھا ۔
اماں ابا کے گزرنے کے بعد لالہ موسیٰ بہت ہی کم جانا ہوتا تھا۔ پانچوں بھائی بہن وہیں تھے بس بھائی شبیر کراچی میں کسی بڑے بوتیک کے ٹیلر ماسٹر بن گئے تھے۔ معاشی طور پر میرے کم پڑھے لکھے بھائی مجھ سے بہتر کما رہے تھے مگر میں اپنی کم آمدنی سے بھی مطمئن تھا کہ میری سوتی اور جاگتی آنکھوں کے خواب پورے ہوئے تھے بس ایک ہی حسرت تھی اور اسے تا حیات حسرت ہی رہنا تھا۔
عید کے دن جب سر رضوان کے گھر اس کی منگنی کی میٹھائی کھانی پڑی تو دل ایسا وحشت زدہ ہوا کہ میں نے اپنے کچھ جوڑے تھیلے میں ڈالے اور سیدھے ریلوے اسٹیشن پہنچا اور پھر ہوش مجھے کراچی کے کینٹ اسٹیشن پر آیا۔
یقیناً سر رضوان نے مجھے ڈھونڈا ہو گا کہ وہ بہت اعلیٰ ظرف اور دیالو تھے مگر میں پیچھے کوئی نشان ہی چھوڑ کر نہیں آیا تھا۔

کراچی بڑا قلندر شہر ہے یہ سب کے بھید اور زخم اپنے سمندر سمان فراخ سینے میں دفن کر لیتا ہے۔ تین مہینے تو میں بس سمندر اور عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے درمیان چکراتا رہا۔ بھائی بشیر نے دلاسے کا مرہم رکھا اور بھرجائی بھی سلوک والی تھی پھر میں نے بھی کام ڈھونڈنا شروع کیا اور اب ایم کام کی ڈگری سے زیادہ میری کمپیوٹر کی اسکل کام آئی اور گل احمد فیکٹری میں مجھے کمپیوٹر سیکشن میں نوکری مل گئی۔ گو نیا کام تھا مگر سیکھنے کی دھن نے مجھے یہاں بھی نمایاں کر دیا۔

دو سال بعد بھائی بشیر کی سالی سائرہ سے میری شادی ہو گئی اور ہمارے تین بچے ہوئے۔ تینوں کو اپنا پیٹ کاٹ کر پڑھایا لکھایا اور اب تینوں اپنی اپنی گھر گرہستی سنبھال رہے ہیں۔
میں پچھلے چار سالوں سے اپنے بڑے بیٹے رضوان (جی میں نے اپنے بڑے بیٹے کا نام سر کے نام پر ہی رکھا ہے) کہ اصرار پر اسی کے ساتھ اس کے گھر میں رہتا ہوں۔ چھوٹا ایم۔ اس کرکے پردیس آسٹریلیا جا بسا اور بیٹی اپنے خاندان کے ساتھ صحرا نشین ہے یعنی جدہ میں۔

سائرہ کو بڑا ارمان تھا جج کا سو مالک نے اس کی یہ آرزو بھی پوری کی اور تین سال پہلے ہم دونوں اس فریضے سے بھی فارغ ہوئے اور جیسے وہ بس ایک اسی بات کی منتظر تھی۔ حج سے واپسی کے ٹھیک چوتھے مہینے رات اچھی بھلی سوئی مگر کبھی نہ اٹھنے کے لیے۔ اس کی جدائی مجھ میں ایک خلا چھوڑ گئی  مگر زندگی کے لیے شاید صرف سانس اور روٹی ہی ضروری ہے کہ آس تو برسوں پہلے میں لاہور سے چلتے ہوئے وہیں پلٹ فارم پر چھوڑ آیا تھا اور پھر بھی سانس لیتا ہوا چونسٹھ سالہ زندہ وجود ہوں۔

پچھلے تین چار ماہ سے گھر کا ماحول بہت بدلا ہوا ہے ایک تناؤ کی فضا ہے۔ بہو فاریہ کا موڈ بھی بہت خراب ہے اور بات بے بات دونوں پوتوں کی شامت آئی رہتی ہے۔ رضوان اور فاریہ کے تیرہ سالہ ازدواجی سفر میں میں نے گھر کی یہ فضا پہلی بار دیکھی ہے۔ ایسا نہیں کہ یہ لوگ لڑتے نہیں تھے نہ صاحب خوب جم کے لڑتے تھے اور دونوں منہ پھلائے چار پانچ دن گھومتے تھے پھر کوئی ایک فریق دوسرے کو منا لیتا اور یہ پھر سے شیر و شکر ہوجاتے۔

میں یا سائرہ کبھی کسی بچے کے جھگڑے میں نہیں بولتے تھے سائرہ اگر کبھی سمجھاتی بھی تھی تو بیٹوں کو بہوؤں کو اس نے کبھی کچھ نہیں کہا تھا ۔
اس دفعہ معاملہ کچھ اور تھا۔ ان کے درمیان لڑائی جھگڑا نہیں تھا مگر ایک لاتعلقی اور سرد مہری تھی حالانکہ فاریہ اور رضوان ایک خوش باش اور محبتی جوڑا تھے جن کے مابین محبت اور ہم آہنگی تھی۔
میں نے نوٹ کیا کہ رضوان رات گئے تک ڈرائنگ روم میں صوفے پر لیٹا فون پر مصروف رہتا ہے۔ ایک آدھ دفعہ جب میں تہجد کے لیے اٹھا تو ڈرائنگ روم کی بتی جلتی دیکھ ادھر گیا اور وہاں رضوان کو موجود پا کر اسے ٹوکا بھی مگر اس نے کام کا بہانہ بنا کر مجھے ٹال دیا۔

دفتر سے واپس وہ وقت پر ہی آتا تھا مگر وہ بیڈ روم میں اور فاریہ گھر کے لایانی کاموں میں خود کو مصروف ظاہر کرتی یا پھر پوتوں کی شامت آ جاتی۔ پہلے جیسا ان کا آپس کا ہنسنا بولنا یا ہماہمی نہیں تھی۔
میں تہجد کے لیے اٹھا تو ڈرائینگ روم کی بتی جلتی دیکھ کر دبے پاؤں ادھر کا رخ کیا۔ پانچ منٹ کھڑے رہ کر خاموشی سے گفتگو سنی اور پھر اندر داخل ہوا۔ رضوان صوفے پر دراز تھا اور ٹیلی فون کا کمیرہ آن تھا اسکرین پر ایک خوش شکل خاتون تھیں۔ جیسے ہی میری شبیہہ اسکرین پر آئی رضوان ہڑبڑا کر اٹھا اور اس کے ہاتھوں سے فون پھسل کر قالین پر گر گیا۔ میں نے فون آف کر کے سائڈ ٹبیل پر رکھا اور رضوان کے برابر بیٹھ گیا۔
میں بالکل چپ تھا اور رضوان نے ہکلاتے ہو کہا کہ ابا بس ایسے ہی، جانے کیسے دوستی ہو گئی؟
یقین کیجئے کوئی سریس بات نہیں ہے۔
میں نے کہا رضوان یہ بہت سریس بات ہے کہ تم رات کے اس پہر اپنے بیڈ روم میں فاریہ کے ساتھ ہونے کے بجائے یہاں لیٹ کر ایک انجانی عورت سے باتیں کر رہے ہو۔
تمہیں فاریہ سے کیا شکایت ہے؟
ابا ہمارے خیالات اور مشاغل ایک جیسے نہیں۔
تم پر یہ انکشاف اب تیرہ سال بعد ہوا ہے۔؟
میں نے تیز لہجے میں پوچھا۔ ویسے بھی یہ کوئی ایسا گمبھیر مسئلہ تو نہیں تم دونوں نہایت خوش اسلوبی سے اس سلسلے میں کامن گراؤنڈ ڈھونڈ سکتے ہو۔ فاریہ سمجھ دار ہے تم سے محبت کرتی ہے، تمہارے دو بچوں کی ماں ہے۔ تمہارا ایک پُرسکون گھر ہے کیوں اسے آشوب کی  نذر کرنے پر تلے ہوئے ہو۔
آپ نہیں جانتے ابا فاریہ میری ایک نہیں سنتی اور بہت ضدی ہے۔ اماں آپ سے کتنی محبت کرتیں تھیں اور آپ کی بےجا بھی مانتی  تھیں۔
تم کیا سمجھتے ہو میں اور تمہاری اماں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے؟
ہاں اماں تو آپ سے بہت محبت کرتی تھیں۔
غلط فہمی ہے تمہاری۔
میں نے آہستگی سے جواب دیا۔
ہم دونوں کے درمیان محبت تو سرے سے تھی ہی نہیں صرف احترام اور لحاظ کا رشتہ تھا اور نکاح کے پاکیزہ بولوں کی حرمت تھی۔
میں شادی سے پہلے سے لاحاصل کے آزار میں مبتلا تھا اور شادی کے ہفتے کے اندر اندر مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ سائرہ کے پاس میرے لیے سب کچھ ہے ایک دل کے سوا۔
ذرا سی کھوج تاج اور پڑتال سے میں اس کے دل کے متروکہ مکین سے بھی آگاہ ہو گیا تھا مگر نہ میں نے اس سے پوچھ گچھ کی اور نہ ہی اس نے میری خالی آنکھوں پر سوال اٹھایا ۔
بیٹا جب مقدر نے آپ کو ہمسفر بنا دیا ہے تو ایک دوسرے کے لیے جوتے میں آیا کنکر مت بنو۔ بےشک زندگی محبت کے بغیر ایسی ہی ہے جیسے روٹی بنا سالن۔ مگر بچے!
سادی روٹی سے بھی پیٹ بھر ہی جاتا ہے۔

زوج کا رشتہ آپ کا ایمان مکمل کرتا ہے۔ ادھر ادھر منہ مار کر اپنے ایمان میں سیندھ مت لگاؤ۔ بنی نوع انسان کا ایک اہم فریضہ نسل نو کی تسلسل کا ہے۔ رب العزت نے تمہیں اولاد سے نوازا ہے اور اس ذمہ داری کا تقاضا ہے تم دونوں ان بچوں کو معاشرے کے لیے کارآمد بناؤ، بندگی کے آداب سکھاؤ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب تم دونوں ہم آہنگ ہو کر پرورش کرو۔
تمہیں پتہ ہے رضوان جب ہم مدینے میں تھے تو تمہاری ماں نے ایک رات مجھ سے کہا کہ میرے سینے پر بوجھ ہے اور میں ایک اعتراف کرنا چاہتی ہوں۔ میں نے کہا میں جانتا ہوں اور وہ
حیران رہ گئی  تھی ۔
کیسے؟
اس نے سراسیمہ ہو کر پوچھا۔
میں کہا بالکل ویسے ہی جیسے تم میرے راز سے آشنا ہو میں بھی تمہارے درد سے باخبر تھا مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے سائرہ؟
اس رشتے میں بندھنے کے بعد نہ تم نے پلٹ کر دیکھا اور نہ ہی میں ماضی میں بھٹکا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اہم یہ ہے کہ ہم دونوں نے نہایت دیانت داری اور حرمت سے اس رشتے کو نبھایا اور اپنی پوری توانائی سے اپنے بچوں کو پروان چڑھایا بس یہ ہی کافی ہے اور باقی سب غیر ضروری۔
بیٹا تم سمجھ دار ہو اور نیک و بد کے فرق سے واقف۔ مجھے نہیں معلوم کہ تم کس کمزور لمحے میں مغلوب ہوئے کہ دنیا تو ہے ہی ترغیبات کا گڑھ آج یہ ہے کل کوئی اور ہو سکتی ہے کہاں تک اور کس کس کے پیچھے بھاگو گے؟
یہ چور دروازے کب تک رضوان ؟
اس فریب آرزو سے اپنے آپ کو جلد از جلد آزاد کروالو بیٹا ورنہ انجام بہت عبرت ناک ہو گا۔
یاد رکھنا بیٹا پاک وہی جس کی تنہائی پاک ہے۔ اس کی عدالت میں حاضری یقینی ہے اب یہ تم پر منحصر ہے کہ تم اپنے گریبان کو کتنے ہاتھوں سے بچاتے ہو۔ اپنے ہمیشہ ہمیش کے لیے اس کی آسودہ جنت چنتے ہو یا عزلت کا گڑھا؟
بس اب میں اور کچھ نہیں کہوں گا کہ
This is totally your choice and destination۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply