تعارف کتاب : بری نظر ۔ ۔ مصنف: مشتاق احمد(سائیں سچا)..تبصرہ نگار: صادقہ نصیر

زیرِ نظر کتاب کے تعارف کو تنقیدی مضمون نہ سمجھا جائے کیونکہ میں ایک طفل مکتب ہوں اور اتنی قابلیت نہیں رکھتی کہ کسی ادبی تخلیق کا تعارف کراتے ہوۓ اس کی فنی اور تخلیقی طور پر درجہ بندی کر سکوں یہ کام نقادوں کا ہے ۔میرا مقصد کسی لکھاری کی فنی اور تخلیقی کاوشوں اور اس میں موجود فلسفہء حیات جس کو مصنف پیش کر رہا ہے اسے متعارف کرانا ہے اور لکھاری کی کوششوں کو پڑھنے، سمجھنے اورغور و فکر پر آمادہ کرنا ہے تاکہ اجتماعی شعور اور علم میں اضافہ اور علم و حقائق کی جستجو کرنا اور کرانا ایک طرف عمل مقدم ہے اور دوسری جانب کتاب لکھنے اور پڑھنے کے کلچر کے فروغ کے لئے اہم فریضہ۔ یہ تمام تحریر ایک قاری کے تاثرات ہیں۔

زیر نظر کتاب “بری نظر” سویڈن میں مقیم ایک سویڈش پاکستانی جناب مشتاق احمد عرف سائیں سچا نے تصنیف کی ہے جو سکینڈے نیوین ممالک میں ایک فعال، متحرک اور نامور ادیب جانے جاتے ہیں اور انہیں محترم سینئیر ادیب ہی نہیں بلکہ ادبی دنیا میں ترقی پسند اور پر جوش اور محرک کارکن ارتقاء سمجھا جاتا ہے۔ میرا ان سے رابطہ حسب معمول فیس بک کی وساطت سے ہوا۔ کتاب کا مطالعہ کرتے ہوۓ شدت سے احساس ہوا کہ پہلے ان کے بارے میں جانا جاۓ اور قارئین کو بھی ان کی شخصیت سے متعارف کرایا جاۓ۔
سائیں سچا کا اصل نام مشتاق احمد ہے مجھے جتنا ان کے بارے میں تعارف ہے وہ تھوڑا سا تعارف بھی حیران کن ہے۔
حیران کن کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ماورا المخلوق ہیں بلکہ حیرانی اس بات پر ہے کہ عام انسان ہونے کے باوجود وہ خاص ہیں کہ شعوری ارتقاء کے اس درجے پر ہیں کہ کوئی استحصالی دباؤ یا آمرانہ روش ان کی سوچ ,فکر،اور عملی کاوشوں کے قریب نہیں آتی اور ان کی فکری عمل پر زوال نہیں آیا۔ جبکہ زمانے کا چلن یہ ہے کہ تہذیب و تمدن اور سائنس کی عرش کو چھوتی اور فطرت کے اسرار رموز کی کھوج میں بہت آگے نکلنے کی سعی کے باوجود انسانوں کی کثیر تعداد اور مقدار کی سوچ اور فکر زوال پذیر ہے اورجبکہ زیر نظر کتاب کے مصنف اپنی سوچ اور فکر کو بہت دلیرانہ انداز سے اس کے مزید ارتقا کے لئےکوشاں ہیں۔اور کتاب کے ذریعہ علم وعمل اور فکر کی بالیدگی کے فروغ کا ثواب کما رہے ہیں حالانکہ وہ عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں مضبوط سے مضبوط انسان اپنے زوال پزیر جسم کو بہانہ بنا کر اپنے شعوری ارتقا میں بھی کبھی جان بوجھ کر اور کبھی طبعی طور پر تنزلی اور انحطاط کا شکار ہو جاتا ہے۔
آئیے کچھ مصنف کی مختصر سی سوانح حیات پر نظر ڈالتے ہیں جس کے بعد ہی کتاب پڑھنے کی ترغیب ہوگی اور کتاب سمجھ میں آئے گی۔
نظریۂ ارتقا کے زبردست حامی سائیں سچا کا ارتقا کچھ یوں ہے کہ :


مصنف کا اصل نام مشتاق احمد ہے۔ لیکن وہ اپنے آپ کو سائیں سچا کے نام سے بھی متعارف کراتے ہیں۔ ۱۲ اپریل ۱۹۴۱ میں پیدا ہونے والے سائیں سچا کی زندگی کے ابتدائی ۱۹ سال لاہور میں گزرے،اگلے پانچ برس برطانیہ اور اس کے بعد گزشستہ ۵۷ برس سے سویڈن میں مقیم ہیں۔
انہوں نے کسب کے لیے بہت سے کمال کام کئے مثلا ریسرچ کیمسٹ، فوٹو گرافر،ڈسک جوکی،کلب ماسٹر ،کتب فروش، ناشر، تاجر، مستری اور ٹیکسی بان۔
ٹیکسی بان کی اصطلاح چونکہ پہلی بار سنی تو اس لفظ نے چونکا دیا۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کو یہ تو ٹیکسی ڈرائیور کا اردو ترجمہ ہے جس میں ان کے تانگہ بان کے لئےعزت کے جذبات بھی جھلکتے ہیں اور ریڑھی بان، فیل بان اور مزدور کے پسینے سے ان کو محبت ہے۔اس کے علاوہ ان کی سادگی، خلوص اور عاجزی کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ پھر محنت کی عظمت کو اجاگر کرنے کی تحریک بھی۔ اس سے ان کے سوشلسٹ نظریات کا اظہار ہوتا ہے۔
سائیں سچا نے اچھی جاب بھی کیں لیکن وہ اسی سال کی عمر میں بھی ٹیکسی چلا رہے ہیں کہ بیٹھنا اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کر ہاتھ پاؤں چھوڑ دینا موت ہے۔ ان کا یہ عمل قابل ذکر اور قابل تقلید ہے اور نوجوانوں کے لئے سبق جو کسی کام کو اعلی اور کسی کام کو گھٹیا جان کر کچھ نہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور معاشرے کو انفرادی اور اجتماعی جمود میں مبتلا کرنے اور ارتقا کے عمل کو روکنے کے عوامل بن جاتے ہیں۔ وہ اس لحاظ سے اپنے قول و فعل میں تضاد کو زندگی میں شامل نہیں ہونے دیتے۔ جو لکھ رہے ہیں وہی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اور اپنے آپ کو مزدور ہونا اور کہلوانا پسند کرتے ہیں۔
ان کے ادبی سفر کا آغاز ۱۹۵۶ میں ایک افسانہ لکھنے سے ہوا۔ پہلی کتاب ۱۹۸۵ میں شائع ہوئی۔ اس دوران میں ان کے مختلف مضامین، اور مقالے شائع ہوتے رہے۔سائیں سچا کو چار زبانوں پر مکمل عبور ہے جن میں پنجابی، اردو، انگریزی اور سویڈش شامل ہیں۔انہوں نے اب تک فیض احمد فیض اور احمد فراز کے کام کا انگریزی ترجمہ کیا اور ساحر لدھیانوی کے کلام کا سویڈش زبان میں ترجمہ کیا ہے۔
ان کی تمام تصانیف اور کتابوں کو مندرجہ ذیل ویب سائٹ سے حاصل کیا جا سکتا ہے:
Www.vudya.se/books/
اب آتے ہیں ان کی وہ کتاب جو میری دسترس میں پہلے آئی وہ ہے ان کا افسانوں کا مجموعہ جس کا نام ہے
“ بری نظر”
اس کا انتساب
“ “دوستوں کے نام جو جیون گاڑی میں میرے ساتھ رہے اور جنہوں نے اس مسافرت کو تمام نشیب و فراز کے باوجود اتنا پر نشاط ۔۔۔۔۔۔””
اس افسانوں کے مجموعے میں کل نو افسانے ہیں۔ جن کی ترتیب کچھ یوں ہے:
چوتھا زیرک
دور اندیش
فوٹو فنش
دل فریبی
بری نظر
آخری دھمکی
انگوٹھی
چھٹی حس
اور بے گناہ
شامل ہیں
کوئی بھی کہانی یا افسانہ طوالت کی زحمت نہیں دیتا۔ مناسب طول و عرض کے یہ افسانےمذاہب عالم کی منافقتوں, مذہب کی تجارت اور بے عقلی ، اور دانستہ غلامی کی زنجیروں کو توڑنے اور اس بات پر غور کرنے کی نہ صرف تحریک کرتے ہیں بلکہ فکر کے لئے ٹھوس اور سائنسی شواہد اور دلائل پیش کرتے ہیں۔ کسی بھی مذہب, نظرئے کی اندھا دھند پیروی کی پر زور مخالفت کرتے ہوۓ انسانوں کو ان عقائد کے پیچھے مکروہ اور بھیانک عزائم کی نشان دہی کرکے انہیں جگانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔
یہی نہیں مجھے اس بات کا تاثر بھی ملا کہ وہ کسی بھی مذہب کو اور عرشی الفاظ کو ارتقائ نظرۓ کے تحت رد کرتے نظر آتے ہیں لیکن عجیب بات ہے کے مذاہب سے انکار کے باوجود ان کے ہر افسانے کے ہر جملے اور لفظ میں امن، آشتی، محبت اور دوستی کا پیغام ہے اور مذہبی آمریت اور استحصال سے مزاحمت اور مخاصمت پائی جاتی ہے۔
ان کے ہر افسانے اور کہانی میں اس بات پر اصرار ہے کہ ارتقاء کا عمل زندگی کے ہر پہلو پر محیط ہے۔ محبت اور محبت کے طریقوں پر، معاشرتی اقدار اور ان کے نفاظ پر، قوانین مذاہب اور اخلاقی ضوابط پر اور حسن و عشق ، حتی کہ آرٹ یعنی فنون لطیفہ کے سراہنے تک میں ارتقاء کو وہ ضروری سمجھتے ہیں۔ سب سے زیادہ اس بات پر زور ہے کہ انسانی تہذیب کی ارتقاء کے لئے سب سے ضروری ارتقاء “شعور ” کا ارتقا ہے۔۔ ۔۔۔اس کے بغیر انسان کو اشرف المخلوق بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اب ان کے نو افسانوں پر مختصر اور طائرانہ نظر بطور تعارف ڈالتے ہیں۔
پہلا افسانہ “زیرک”
بھرپور اور جاندار علامتوں کا استعمال کرتے ہوۓ منزل سے بھٹکے اور ورغلاۓ لوگوں کے لئے علم و آگہی اور شعور کے دروازے کھولتا ہے۔ اس افسانے کے کردار بہت مضبوط دکھائی دیتے ہیں اور ان کے مابین مکالمہ لاجواب ہے۔ جیسے”جب وہ نکلے اور میری گاڑی کی طرف آۓ تو پیلی قبا والے نے کہا “اس ستارے کا تعاقب کرو”
مجھے لگا کہ وہ جعلی سیاروں کے تعاقب میں ہیں” ٹیکسی ڈرائیور نے کہا۔ اس افسانے کے تین کردار جن کے نام توجہ کھینچتے ہیں۔
جیسے”زیرک گ، زیرک م اور زیرک ب”
جن میں ٹیکسی ڈرائیور بھی شامل ہوجاتا ہے جس کو “زیرک ب” کا نام دیا گیا ہے۔اس افسانے میں انسانوں کی درجہ بندی اعمال کی قدر مشترک کو قرار دیا گیا ہے۔
ایک اور جملہ توجہ کا طلبگار ہے”مجھے تعاقب کرنے والے مسافر اپنی ٹیکسی میں پسند نہیں ہیں۔” اور زیرک گ نے کہا نہیں ہمیں اس کی تلاش ہے جو دنیا سے بدی ختم کر دے۔”
اسی طرح ایک لائن میں وہ رقمطراز ہیں “ایسے لوگ جن کے مہربان ماضی قدیم یا غیر متعین مستقبل میں رہتے ہوں مجھ پر ہمیشہ کپکپی طاری کرتے ہیں”
اس کہانی میں مکالمہ سائنس اور یقین کے مابین ہے کہ”جسے تم سچ مانتے ہو وہ صرف مشاہدہ کے وقت ہی لاگو ہوتا ہے جس گھڑی مشاہدہ ہٹ جاۓ گا ”
زیرک “ب” کہتا ہے
کہ “ہمیں اپنے روایات اور اور عقائد میں تبدیلی کے لئےتیار رہنا چاہئیے”
ایک ون لائینر” تشکیک اور تحقیق کی طرف مائل ہو جاؤ”
دوسری کہانی “دور اندیش” تحریر ہوتی ہے تو اپنی نوعیت میں وہ منٹو کے انداز اور الفاظ کی جھلک دکھاتی محسوس ہوتی ہے۔ یہ کہانی بتاتی ہے کہ پاکستان میں کس طرح بڑے بڑے عہدے حاصل کیے جاتے ہیں۔
“جنرل کو خوش کرنا ناراض نہیں میری ترقی کا معاملہ ہے”
” کیپٹن ارشد کی ترقی کروا رہی ہو چلو لیٹو۔ ۔۔۔”
تیسرا افسانہ عنوان ہے”فوٹو فنش”
ایک ایسے فوٹو گرافر کی کہانی ہے جس نے ویتنام کی جنگ میں جنگی فوٹو گرافر کی حیثیت سے جنگ کو قریب سے دیکھا۔
اس افسانے میں دنیا کی جنگوں میں ہونے والی بھیانک ہلاکتوں اور مسلط کی گئی فلاکتوں اور حماقتوں کی مذمت کی گئی ہے۔
یوں مصنف ایک دھریہ سوچ رکھتے ہوۓ بھی امن عالم اور انسان دوستی کے خواہاں ہیں۔
چوتھا افسانہ” دل فریبی” نے فارماسیوٹیکل کمپنیوں سے مخاطب ہے۔

پانچواں افسانہ” بری نظر” عورت کے اوپر زبردستی مسلط کئے گئے چادر اور چار دیواری کے منافقانہ رواجات کی بات کرتا ہے
اس افسانے کے کردار عام زندگی سے ہیں اور منظر نگاری اور ماحول بالکل ہمارے ارد گرد ہماری بصارتوں کے تلے ہر وقت نظر آتے روئیے ہیں۔
یہ افسانہ مذہبی گھرانوں میں گھر میں آنے والے مردوں سے گھر کی عورتوں کو پردہ کروانے کا منافقانہ رواج اور ان ہی عورتوں کا گھر سے باہر پردے کے بغیر جانا ایک دوغلے پن کا رویہ ہے۔
اس کہانی کا ایک جملہ” پردہ تو ان سے واجب ہے جن کی نظر بری ہو”
چھٹی کہانی “تسبیح” کے نام سے ہے۔ جو نہ صرف رونگھٹے کھڑی کر دینے والی صفت رکھتی ہے بلکہ اس معاشرے، افراد اور خاص طور پر والدین کے لئے پڑھنے کے لئے ہے اور ایک بہت سبق آموز فکری کہانی ہے۔ ہم نے زنا بالجبر کا ذکر تو سنا ہوگا اور یہ اب بڑی عام سی بات ہے جس کو آسانی زیر بحث لانے پر کوئ معیوبیت نہیں، لیکن مصنف نے ایک نئی اصطلاح  متعارف کراتے ہوۓ معاشرتی فکر کے نئے در کو وا کیا ہے۔ یہ اصطلاح ہے”جماع بالجبر” جو اہل مغرب کے لئے تو عام ہے اور اس گناہ پر یہاں کا قانون سزا بھی سنا دیتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں مرد کو زور آوری جیسی صفت سکھا کر مرد بنایا جاتا ہے لہذا عورت کس طرح پہلے اس زور آوری کے میدان جنگ میں لڑتی ہوئ ہار جاتی ہے پھر اس کے نتیجے میں زنا بالجبر کو اپنے فارمولوں کی حکمت عملی سے ساری زندگی بر داشت کرتی ہے اور گناہ کی مرتکب ہوتی ہے۔ اس افسانے کا ایک جملہ” وہ سوچتی کہ خالہ حمیدہ ہر وقت تسبیح ہاتھ میں کیوں رکھتی ہے۔ خالہ حمیدہ نے تسبیح کا راز بتاتے ہوۓ کچھ گر اسے بھی بتاۓ کہ ” آنکھیں بند کر لیا کرو”
أنکھیں بند کرنے کا کیا مطلب ہے یہ مطلب قارئین کو پورا افسانہ پڑھ کر ہی معلوم ہوگا۔ مجھے تو ایسا لگا میں افسانہ لحاف پڑھ رہی ہوں جس سے کون نہیں واقف۔ لیکن زبردستی کی شادیوں اور جماع بالجبر کے حساس موضوع پر لکھی یہ منفرد اور حساس کہانی ان مردوں اور معاشروں کے لئے ہے جو مرد کو انسان دوستی کی تہمت برداشت کرنے کی اجازت نہیں دیتے کیوں کہ مرد یہ مقدس تہمت برداشت ہی نہیں کرسکتا۔میں اپنی ذاتی حیثیت سے مصنف کو اتنا اچھا افسانہ لکھنے پر دل سے مبارکباد دیتی ہوں کہ انہوں نے صدیوں سے موجود اس گھناؤنے تصور کو شعور کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کردیا۔ یہ افسانہ میں ذاتی طور پر سب اہل فکرو نظر کو پڑھنے کی ترغیب دوں گی۔ ہر مرد اور عورت کو اس افسانے کے ذریعہ انسانی زندگی کے ممنوعہ حساس موضوعات پر بولنے اور آواز اٹھانے کا حوصلہ ہوگا۔ میں ایک بار پھر اس پیچیدہ نفسیاتی پرتیں کھولتے افسانے کے لئے خاص طور پر مصنف کو مبارکباد پیش کرتی ہوں۔
چھٹی کہانی”آخری دھمکی” شیطان اور رب کے مابین مکالمہ ہے جو ان معصوم اور سادہ لوح انسانوں کی آنکھیں کھولنے کا محرک ثابت ہو سکتا ہے جو علم آگہی، آگاہی اور شعور سے محروم ہیں اور مذہبی ،سیاسی و معاشی ان داتاؤں اور رہنماؤں کے خفیہ شیطانی حملوں کی زد سے بچنے کبھی شعوری کوشش نہی کرتے اور بے عقلی کے پاتال میں گرے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ افسانہ بھی یقین یعنی اندھے اعتقادات اور علم کے درمیان ہونے وال کشمکش اور جنگ کا نظارہ پیش کرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ساتواں افسانہ” انگوٹھی” آٹھواں افسانہ “چھٹی حس” اور نواں اور آخری افسانہ ” بے گناہ” بھی پڑھنے کے لائق ہیں۔
افسانہ “آخری دھمکی ” سےشیطان کا خدا سے مکالمے کی ایک لائن پیش خدمت ہے”اچھا ٹھیک ہے میں حنوم کی وادی میں جہنم کے اندر ان مٹی کے پتلوں کی نقل کو آگ میں بناؤں گا پھر انہیں آپ کا نام سکھا کر آپ ہی کے نام پر آپ کے سب قوانین تڑ واؤں گا۔ یہ میرے مرید ہوں گے جن کی فطرت میں آگ،دل میں نفرت اور اعمال میں بدی ہوگی”
آٹھواں افسانہ “انگوٹھی” بے وفائی یا ایڈلٹری کے موضوع پر اور آخری افسانہ” بے گناہ” بھی جنگ سے نفرت کا اظہار ہے۔
اس کا ایک جملہ توجہ طلب ہے”ایک خود کار مشین ہاتھ میں پکڑ کر محسوس کرنا کہ دوسروں کی زندگی اس کے ہاتھ میں ہے ایک بہت نشہ آور احساس ہے جب کہ اس کے مذہب کے مطابق تو صرف خدا کو زندگی دینے اور لینے کا اختیار ہے اور جب انسان اس قابل ہو کہ وہ خدا کا آدھا کام کر سکتا ہے تو وہ نصف خدا بن کر خدا کا قہر ہاتھ میں لیتا ہے”
اس افسانے میں احساس جرم کے موضوع کو بھی چھیڑا گیا ہے کہ کس طرح مذہبی ٹھکیدار بے وقوف لوگوں کو گناہ کے نام سے احساس جرم جیسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
اس افسانے کے تمام ڈائیلاگ مصنف کے حقیقی مشاہدات اور زمینی حقائق پر مبنی ہیں جنہیں بے باک طور پرقلم بند کرنے پر مصنف مشتاق احمد عرف سائیں سچا کو مبارکباد۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply