رابو کی ڈائری ۔۔ قرب عباس/افسانہ

 شادی کے ایک مہینہ بعدہی ارشد دبئی چلا گیا۔ اس کے چلے جانے کے بعد سیما کو تھک کر سونا ہی بھلا لگتا تھا، ویسے نیند کہا ں آتی تھی۔ وہ سارا دن خو د کو گھر کے کاموں میں الجھائے رکھتی ، کھانا پکانا، صفائی ستھرائی، اور دوسرے چھوٹے موٹے کاموں میں دن کہاں گیا پتہ ہی نہ چلتا۔ گرمیاں گزر رہیں تھیں، سردیوں کی آمد آمد تھی جس کی وجہ سے اس بار کچھ زیادہ ہی کام چھیڑ بیٹھی ۔۔۔ سارا سامان کمروں سے باہر نکالا، جالے جھاڑے ، دروازے دھوئے ، کھڑکیوں پر گیلا کپڑا پھیرا ۔۔۔ گرمیوں کے بستر اندر رکھے ، سر دیوں کے باہر نکالے ۔ اس کے بعد بہت سارے پھٹے پرانے کپڑے شمو کے حوالے کیے ۔ ۔ پرانے برتن ، کاغذ، رسالے ، میگزین ، نجانے گھر کے کس کس کونے کھدرے سے نکال کر شمّو کے ہاتھ کباڑیے کے ہاں بھیج دیے ۔ سامان باہر نکالتے ہوئے جب چھ فٹ کی بڑی لوہے کی پیٹی سٹور میں سے ایک طرف ہٹائی تو اس کے پیچھے سے ڈائری ملی جو اس نے اپنے پاس ہی رکھ لی۔
سیما کا ساتھ شمو کام والی کے علاوہ دیتا بھی کون ، مرد ان کاموں میں پڑتے نہیں۔ ویسے بھی اس گھر میں ایک دیور ہی تھا ، جو صبح دکان پر جاتا اور رات کو لوٹ کر آتا ، ارشد اور بڑے بھائی دوبئی ہوتے تھے ۔ بڑے بھائی کے تین بچے جو سکول چلے جاتے۔ اور رہی بڑی بھابھی۔۔۔ وہ تو ہر وقت بیماری کا بہانہ کر کے کمرے میں پڑی رہتی ۔

سارے گھر کی صفائی مکمل کر کے سیما نہا ئی اور کمرے میں آکر خود کو بستر پر گرا دیا، کمر درد سے ٹوٹ رہی تھی۔ ٹانگوں میں کھلیاں پڑ رہی تھیں۔ یوں چُور ہو کر لیٹتے ہی اسے پہلے سے زیادہ راحت محسوس ہوئی۔ ابھی لیٹے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ ایک جھٹکے سے اٹھی اور دروازے کی بائیں جانب رکھی کپڑوں کی الماری کھول کر اس میں سے وہی بوسیدہ ڈائری نکالی جو اسے کام کے دوران سٹور میں سے ملی تھی۔ ڈوپٹے سے اس پر جمی گرد کو جھاڑا اور ورق گردانی کرتے ہوئے دوبارہ بستر پر دراز ہوگئی۔

ڈائری کے سارے اوراق پیلے ہورہے تھے ۔ کچھ نظمیں تھیں۔ کچھ غزلیں ۔ اور کہیں کہیں کچھ تحریریں۔ یہ ڈائری سیما کی نند رابعہ کی تھی جسے رابو کہہ کر بلایا کرتے تھے ۔ سیما کی شادی کو چھ ماہ ہوئے تھے اور رابو اس سے بھی کچھ مہینے پہلے اپنے گھر کی ہو چکی تھی۔
ورق گردانی کے دوران سیما نے دو نظمیں پڑھیں اور پھر ایک تحریر پر آکر رک گئی ۔ یہ وہ تحریر تھی جو رابو نے اپنی شادی کے تین دن پہلے لکھی تھی۔
“بہت شور مچاہوا تھا، آخر آہی گئی وہ گھڑی۔ تین دن بعد بارات آئے گی، اور میں اپنے گھر چلی جاؤں گی۔” سیما کے چہرے پر پہلا جملہ پڑھتے ہی مسکراہٹ نمودار ہوئی ، اس نے پڑھنا جاری رکھا۔
“حیرانی ہے، سبھی کہتے ہیں اپنے گھر جا رہی ہوں، مگر گھر والوں کے مزاج سے ان کے طور طریقوں سے بالکل بھی واقف نہیں ۔ مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ کہ گھر کیسا ہے ۔۔۔ گھر کیسا ہے یہ تو نہیں جانتی مگر وہاں جاکر کیا ہوگا یہ ضرور جانتی ہوں۔ دو دن یہی ڈھول ڈھمکا، ناچ گانا چلے گا، اس کے بعد بارات آئے گی سبھی رو دھو کر مجھے اس گھر سے نکال دیں گے۔ باراتیے مجھے لیجا کر سامنے بیٹھا لیں گے اور ایسے خوشیاں منائیں گے جیسے کوئی لاٹری نکل آئی ہے، لاٹری تو ہے ہی ۔ ایک عدد انسان کے ساتھ پورے گھر کا سامان مفت۔۔۔۔ ” سیما کی معمولی سی ہنسی ناک کے نتھنوں سے نکلی ، مسکراہٹ چہرے پر ابھی تک قائم تھی ۔
“انھیں ناچتے ناچتے رات ہو جائے گی، پھر مجھے بستر تک چھوڑ جائیں گے۔ وہ آئے گا چند باتیں کرے گا اور بتی بجھا کر جو جی میں آئے کرے گا۔ کچھ مہینے اسکی بھی خوب عیاشی رہے گی ، پھر واپس سعودیہ لوٹ جائے گا اور میں اپنے پیٹ میں اسکا تخم سمو کر نو مہینے انتظار کر وں گی۔۔۔ ” یہاں آکر سیما کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوگئی ۔ اس نے با ہر کے دروازے کی جانب دیکھا، ذرا اٹھ کر بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا ئی اور ٹانگیں سمیٹ کر ڈائری کو گود میں رکھ لیا۔
“اسے اس بات کے بارے میں بھی کچھ عرصے بعد بتایا جائے گا، وہ سب سے مبارکیں بٹورے گا اور پھر مجھے بھی فون پر کہے گا ‘ہاں۔۔۔ کیسی ہو؟ اچھا۔۔۔ اپنا بہت خیال رکھنا۔۔۔’ اور میں بس ‘جی’ کہوں گی۔۔۔ کچھ کہنا بھی چاہوں گی تو اپنے ارد گرد بِھیڑ دیکھ کر خاموش رہ جاؤں گی ۔ ۔۔ پھر وہ ایک سال بعد آکر اپنے دو مہینے کے بچے کے ساتھ خوب کھیلے گا اور جاتے جاتے اگلے کا بیچ بھی بو جائے گا۔ میں پھر وہ تخم بھی نو مہینے اپنے شکم میں رکھوں گی۔۔۔۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا، جب تک وہ چاہے گا۔ ” سیما کی پیشانی پر سلوٹیں آچکی تھیں ۔

“بڑی بھابھی کی جیسی زندگی ہوگی میری بھی۔ مگر کیا کروں ۔ یہاں رہنا بھی تو دشوار ہوگیا اب۔ بڑی بھابھی کے طعنے کون سنتا رہے۔ میں تو ٹوٹ کر بکھر جاتی ہوں، روز ہی۔ ایک شیشے کی طرح۔۔۔ اور میری کرچیاں کہاں کہاں جاتی ہیں میں خود نہیں جانتی۔ ہواؤں کے پیچھے بھاگتی ہوں، خیالوں کے بہت سارے تانے بانے بُنتی ہوں۔ رات رات بھر جاگتی ہوں، تنہا ہی گھنٹوں صحن میں ٹہلتی رہتی ہوں، کبھی چھت پر ۔ ۔۔ کوئی کیا جانے کہ مجھے اس گھر سے کوئی لگاؤ نہیں۔ بچپن سے ہی بتایا گیا ہے کہ یہ گھر میرا نہیں اور جہاں جاؤں گی وہ گھر بھی میرا کہاں ہوگا؟ ایسے بہت سارے سوال دماغ میں گر دش کرتے رہتے ہیں ۔ میں کیسی ذات رکھتی ہوں؟ میں انسانوں کی کون سی صف میں کھڑی ہوں؟ یہ لوگ۔۔۔ یہ لوگ جو مجھے کہتے ہیں کہ میرا مستقبل اچھا ہوگا ، میرے حال تک سے تو واقف نہیں۔ کیسے مان جاؤں کہ ان کی باتوں میں صداقت ہے؟ ” سیما نے ایک ٹھنڈی آہ بھر ی اور آنکھیں ڈائری سے ہٹا کر کچھ پل چھت کے ایک کونے میں دیکھتے ، نچلے ہونٹ کو دانتوں میں لیے کچھ سوچا اور پھر سے پڑھنا شروع کیا۔

“بھیّا سے ملنے پر سب کو اعتراض ہے۔ کیوں نہ ملوں ؟ میری بات سنتے ہیں۔ میری بات مانتے ہیں، مجھے اپنا کہتے ہیں۔ نجانے سب کو کیا تکلیف ہوتی ہے جب میں بھیا سے ملنے جاتی ہوں۔ مجھے کہا جاتا ہے تمہارے اپنے بھائی بھی ہیں ان سے پیار کروں، میرے اپنے بھائیوں اور بھیا میں بہت فرق ہے۔ ابھی پچھلی عید کی ہی تو بات ہے، بڑی بوا یہیں تھی ان کے سامنے کیا تماشہ لگا۔۔۔ وہ تھیں تو جان بچ گئی ورنہ لپکے تھے مارنے کو۔۔۔ پتہ چلا کہ بھیا نے میرے لیے سوٹ خریدا ہے اور گل بانو کو پیسے دیے کہ دونوں بہنیں جا کر بازار سے جو لینا ہے لے لو۔ میں نے اپنے جمع کیے ہوئے پیسوں سے بھیا کے لیے ایک پرفیوم لے لیا سبھی کے سینوں پر سانپ لوٹنے لگے۔ کہتے تھے سوٹ واپس کردوں ، وہ تو بوا جی بولیں کہ کیوں واپس کر دے سوٹ؟ کیا برا کیا ؟ وہ بھائی کہتی ہے اُسے، اُس نے سوٹ لے دیا تو اِس نے بھی پرفیوم دے دیا۔ اب ایسے پیچھے پڑنے کا کیا مطلب ہوا؟ بھابھی نے کیا کیا طعنے نہ دیے، سگے بھائیوں نے کیا کیا نہیں کہا۔ ۔۔ بس ہاتھ اٹھنا باقی رہ گیا تھا، بوا نہ ہوتیں تو وہ بھی ہو جاتا۔
اب خوش ہوں لیں، جا رہی ہوں۔ سالوں بعد لوٹ کر آیا کروں گی۔ سچ کہوں تو مجھے یہاں سے جا کر کسی کی یاد نہیں آئے گی۔ ہاں مگر جب جب کوئی میری بات سننے والا نہ ملے گا تو بھیا کی یاد آئے گی، جب جب میرا دل کرے گا کہ کوئی مجھے پیار کے میٹھے بول کہے تو بھیا کی یا د آئے گی۔ جب جب میرا جی دنیا سے اٹھ جایا کرے گا تو کوئی حوصلہ دینے والا بھیا جیسا چاہیے  ہوگا۔ مگر کیسے آؤں گی بھیا کے پاس؟ میرے اپنے تو برداشت نہیں کرتے، میرا سسرال کیسے برداشت کرے گا۔ میاں تو طلاق کی دھمکی طمانچے کی طرح منہ پہ مار کر چپ کرا دیں گے۔۔۔”

دروازہ کھلا تو سیما نے ڈائری فوراً بند کر دی۔ بڑی بھابھی سر پر پٹی باندھے سامنے کھڑی تھی۔ ” اے سیما میری بہن۔۔۔ دو روٹیاں پکا لے۔۔۔ میرا سر تو آج میری جان لے کر رہے گا۔۔۔ ” یہ کہہ کر بڑی بھابھی سیما کا جواب سنے بغیر کمرے میں سے کھسک گئی اور سیما ڈائری الماری میں رکھ کر کچن کی طرف چل پڑی۔
کچھ دن بعد رابو اپنا نومولود بچہ گود میں لیے میکے آگئی۔ آنکھوں کے گرد حلقے تھے، گالوں پر چھائیاں۔۔۔ اُداس سا چہرہ۔۔۔ کوئی بات کرتا تو جواب دیتی، کوئی ہنستا تو پھیکی سی ہنسی وہ بھی ہنس دیتی۔۔۔ اسی دوران ایک دن سیما نے دیکھا کہ رابو سٹور میں کچھ ڈھونڈھ رہی ہے۔ سیما سمجھ گئی۔ رابو اپنی ڈائری تلاش کر رہی تھی۔ اس نے سوچا کہ رابو کو ڈائری دے دے، مگر پھر خیال آیاکہ وہ کیا سوچے گی، کہ میں نے اسکی ڈائری اپنے پاس رکھی، پڑھی بھی ہوگی۔ کسی کی ڈائری ایسے پڑھنا اچھا نہیں۔ وہ نجانے کیا کیاکہہ دے۔
رابو ڈائری کے لیے بے چین تھی۔ وہ سٹور میں کئی چکر لگا چکی تھی۔ جب سیما نے اسکی بے چینی دیکھی تو اس سے بات کی۔
“رابو۔۔۔ تم کچھ سٹور میں ڈھونڈھ رہی تھیں؟ “
“نہیں۔۔۔ میں تو ایسے ہی۔۔۔ تم لوگوں نے ساری سیٹنگ بدل دی۔ پیٹی کو سامنے والی دیوار سے ہٹا کر شلف والی دیوار کے آگے رکھ دیا۔ شیلف پر برتن رکھے ہوتے تھے۔”
“ہاں۔۔۔ برتن وہاں سے اٹھا لیے تھے۔ چھوٹے صحن کا دروازہ پیٹی کی وجہ سے بند رہتا تھا، سوچا ایسے وہ بھی کھل جایا کرے گا۔ ” سیما نے رابو کے بچے کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا

“سیما وہ۔۔۔۔” رابو یہ کہہ کر کچھ دیر رکی، سیما اس کی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔ “سیما میری کچھ چیزیں تھیں۔ میرا مطلب ایک ڈائری تھی کچھ شعر لکھے ہوئے تھے اس پر۔۔۔ کل میں دیکھتی رہی، کہیں نہیں ملی۔۔۔ پھینک دی کیا؟” رابو نے رک رک کر سوال کیا۔
سیما نے کچھ پل اس کے چہرے کی طرف دیکھا اور مسکرائی “نہیں۔۔۔ کیسے پھینک سکتی تھی۔ میرے پاس ہے، الماری میں رکھ لی تھی، سوچا تم آجاؤ تو دے دوں گی۔”
رابو نے سیما کی آنکھوں میں جھاکتے ہوئے سوال کیا “وہ۔۔۔۔ اچھا کیا رکھ لی۔۔۔ ایسے ہی بس۔۔۔ لکھا تھا اس میں۔ تمہیں تو پتہ ہی ہوگا، شادی سے پہلے سبھی کو شوق ہوتا ہے۔ اچھا۔۔۔وہ۔۔۔وہ ڈائری تم نے پڑھی بھی؟”
سیما نے نظر چُرا لی “ہاں۔۔۔ میں نے بھی ایسی ڈائری بنا رکھی تھی، غزلیں ، نظمیں اور۔۔۔۔”
سیما یہ کہہ کر رکی تو رابو نے فوراً پوچھا “اور۔۔۔۔؟ اور کیا؟”
سیما ہنسی ” کچھ نہیں بس پاگلوں والی باتیں۔۔۔”
رابو بھی مسکرائی مگر مسکراہٹ میں پھیکا پن تھا۔ رابو نے اپنے بچے کے گال چھوتے ہوئے کہا”ہاں۔۔۔۔ پاگلوں والی باتیں۔ ہم لڑکیاں بہت پاگل ہوتی ہیں۔ جوان ہوتے ہی اپنی ذات تلاش کرنے لگ جاتی ہیں، جب ہم سمجھتی ہیں کہ ہم بیٹیاں اور بہنیں ہیں، تو کچھ ہی عرصے میں محبوبہ کا روپ دھار لیتی ہیں، محبوبہ ہو کر ہم کیسی ہیں یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم بیویاں بن جاتی ہیں۔ بیوی سے ایک دن ماں۔۔۔ ماں سے ساس۔۔۔ کس رشتے کو قائم رکھیں، کسے چھوڑ دیں سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔۔ اپنی ذات کی یہ تلاش کبھی ختم نہیں ہوتی۔”

سیما سنجیدگی سے اس کی بات سنتی رہی آنکھوں میں پانی بھرا ہوا تھا، پھر وہ بولی “ہاں تم ٹھیک کہتی ہو۔ ہم ساری عمر اپنی تلاش میں گزار دیتی ہیں۔ اپنی ذات کو کھوجنے میں ” کچھ لمحے دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتی رہیں اور پھر سیما ایک ٹھنڈی آہ بھرنے کے بعد مدھم آواز میں بولی “میں تمہیں ڈائری لا دیتی ہوں”

سیما ڈائری لائی اور رابو کو مسکراتے ہوئے تھما کر چلی گئی ۔ رابو نے بچے کو ایک طرف لٹا کر ڈائری کے اوراق پلٹے اور اپنی تحریر جو شادی کے تین دن پہلے لکھی تھی، کی آخری سطور پڑھتے ہوئے کچن کی جانب بڑھی
“آہ۔۔۔ ایک بار تو ضرور ملوں گی بھیا سے۔ چاہتی ہوں کہ جانے سے پہلے ایک بار ان کے گلے لگوں، سینے پر سر رکھ کر بہت دیر ان کے سینے کے بالوں کو اپنی انگلیوں سے سہلاتی رہوں۔ اور وہ مجھے بانہوں میں بھر کر کچھ دیر لیٹے رہیں۔ سب سے نظر چُرا کر چوری چوری ملنے کا مزہ ایک بار پھر سے لوں۔ وہ ہلکا ہلکا سا ڈر اور وہ گہرا سا سرور۔ ۔۔ وہ ہونٹوں کی حدت ، وہ بوسوں کا لمس ۔۔۔ پھر نجانے کب یہ موقع ملے۔ ملے گا بھی کہ نہیں۔۔۔ کیا معلوم۔۔۔ ” رابو کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔۔۔ یہ سطور پڑھتے پڑھتے رابو کچن میں داخل ہو چکی تھی، اس نے ڈائری سے نظر ہٹا کر دیکھا تو اس کے پیچھے ہی سیما بھی کچن میں داخل ہو رہی تھی۔ رابو نے نظریں چُرا لیں۔
“تم۔۔۔۔! “
“ہاں میں۔۔۔ کچھ کھا نا ہے تو میں بنا دوں؟ ” سیما نے مسکراتے ہوئے رابو سے پوچھا۔
“نہیں۔۔۔ سیما۔۔۔۔ تم نے یہ ڈائری پڑھی۔۔۔۔ کیا ساری پڑھی؟ شروع سے آخر تک؟” رابو نے ڈائری کو اپنے دونوں ہاتھوں میں دباتے ہوئے سیما سے پوچھا۔
“ہاں۔۔۔ پڑھی بھی اور سمجھی بھی۔ پڑھنے کے بعد کئی روز میں اس پر سوچتی رہی۔” سیما رابو کے قریب آئی۔
“مگر کوئی بات نہیں کی۔۔۔ کیوں نہیں کی؟ شاید تم بھی تو ایک عورت ہو، اس لیے۔۔۔ مگر بڑی بھابھی بھی تو ایک عورت ہی ہے۔۔۔”

رابو کی یہ بات سن کر سیما کی مسکراہٹ اور گہری ہوئی ” کیا بات کرتی؟ ہاں! عجیب ضرور لگا ، بھیا۔۔۔ اور آشنا۔۔۔ مگر کیا کیا جا سکتا ہے؟ ہم لڑکیاں جب کسی کو دوست یا آشنا کہتی ہیں تو معاشرہ برداشت نہیں کرتا۔۔۔ بھائی کا لیبل لگتے ہی سب پارسائی کی سند دے دیتے ہیں۔ کوئی بھی لڑکی ، میرے جیسی لڑکی، تمہارے جیسی لڑکی۔۔۔ اپنے بھائیوں کو چھوڑ کر جب کسی کو بھائی بناتی ہے، تو کبھی کبھی وہ بے وقوف خود نہیں جانتی کہ اصل میں اُسے پسند کرتی ہے۔۔۔ ملنا بھی چاہتی ہے۔۔۔ دوستی کرنا چاہتی ہے۔ اس سے بات کرنا چاہتی ہے۔ اس کے لیے ایک ایسے رشتے کا سہارا لینا پڑتا ہے جو معاشرے کو بھی منظور ہو۔۔۔ اگر یہ پابندیاں نہ لگائی جائیں تو وہ اس مرد کو اپنا دوست یا آشنا ہی کہے۔۔۔۔ بھیا نہیں۔۔۔بھائی تو صرف وہی ہو سکتا ہے جس نے ایک ہی ماں کے بطن سے جنم لیا ہو۔۔۔ باقی تو پارسائی کے لیبل ہیں۔۔۔ اور میں یہ بھی سمجھتی ہوں رابو کہ ہم کچھ تعلقات پاک نیت سے ہی بناتے ہیں، لیکن بعض اوقات حالات و واقعات اسے نازک موڑ پر لے آتے ہیں۔ میں نے کچھ نہیں پڑھا ، پریشان مت ہونا” سیما نے پیار سے رابو کے گال پر تھپکی دی۔

رابو نے سیما کا وہی ہاتھ تھام کر چوم لیا ۔۔۔ اتنے میں بڑی بھابھی کچن میں داخل ہوئی۔۔۔ “اے۔۔۔ سیما میری بہن وہ بچے۔۔۔ اے لو۔۔۔ رابو تجھے کیا ہوا؟ یہ تیری رونے کی عادت نہ گئی۔۔۔ خیر! اچھا سیما سُن وہ بچے سکول سے آتے ہوں گے، انھیں کھا نا تو کھلا دینا۔ میں ذرا حکیم صاحب سے دوائی لے آؤں۔۔۔” بڑی بھابھی خود کو چادر میں لپیٹتے ہوئے باہر نکل گئیں اور سیما بھی ان کے پیچھے پیچھے چل پڑی۔۔۔
رابو نے ماچس کی ڈبیا میں سے ایک دیا سلائی نکال کر جلائی اور چولہے میں جھونک دی۔۔۔ ‘بھپ ‘ سےآگ جلی ۔۔۔ اس نے بہتے اشکوں کے ساتھ وہ ڈائری اس آگ پر رکھ دی۔۔۔

چولہے کی آگ بڑھی۔۔۔

کئی چنگاریاں ہوا میں بلند ہوئیں ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور پھر بے وزن سی راکھ زمین پر اترنے لگی!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply