کپاس (34) ۔ لیبر قوانین/وہاراامباکر

ابتدائی صنعتی قوانین مزدوروں کے لئے کڑے تھے۔ 1823 میں جاری ہونے والا ماسٹر اینڈ سرونٹ ایکٹ انگریز آجر کو اجازت دیتا تھا کہ اگر مزدور اپنے ملازمت کے معاہدے کی خلاف ورزی کرے تو آجر اسے تین ماہ تک کی سخت مشقت کی سزا دے سکتا تھا۔ اور 1857 سے 1875 کے درمیان انگلینڈ اور ویلز میں سالانہ دس ہزار ورکرز کو ایسی سزا ملتی تھی۔ کئی کو جیل بھیجا جاتا تھا۔ پروشیا میں انیسویں صدی کے آخر تک ورکر کو ملازمت چھوڑنے پر جرمانہ کیا جا سکتا تھا۔ اسے بغیر بتائے چھوڑ جانے پر قید بھی ہو سکتی تھی۔ کام چوری اور بڑی نافرمانی کی سزا چودہ دن کی جیل تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن مزدور ڈھونڈنا اور انہیں کام پر رکھنا آسان نہیں تھا۔ ملازمین جلد چھوڑ جاتے تھے۔ کچھ مہینے سے زیادہ کم ہی ٹکتے تھے۔ بارسلونا میں جوآن سائرس اس میں کئی جدتیں لے کر آئے۔ میاں بیوی کو اور خاندان کے ممبران کو اکٹھی ملازمت دی جاتی تا کہ سب اکٹھے رہیں اور فیملی کی آمدنی اچھی ہو۔ سائرس نے ملازمین کے لئے رہائش کی عمارتیں تعمیر کروائیں۔ یورپ میں ہنرمندوں کے لئے ایسا کئے جانے کی روایت رہی تھی۔
امریکہ میں ڈوور مینوفیکچرنگ کمپنی کے ریکارڈ کے مطابق 1824 کے 140 ورکرز کی اسامیاں پوری کرنے کے لئے ایک سال میں 342 ملازمین کو بھرتی کیا گیا۔ لوگ آتے تھے اور جیسے ہی فیکٹری سے باہر کوئی موقع میسر آتا تھا تو چلے جاتے تھے۔ یا کوئی کسان صرف چند ہفتوں کی ملازمت کے لئے ہی مزدوری کرنے آتا تھا تا کہ اپنی فصل میں ہونے والے خسارے کو پورا کر کے واپس اپنی زمین پر چلا جائے۔
ہر ملک کے ساتھ صنعت کی ابتدا میں ایسا ہی ہوا۔ مشینی دھاگے اور کپڑے کی آمد نے دیہات میں ہاتھ سے کام کرنے والے کو بے کار کر دیا۔ ان کو آمدنی کے لئے کہیں اور دیکھنا تھا اور ان میں سے کئی کے لئے واحد جگہ وہی والی فیکٹری تھی جس نے اسے بے روزگار کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکثر اوقات یہ دیہاتی زمینیں چھوڑ کر شہر آ گئے۔ صنعتکاری نے بڑے پیمانے پر انسانی ہجرت کروائی۔ بہت بار قومی سرحدوں کو پار کر کے۔ آئرلینڈ سے آلو کے قحط میں بھاگ کر جانے والوں نے نیوانگلینڈ کی فیکٹریوں میں روزگار پایا۔ ڈچ، بلجین، کاٹالونین اور فرنچ صنعت بھی دیہات سے آنے والے معاشی مہاجرین پر منحصر تھی۔
ان دیہاتیوں کو اپنی زرعی زمین اور اپنی گھریلو دستکاری کو ترک کرنا پڑا۔ فیکٹریوں میں زیادہ اجرت والے کام کے لئے بھی ہنر درکار تھا لیکن یہ ویسے ہنر سے مختلف تھا جسے یہ چھوڑ کر آئے تھے۔ فیکٹریوں کے ماہر ہنرمندوں کی مانگ زیادہ تھی اور یہ دوردراز کے علاقوں تک پرکشش اجرتوں پر بھرتی ہوئے۔ روسی شہر ناروا میں 1822 میں شوارز کاٹن کلاتھ فیکٹری میں 35 جرمن، ایک فرنچ رنگنے والا اور ایک ڈچ ملازمین تھے۔ برٹش ہنرمندوں کی فرانس، میکسیکو، امریکہ اور دوسری جگہوں پر مانگ تھی۔
لیکن ان ورکرز کی اکثریت ایسی نہیں تھی۔ 1820 کی دہائی میں یورپ میں آنے والی بے روزگاری کی بڑی لہر اس وقت آئی جب پاور لوم نے ہاتھ کی بنائی کی جگہ لے لی۔ اور اس کی وجہ سے ماہر کاریگر جولاہوں کے کام ٹھپ ہو گئے۔
خاندانوں کو اپنے گھر کے ایک فرد کو کارخانے کی ملازمت کروانا پڑتی یا پھر کئی افراد کچھ دیر کے لئے ملازمت کرتے۔ لوول میں خاص طور پر خواتین یہ کام کرتیں تا کہ فیملی زمین پر رہ سکے۔
اجرتوں کے تفصیلی ریکارڈ یہ سب بڑی دلچسپ تفصیل کے ساتھ بتاتے ہیں۔ 1823 میں لوول میں 89 فیصد ورک فورس خواتین پر تھی۔ اور سال میں ایک ورکر اوسطاً 25 ہفتے کام کرتا تھا۔ اکتوبر کا وسط فصلیں کاٹنے کا سیزن تھا۔ اس میں ایک تہائی خواتین نے ایک ہفتے کے لئے چھٹی لے لی۔ ان کے لئے زرعی کام کا ردھم فیکٹری کی زندگی سے جدا نہیں تھا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply