بوڑھے بابے کے آنسو اور لاعلمی کی نعمت /ڈاکٹر نوید خالد تارڑ

دیکھو لاعلمی کتنی بڑی نعمت ہے کہ گلی کی نکر پہ دودھ دہی کی دکان پہ بیٹھا بوڑھا بابا جو ہنسنا بھول گیا ہے، وہ جانتا ہی نہیں کہ اس کی مسکراہٹ چھیننے والا کون ہے۔

چھ ماہ پہلے جوان بیٹے کے لاشے کو کاندھے پہ اٹھائے اسے علم ہی نہیں ہوا کہ اس کا بیٹا طبعی موت نہیں مرا، اسے قتل کیا گیا ہے۔

بوڑھا بابا آنکھوں میں آنسو لیے آتے جاتے ہر نوجوان کے سر پہ ہاتھ پھیرے انھیں پیار دیتا رہتا ہے، دعائیں دیتا رہتا ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ اس کے بیٹے کا قاتل ان میں سے بھی کتنے ہی نوجوانوں کو قتل کر دے گا۔

اس کا بیٹا ہیپاٹائٹس کا شکار ہوا تو اس نے خود کو الزام دیا کہ میں ساری عمر اتنا کما ہی نہیں پایا کہ اپنے بیٹے کا علاج کسی اچھے ڈاکٹر سے کروا سکوں۔ اس نے اپنی غربت کو الزام دیا، اس نظام کو الزام نہیں دیا جس نے اسے غربت کی لکیر سے اٹھنے ہی نہیں دیا۔

اس نے بیٹے کا علاج سرکاری ہسپتال سے کروایا اور جب بیٹے کے علاج کے لیے مہنگے ٹیکوں کی ضرورت پڑی تو وہ انھیں خرید ہی نہیں سکا۔

دیکھو لاعلمی کتنی بڑی نعمت ہے کہ اسے پتا ہی نہیں چلا کہ وہ ٹیکے جو اس کے بیٹے کا علاج کر سکتے تھے، جو اس کے بیٹے کی جان بچا سکتے تھے، وہ ہسپتال میں پڑے خراب ہو رہے تھے لیکن ڈاکٹر کو انھیں استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی کیونکہ ڈاکٹر کو حکم تھا کہ انھیں وی آئی پیز کے لیے بچا کر رکھنا ہے۔ ڈاکٹر کو دوائی تو دی گئی ہے لیکن اسے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور اگر وہ نافرمانی کرے گا تو اسے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جائے گا۔

پتا ہوتا تو وہ جا کر ڈاکٹر کا گریبان پکڑتا، اسے زمین پہ گھسیٹتا اور یہ کبھی نہ جان پاتا کہ وہی ڈاکٹر کتنی دفعہ ایسی انجان جوان موت پہ گھر کے کونے میں بیٹھ کر روتا رہا ہے۔ وہ کبھی نہ جان پاتا کہ اس ڈاکٹر کا گریبان تو میرے ہاتھ میں ہے لیکن اس کے اپنے ہاتھ کتنے بندھے ہوئے ہیں۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے اسے دوائی ٹارگٹ سے نیچے نہیں آنے دینی کیوں کہ بڑے صاحب کا یہی حکم ہے۔ بابا جی نہیں جانتے کہ اس مادر پدر معاشرے میں بڑے صاحب کا حکم نہ ماننے والے کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔

بوڑھا بابا کچھ نہیں جانتا، وہ تو ساری عمر کما کما کر اس نظام کو دیے گئے اپنے ٹیکس کا حساب بھی نہیں لے سکتا کیونکہ وہ اس کا شعور ہی نہیں رکھتا۔

بوڑھا بابا کچھ نہیں جانتا، وہ تو جوان بیٹے کے جنازے کو کاندھا دے کر آیا ہے تو بس چپ کر کے بیٹھ گیا ہے۔ بالکل چپ کر کے بیٹھ گیا ہے۔ اگر اسے پتا چل جائے کہ اس کا بیٹا طبعی موت نہیں مرا، اسے اس نظام نے مارا ہے تو کیا وہ چپ کر کے بیٹھ پائے گا ؟
اسی لیے تو کہتا ہوں لاعلمی بہت بڑی نعمت ہے۔

بوڑھا بابا ہنسنا بھول گیا ہے، اکیلے میں اپنے آپ کو قصوروار گردانتا رہتا ہے کہ میں عمر بھر محنت کر کے بھی غریب ہی رہ گیا۔ اپنے بچے کا علاج نہیں کروا سکا۔ وہ یہ نہیں جانتا کہ اسے غربت کی لکیر سے نیچے رکھنے والا کون ہے۔ اس کے بیٹے کو مارنے والا کون ہے۔ وہ نہیں جانتا اس کی محنت کا صلہ اسے کیوں نہیں ملا۔ وہ نہیں جانتا کہ محنت کر کے بھی بنیادی ضروریات اس کی پہنچ سے باہر کیوں رہ گئیں۔
جانتا ہوتا تو کیا سکون سے رہ پاتا ؟
دیکھو اسی لیے کہتا ہوں لاعلمی بڑی نعمت ہے۔

گلیوں میں پھرتے کتنے ہی لوگ نہیں جانتے کہ وہ بھی آہستہ آہستہ ایسی ہی موت مر رہے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ قاتل نظام کیسے انھیں آہستہ آہستہ زہر دے کر موت کے گھاٹ اتار رہا ہے۔ جان لیں تو کیا سکون سے رہ پائیں؟ لاعلمی بڑی نعمت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن میں تو جانتا ہوں نا۔۔۔
میں اس بوڑھے بابے کو روتا دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے میرا کلیجہ چیر دیا ہے کسی نے۔ مجھے اس کے آنسو زمین پہ نہیں اپنے دل پہ گرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ۔ اگر وہ کسی دن سب جان گیا تو مجھے گریبان سے پکڑ کر گلیوں میں گھسیٹے گا کہ تم بھی میرے بیٹے کے قتل میں شامل ہو۔ میں اس کو ہنسانے کے لیے اس کے پاس بیٹھا رہتا ہوں، بے ڈھنگی باتیں کرتا رہتا ہوں لیکن وہ نہیں ہنستا تو میں گھر آ کر کسی کونے میں چھپ کر رونے لگتا ہوں کیونکہ لاعلمی بڑی نعمت ہے اور میں اس نعمت سے محروم کر دیا گیا ہوں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply