پرتگیزی ہندوستان۔۔ہمایوں احتشام

عموماً یہ سنا جاتا ہے کہ پورا ہندوستان برطانیہ کی نوآبادی تھا۔ راس کماری سے پشاور تک کا مالک و مختار انگریز بہادر یا برطانوی راج ہوتا تھا۔ یہ باتیں معروضی طور پر تو ٹھیک ہیں، لیکن موضوعی طور پر غلط۔ تقسیم سے پہلے برصغیر میں 562 کے قریب باجگزار دیسی ریاستیں تھیں۔ جو اندرونی طور پر خودمختار لیکن بیرونی طور پر انگریز کی محتاج ہوتی تھیں۔

اس کے علاوہ بھی برصغیر میں کچھ یورپی ممالک کی نوآبادیاں تھیں۔ جیسے پانڈی چری فرانسیسی نوآبادی تھی۔ بنگال، سورت اور مالابار میں ولندیزی نوآبادیاں تھیں۔ حتی کہ 1796 تک سری لنکا بھی ایک ولندیزی نوآبادی تھی، جو انھوں نے پرتگیزی استعمار کو شکست دے کر حاصل کی۔ برصغیر میں اس کے علاوہ بھی ایک نوآبادی موجود تھی، جو تقسیم کے چودہ سال بعد تک پرتگالی استعمار کے براہ راست قبضے میں رہی۔ یہ نوآبادی گوا اور اس کے ملحقہ علاقوں پر مشتمل تھی۔ 1961 میں بھارتی فوج نے پرتگالی افواج کو شکست دے کر اس نوآبادی کا قبضہ چھڑوایا۔

ہندوستان میں پرتگیزی نوآبادی کا سرکاری نام پرتگیزی ریاست آف انڈیا تھا۔ جسے عام طور پر پرتگیزی ہندوستان کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس نوآبادی میں گوا، دادرا اور نگر حویلی، دامان اور دیو کے علاقے شامل تھے۔ اس نوآبادی کی بنیاد ہندوستان کے سمندری راستے کی دریافت کے پانچ، چھ یا سات سال کے بعد رکھی گئی۔ واسکوڈے گاما نے کالی کٹ کے مقام پر قدم رکھنے کے بعد سب سے پہلے وہاں کے راجہ زیمورن سے ملاقات کی اور ان سے تجارت کا معاہدہ کیا۔ لیکن اس معاہدے میں یہ شق رکھی گئی کہ تمام عرب مسلمان تاجروں کو تجارتی طور پر بے دخل کیا جائے۔ جس کو راجا نے بے دردی سے ٹھکرا دیا۔ اس کے بعد تجارتی مال کو واپس لے جاتے وقت جب پرتگیزیوں سے کسٹم ڈیوٹی کی مد میں سونا لیا جانے کی بات کی گئی تو وہ برانگیختہ ہوگئے اور شہر پر بمباری کردی۔ راجا کی کسٹم نے پرتگیزیوں کے ایجنٹ اور کچھ جہاز دھر لئے۔ اس کے بعد راجا زیمورن کی فوجیں حرکت میں آئیں اور پرتگیزیوں کو مار بھگایا۔

پیدرو الوارس کابرال جو برازیل میں پرتگیزی فتوحات میں مصروف تھے، ان کو ہندوستان بھیجا گیا۔ 1500 میں وہ ہندوستان پہنچے اور کوزے کوڈی (کیرالہ) میں فیکٹری لگانے کی اجازت طلب کی، جس کو قبول کرلیا گیا۔ مگر اگلے ہی سال مقامیوں نے فیکٹری پر ہلا بول دیا اور پچاس سے زائد پرتگیزیوں کو مار دیا۔ حالات پھر سے خراب ہوگئے۔ پیدرو کابرال نے بندرگاہ پر کھڑے دس عرب جہازوں کو قبضے میں لے کر ان کے عملے کے چھ سو افراد کو قتل کردیا اور جہازوں کو آگ لگا دی۔ سارا دن اور رات کالی کٹ پر پرتگیزی جہازوں کے زریعے بمباری کی گئی۔ تاہم کانور اور کوچن کے راجاوں کے ساتھ کابرال تجارتی معاہدے کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ 1502 میں پرتگیزیوں نے وجے نگر کے ہندو راجا کی مدد سے پولی کٹ میں ایک قلعہ تعمیر کیا۔

پرتگیزی ہندوستان کے پہلے وائسرائے فرانسیسکو دی المیدا

1502 میں پھر سے واسکوڈے گاما کالی کٹ آ پہنچے اور پھر سے مطالبہ کیا کہ مسلمان تاجروں کو شہر سے نکال باہر کیا جائے، اس بار بھی مطالبے کو ٹھکرا دیا گیا۔ واسکوڈے گاما نے شہر پر بحری جہازوں کی مدد سے بمباری کی اور چاول کی بڑی مقدار چھین کر 1503 میں پرتگال واپس فرار ہوگئے۔

1505 میں فرانسیسکو دی المیدا کو وائسرائے برائے پرتگیز انڈیا لگایا گیا اور ان کو حکم دیا گیا کہ وہ برصغیر میں چار پرتگیزی قلعے تعمیر کریں۔ کوچن، انجےدیوا جزائر، قولن وغیرہ۔ ہندوستان پہنچتے ہی المیدا نے پہلا کام انجے دیوا اور کانور میں قلعوں کی تعمیر کا شروع کیا، جو وہاں کی راجاوں کی جانب سے دوستانہ رویہ اختیار کرنے کی وجہ سے ممکن ہوسکا۔ اس کے بعد المیدا کوچن پہنچے اور وہاں ان کو معلوم ہوا کہ قولن کے مقام پر پرتگیزی تاجروں کو قتل کردیا گیا ہے، قاتلوں کی سرکوبی کے لئے المیدا نے اپنے بیٹے لورنزو دی المیدا کو کالی کٹ بھیجا۔

1506 میں زیمورن راجا کالی کٹ نے 200 بحری جہازوں پر مشتمل بیڑہ تیار کرکے پرتگیزیوں پر حملہ کردیا۔ جس میں بدقسمتی سے راجا زیمورن کو شکست فاش ہوئی اور لورنزو دی المیدا کو کامیابی حاصل ہوئی۔ جنگ کانور میں پرتگیزی فتح نے علاقے میں ان کی دہشت بیٹھا دی۔ لیکن اگلے ہی سال کانور میں اقتدار میں آنے والا نیا راجا پرتگیز مخالف نکلا۔ اس نے 1507 میں پرتگیزی فوج پر حملہ کرکے ان کو شہری ریاست سے مکمل بے دخل کردیا۔

چول کی بحری جنگ میں سلطنت گجرات اور مملوک حکمرانوں نے مل کر پرتگیزیوں کو عبرت ناک شکست دی اور اس جنگ میں لورنزو دی المیدا اپنی زندگی کی بازی ہار گئے۔ تاہم جنگ دیو میں ہندی-مصری اتحاد کو پرتگیزیوں نے شکست فاش کیا اور بحر ہند کے تمام بڑے تجارتی مراکز اور بندرگاہیں پرتگیزی کنٹرول میں چلی گئیں۔

1509 میں افونسو دی البوکریک کو دوسرا وائسرائے ہند لگایا گیا اور خصوصی ہدایت کی گئی کہ زیمورن راجا کالی کٹ کو شکست فاش دے کر اس کی ریاست پر قبضہ کیا جائے۔ افونسو نے ہندوستان آتے ہی زیمورن کے محل پر قبضہ کرلیا اور لوگوں کا قتل عام شروع کردیا۔ راجا کی فوجیں حرکت میں آئیں اور البوکریک کی افواج کو مار بھگایا، اس شدید حملے میں البوکریک شدید زخمی ہوئے اور 1513 میں راجا زیمورن کے ساتھ امن معاہدہ کیا کہ مالابار میں پرتگیزی مفادات کو متاثر نہ کیا جائے۔ حالات پھر سے سنگین اس وقت ہوئے، جب راجا زیمورن کو قتل کرنے کی پرتگیزی سازش بنی گئی۔ پھر سے پرتگیزیوں کو کالی کٹ نکالا مل گیا۔

1510 میں وجے نگر کے ہندو راجا کی حمایت سے پرتگیزیوں نے سلطان بیجا پور کو شکست دے کر ویلہا گوا (قدیم گوا) پر قبضہ کرلیا۔ جنوبی صوبوں کا صدر مقام گوا کو بنایا گیا اور وائسرائے بھی ادھر ہی مقیم ہوئے۔ جبکہ شمالی صوبوں کا صدرمقام فورٹ بیسین کو بنایا گیا۔ 1516 میں چنائی کے مقام پر ایک کلیسا تعمیر کیا گیا اور پھر 1522 میں ساو ٹوم کے نام سے ہندوستان میں دوسرا گرجا گھر بنایا گیا۔
پرتگیزیوں نے سلطان گجرات سے بمبئی، دیو وغیرہ جیسے کئی علاقے چھینے۔ 1526 میں کرناٹکا کا شہر مینگلور پرتگیزی قبضے میں چلا گیا جو 1640 میں نائیکا بادشاہت نے پرتگیزیوں کو بدترین شکست دے کر چھین لیا۔ 1546 سے پرتگیزی ہندوستان کی غیر عیسائی اقوام پر مذہب کے نام پر جبر شروع ہوا اور ان کو زبردستی عیسائی بنانے کا عمل ریاستی طور پر قبول کیا گیا۔

نوآبادی بنانے کے بعد گوا میں پرتگال کے چوروں، ڈاکووں، جیل سے فرار مجرموں اور دوسرے اخلاقی مجرمین کو آباد کیا گیا اور نفری 25000 تک پہنچا دی گئی۔ بمبئی کو 1604 میں شہزادی کیتھرائن دی برگینزا کے جہیز کے طور پر برطانوی بادشاہ چارلس دوئم کو دے دیا گیا۔ بعد میں مراٹھہ حکمرانوں نے شمالی صوبے مکمل طور پر پرتگیزیوں سے چھین لئے اور شمالی دارالحکومت فورٹ بیسین بھی پرتگالی قبضے سے نکل گیا۔ بعد میں 1779 میں دادرا اور نگر حویلی پرتگیزی قبضے میں آئے۔

1800 سے 1813 تک گوا برطانوی عملداری میں رہا، جو ایک معاہدے کے تحت واپس پرتگال کو مل گیا۔ 1843 میں دارالحکومت قدیم گوا سے پنجم (جدید گوا یا نوو گوا) منتقل کردیا گیا۔ وائسرائے کی رہائش بھی پنجم منتقل ہوگئی۔

پرتگالی میں ایک اصطلاح “بادشاہ کے یتیم بچے” استعمال ہوتی ہے۔ جس میں پرتگال میں آباد یتیم لڑکیوں کو پرتگیزی نوابادیوں میں بھیجا جاتا تھا، جہاں وہ دوسرے پرتگیزیوں یا اعلیٰ  معیار والے مقامیوں کے ساتھ شادیاں کرتی تھیں۔ اسی وجہ سے میسٹیکو نسل تیار ہوئی۔ موزمبیق، انگولہ اور ہندوستانی جنوبی ساحلوں پر پرتگالی نقش و نگار کے لوگ عام دیکھے جاسکتے ہیں۔

تقسیم کے بعد 1954 میں دادرا اور گوا کے لوگوں نے پرتگیزی قبضے کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا۔ ان پر امن مظاہرین پر پرتگیزی پولیس نے بدترین تشدد کیا۔ جس کی بھارت نے مذمت کی اور اپنا سفارت خانہ پنجم میں بند کردیا۔ بھارت نے سالازار آمریت سے مطالبہ کیا کہ وہ تشدد بند کرے اور خطے کو ڈی کالونائز کرے۔ بھارت اور پرتگال کے سفارتی تعلقات منقطع ہوگئے۔

1961 کے دسمبر میں بھارت نے تیس ہزار فوج چڑھا کر پرتگیزی نوابادیات پر قبضہ کرلیا۔ اسی دران پرتگالی گورنر کو سالازار رجیم کی جانب سے حکم آیا کہ “مرو یا مار دو لیکن سرینڈر نہیں کرنا۔” مگر چونکہ پرتگیزی انتظامیہ کے پاس صرف 3300 افراد پر کل نفری موجود تھی، پس بھارتی قبضہ آسانی سے ہوگیا۔ گورنر نے اپنے ہتھیار ڈالنے کا معاہدہ نامہ لکھا اور 1961 میں ساڑھے چار سو سال قدیم پرتگیزی نوآبادی (پرتگیز ہندوستان) کا خاتمہ ہوگیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

1974 میں پرتگال نے بھارتی قبضے کو تسلیم کرلیا۔ آج بھی گوا اور دادرا نگر حویلی وہ علاقے ہیں، جن میں بھارتی قانون کی بجائے پرتگالی سول کوڈ نافذ ہے۔

Facebook Comments

ہمایوں احتشام
مارکسزم کی آفاقیت پہ یقین رکھنے والا، مارکسزم لینن ازم کا طالب علم، اور گلی محلوں کی درسگاہوں سے حصولِ علم کا متلاشی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply