• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا فکر ِقائد سے آگہی کے لئے 11 اگست 1947 کی تقریر ہی واحد حوالہ ہے ؟۔۔سیّد عارف مصطفیٰ

کیا فکر ِقائد سے آگہی کے لئے 11 اگست 1947 کی تقریر ہی واحد حوالہ ہے ؟۔۔سیّد عارف مصطفیٰ

یہ فکری الجھاوا ہے یا محض خبث باطن ، جو کچھ بھی ہے مگر حضرت قائداعظم کی فقط ایک تقریر کو لے کر قیام پاکستان کی تحریک کا مقصد بدل کے رکھ دینے کی جو سازش مبینہ سیکولر حلقوں کی جانب سے مسلسل جاری ہے, اسے اب جلد سے جلد فنا کے گھاٹ اتارنے کا کام ہوجانا چاہیے اور اس کے ابطال یا توڑ کے   لیے   ضروری ہے کہ ہم بھی حضرت قائداعظم ہی کے چند دیگر مواقع پہ کہےگئے مستند اقوال و تقاریر کا سہارا لیں کہ یہی بمطابق عقل اور قرین انصاف بھی ہے تاکہ چند بکاؤ دانشور اس مملکت خدا داد کو غیرنظریاتی بناڈالنے کی جو سازشیں برسہا برس سے کرتے چلے آرہے ہیں ان کو  منہ توڑ جواب دیا جاسکے۔  اس کاوش کی ضرورت اس لیے بھی ہے کیونکہ برسہا برس سے ہوتا یہ آرہا ہے کہ ادھر ارض پاک کی آزادی کے سالانہ جشن کا موقع آتا ہے اور گلی گلی سبز ہلالی پرچموں کی بہار اور ملی ترنوں کی گونج دلوں کو مسرت اور سرور سے بھرنے لگتی ہے تو ادھر مبینہ سیکولر حلقوں سے تشکیل پاکستان کی غیرمذہبی تشریحات کا طومار باندھا جانے لگتا ہے اور جس میں پورا زور اس بات پہ لگایا جاتا ہے کہ اس مملکت پاک کے قیام کی بنیاد مذہبی مسئلہ نہیں بلکہ صرف معاشی مسئلہ تھا۔

درحقیقت سیکولرازم اور پاکستان دوستی کی آڑ میں   اس قسم کے جو لبرل کلہاڑے پاکستان کی نظریاتی اساس پہ چلائے گئے ہیں اس سے بڑی دشمنی تو شاید اور کچھ بھی ممکن نہیں، کیونکہ یہی نکتہ ہماری آزادی کا منبع ہے۔ یہ سامنے کی حقیقت ہے کہ جو وطن دنیا بھر کے دو سو سے زائد ممالک کی فہرست میں نظریاتی بنیادوں پہ قائم ہونے والا پہلا ملک کہلاتا ہے ، اگر اس کی یہ فخریہ شناخت ہی اس سے چھین لی جائے تو پھر تو اس کے قیام کا جواز ہی چھن جاتا ہے اور یوں مطالبہ پاکستان کی حیثیت ایک خواہ مخواہ کے علاقائی و سیاسی جھگڑے اور چند رہنماؤں کی انا اور ضد سے زیادہ کچھ نہیں رہ جاتی ۔

اس سارے معاملے میں ٹیپ کا بند 11 اگست 1947 کی وہ تقریر بنتی ہے کہ جس کی تشریح مذہبی و غیر مذہبی دونوں طبقے اپنے ڈھنگ سے کرتے ہیں اور اسے اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں جبکہ دلچسپ امر یہ ہے کہ دونوں طبقات کی تشریحات سے ایک ہی طرح کے مشترکہ معانی سامنے آتے ہیں اور وہ یہ کہ اس تقریر میں حضرت قائداعظم نے مملکت پاکستان کی ریاستی پالیسی کی بنیاد بے تعصبی کو قرار دیا تھا اور بلا امتیاز فرقہ و مذہب ،ہرشہری کے کے حقوق کو مساوی ٹھہراتے ہوئے انکے انسانی حقوق کی پاسداری کا یقین دلایا تھا اور بس ۔۔۔

کالم نگار:سید عارف مصطفیٰ

سچ تو یہ ہے کہ محض چند فیصدی آبادی پہ مشتمل اقلیتوں کے لئے قائداعظم کی یہ تقریر میثاق مدینہ کی اسپرٹ کے اسی رنگ میں رنگی ہوئی ہے کہ جس کے تحت ریاست مدینہ میں حکمرانی ملتے ہی سرور کائنات نے اپنی ریاست میں بسنے والے یہودیوں کے انسانی حقوق کے تحفظ و پاسداری کے نکات پہ مبنی ایک ایسا فراخدلانہ معاہدہ از خود کیا تھا کہ جس کی بابت یہودی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ ایک فاتح قوم سے مساوی سلوک کا مطالبہ کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے ۔۔۔ لیکن بدقسمتی سے سیکولر حلقے اس کی تشریح کے ڈانڈے لامذہبیت سے جاملانے میں ذرا شرم محسوس نہیں کرتے اور یوں دانشوری کے پردے میں اس مملکت کے قیام کی اس ساری عدیم النظیر جدوجہد کو رائیگاں کرڈالنے کی ہرممکن سعی کرتے ہیں کہ جس کا بنیادی محرک ہی اسلامیان ہند کا اپنے الگ مذہبی تشخص کے تحفظ کے لئے برصغیر کے منطقے میں ایک الگ خطہء زمین کا حصول تھا جبکہ مزاحمانہ جدوجہد میں بنگال کے حاجی شریعت اللہ اور شہید تیتو میر کی فرائضی تحریک اور توبار تحریک ، علی برادران کی خلافت موومنٹ ، مولانا محمودالحسن کی ریشمی رومال تحریک اور عبیداللہ سندھی کی تحریک ترک دارالحرب، سمیت متعدد واقعات اور مراحل ایسے نظر آتے ہیں کہ جن کی قؤت اور طاقت کا محور سراسر اسلامی احساسات و جذبات تھے۔

مملکت پاکستان کے ساتھ بڑی بدقسمتی یہ ہوئی کہ اسے نظریاتی مملکتی  بنیادوں پہ قائم تو کردیا گیا مگر وہ قیام کے محض چند ہی برس کے اندر اپنے بانیوں کی مخلص نظریاتی قیادت سے محروم ہوگیا اور مملکت کی باگ ڈور ان طالع آزماؤں کے ہاتھ میں آگئی کہ جن کا ملک کے قیام کی نظریاتی اساس یا اسکے لیے کی گئی جدوجہد سے ذرا بھی کوئی تعلق نہیں تھا- اور چونکہ ملک کی اسلامی نظریاتی شناخت پہ اصرار سے انکی بدعملیوں اور بدعنوانیوں کی راہ کھوٹی ہوتی تھی اس لئے اس طبقے نے اس روحانی شناخت ہی کو بدل ڈالنے پہ کمر باندھ لی اوراپنی مقصد برابری کے لیےدانشوروں کے نام پہ ایسے لادینی سوچ رکھنے والوں کو ساتھ ملالیا کہ جن کی اسلام بیزاری کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی – اہل فکر ونظر کہلانے والے چند افراد نے اقتدار پہ ناجائز قابض اشرافیہ کو قوت نافذہ بخشنے کی خاطر تشکیل پاکستان کی جدوجہد کا چہرہ ہی مسخ کرڈالا اور ہر طرح سے یہ کوشش کی کہ یہاں اللہ کے قانون کی حکمرانی قائم نہ ہونے پائے اور اس کے لئے انکی جدوجہد کا محور یہی سوچ بنی  کہ کسی نہ کسی طرح اس مملکت کے قیام کی بنیاد ہی بدل دی جائے تاکہ ایک اسلامی نظریاتی مملکت کے حاکم کے لیے اچھے نظریاتی کردار کے مطالبے کا بکھیڑا ہی نہ پیدا ہوپائے ۔

تاہم مملکت خداد کے تشخص کی تبدیلی کی یہ سب سازشیں کرنے والے نجانے کیوں یہ حقیقت بھول گئے کہ قائداعظم نے پاکستان کے قیام سے پہلے ہی متعدد تقاریر میں کھل کے اسکے قیام کا مقصد بہت واضح اور دوٹوک انداز میں پیش کردیا تھا اور یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا ، اس سلسلے میں پہلا بڑا حوالہ انکی اس تقریر کا دینا بنتا ہے کہ جو انہوں نے آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس منعقدہ 15 نومبر 1942 ء میں کی تھی اور اس میں قائد اعظم نے بالکل واضح طور پہ یہ ارشاد فرمایا تھا کہ :-
” مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمد للہ ، قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا ۔”

قائداعظم کے اس خطاب کے اگلے ہی برس بعد وہ تاریخی موقع آیا کہ جب کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کا 31 واں سالانہ اجلاس منعقد ہوا تو 6دسمبر 1943 کو اس اجلاس سے خطاب کے دوران قائد اعظم نےاسلامیان ہند کی سیاسی جدوجہد اور اور ان کے مابین آپسی تعلق کو یوں کھول کے بیان کردیا :

” وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں ، وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے ، وہ کون سا لنگر ہے جس پر امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے ؟ وہ رشتہ ، وہ چٹان ، وہ لنگر اللہ کی کتاب قرانِ کریم ہے۔ مجھے امید ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ، قرآنِ مجید کی برکت سے ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا ، ایک کتاب ، ایک رسول ، ایک امت ۔”

قائداعظم کی جانب سے ان نظریات کے کھلے اظہار سے ہی مسلمانانِ  ہند نے اسے اپنے احساسات کی ترجمان جماعت تسلیم کرنا شروع کردیا تھا اوریوں انہوں نے کانگریس کے اس دعوے کو باطل کرنا شروع کردیا تھا کہ وہ بلا تفریق مذہب سب مذاہب کے ماننے والوں کی غیرجانبدار جماعت ہے ۔ اس صورتحال سے گھبرا کر اور مسلمانان ہند کی سیاسی حمایت ہاتھ سے جاتی دیکھ کر کانگریس نے پینترا بدل کے گاندھی کو قائد اعظم کے پاس جاکے مذاکرات کرنے کا‌ٹاسک دیا تاکہ وہ انہیں اس راہ پہ آگے بڑھنے سے روک لیں ۔  اس سلسلے میں شریح و تفہیم کی خاطر صرف مذاکرات ہی نہیں ہوئے بلکہ ساتھ ساتھ باہمی طور پہ خطوط کا تبادلہ بھی ہوتا رہا اور اسی سلسلے  میں قائد اعظم نے 17 ستمبر 1944ء کو گاندھی جی کے نام جو خط لکھا تھا اس سے انکی اسلام پسندی پہ مبنی سوچ اور پالیسی پوری طرح ظاہر بھی ہوگئی ۔ اس خط میں قائد نےیہ تحریر فرمایا تھا کہ” قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے۔ اس میں مذہبی اور مجلسی ، دیوانی اور فوجداری ، عسکری اور تعزیری ، معاشی اور معاشرتی سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ یہ مذہبی رسوم سے لے کر جسم کی صحت تک ، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق تک ، اخلاق سے لے کر انسدادِ جرائم تک ، زندگی میں سزا و جزا سے لے کر آخرت کی جزا و سزا تک غرض کہ ہر قول و فعل اور ہر حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔ لہذا جب میں کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو حیات اور مابعد حیات کے ہر معیار اور پیمانے کے مطابق کہتا ہوں۔۔

قائداعظم کا گاندھی کے نام یہ خط درحقیقت انکے طرز فکر کا مکمل آئینہ دار ہے تاہم اگلے برس 10 ستمبر 1945 ء کو عید الفطر کے موقع پر قائد اعظم نے جو پیغام دیا تھا اس نے تو انکے پروگرام کی بابت ذرا بھی ابہام نہ رہنے دیا کیونکہ انہوں نے واشگاف طور پہ یہ فرمایا :- کہ

” ہمارا پروگرام قرآنِ کریم میں موجود ہے۔ تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآن غور سے پڑھیں۔ قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کر سکتی۔”

چونکہ قائداعظم نے اس کے بعد بھی متعدد مواقع پہ کسی الجھاؤ اور پیچیدگی کے بغیر اپنا یہی مؤقف پیش کیا تھا لہٰذا 1945 میں ہونے والے الیکشنوں میں اس مؤقف کو مسلمانوں کی بھرپور پذیرائی مل گئی اور کانگریس کو مسلم ووٹروں نے مکمل طور پہ مسترد کردیاِ ،اسی پالیسی پہ لڑے گئے الیکشن میں شاندار فتح کے باعث قائد کی ہدایت پہ 11 جنوری 1946 کو سارے ہندوستان کے مسلم اکثریتی علاقوں میں شاندار جشن فتح منایا گیا اور پھر جب مرکزی حکومت نے مسلم لیگ کے ساتھ کیبنٹ مشن کے ذریعے سیاسی مکرو فریب کا کھیل کھیلا اور بدعہدی کی تو اسلامی تشخص کے بل پہ مسلمانوں کے لئے سیاسی حقوق پانے کی خاطر وہ سول نافرمانی کی حدتک چلے گئے اور بالآخر 16 اگست 1946 کو راست اقدام کی نوبت بھی آگئی جس کے نتیجے میں سال بھر ہی میں آزادی کی منزل بھی مل گئی ۔۔ لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس آزادی کا حقیقی مقصد قائد کے ذہن سے پھر بھی محو نہ ہوا بلکہ 1947 ء کو انتقالِ اقتدار کے موقع پر جب حکومت برطانیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں کہا کہ :

” میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوگا اور ویسے ہی اصول پیش نظر رکھے جائیں گے جن کی مثالیں اکبر اعظم کے دور میں ملتی ہیں “

تو اس پر قائد اعظم چپ نہ رہ سکے اور برجستہ یہ فرمایا :

” وہ رواداری اور خیر سگالی جو شہنشاہ اکبر نے غیر مسلموں کے حق میں برتی کوئی نئی بات نہیں۔ یہ تو مسلمانوں کی تیرہ صدی قبل کی روایت ہے۔ جب پیغمبر اسلام حضرت محمﷺ  یہودیوں اور عیسائیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد ان کے ساتھ نہ   صرف انصاف بلکہ فیاضی کا برتاؤ کرتے تھے۔ مسلمانوں کی ساری تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔   اسلامی تاریخ کے ان حوالوں کے بعد قائداعظم نے ببانگ دہل یہ کہا کہ ہم پاکستانی حضرت محمد ﷺ   کی تعلیمات کی روشنی میں ہی پاکستان کا نظام چلائیں گے۔”

اسی طرح 2 جنوری 1948 ء کو کراچی میں پریس سے بات کرتے ہوئے قائد اعظم نے ارشاد فرمایا

” اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفا کا مرکز اللہ تعالی کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن کے احکام و اصول ہیں۔ اسلام میں اصلا ً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی نہ کسی شخص یا ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدیں مقرر کر سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی حکومت قرآنی احکام و اصولوں کی حکومت ہے ۔”

یہاں 25 جنوری 1948 ء کو جشن عید میلادالنبی کے موقع پہ کی گئی تقریر کا حوالہ دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ جس میں قائداعظم نے کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا

” آج ہم یہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نذرانہ ء عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ آپﷺ  کی عزت و تکریم کروڑوں عام انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیات آپﷺ کے سامنے سر جھکاتی ہیں۔ وہ عظیم مصلح تھے ، عظیم رہنما تھے ، عظیم واضع قانون تھے ، عظیم سیاستدان تھے اور عظیم حکمران تھے ، ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو کسی میدان میں کبھی بھی ناکامی نہ ہوگی۔”

اس تقریر کے اگلے ماہ جب قائد بلوچستان کے دورے پہ گئے تو 14 فروری 1948 ء کو بلوچستان میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا

” میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہ ء عمل میں ہے جو ہمارے عظیم واضع قانون پیغمبر اسلام نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اخلاقی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو۔”

قائد نے اس مملکت کے اسلامی کردار کو مزید تقویت اپنی اس حسب ذیل شاندار تقریر سے بخشی جو انہوں نے 13 اپریل 1948 ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں کی تھی:

” ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ ہم ایسی جائے پناہ چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں”

یہاں یہ بات بھی خصوصی طور پہ یاد رکھنے کی ہے کہ جون 1948 کے آتے آتے قائداعظم کو لاحق ٹی بی کا مرض اپنے عروج پہ پہنچ گیا تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے یکم جولائی 1948 ء کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے ایک بار پھر نظم مملکت میں اسلامی طرز فکر کو یوں اہمیت دی اورفرمایا

” میں اشتیاق اور دل چسپی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ آپ کی ریسرچ آرگنائزیشن بینکاری کے ایسے طریقے کس خوبی سے وضع کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہوں۔ مغرب کے معاشی نظام انسانیت کے لیے بے شمار مسائل پیدا کر دیے ہیں اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ مغرب کو اس تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ یہ تباہی مغرب کی وجہ سے ہی دنیا کے سر منڈلا رہی ہے۔ مغربی نظام انسانوں کے مابین انصاف اور بین الاقوامی میدان میں آویزش اور چپقلش دور کرنے میں ناکام رہا ہے “

مغرب کے اقتصادی نظام پر تنقید کرتے ہوئے اسی خطاب میں آپ نے فرمایا

” اگر ہم نے مغرب کا معاشی نظریہ اور نظام ہی اپنا لیا تو عوام کی خوشحالی حاصل کرنے کے لیے ہمیں کوئی مدد نہ ملے گی۔ اپنی تقدیر ہمیں اپنے منفرد انداز میں بنانا پڑے گی۔ ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے جو انسانی مساوات اور معاشی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو۔ ایسا نطام پیش کر کے ہم بحیثیت مسلمان اپنا مشن پورا کریں گے۔ انسانیت کو حقیقی امن کا پیغام دیں گے۔ صرف ایسا امن ہی انسانیت کو جنگ سے بچا سکتا ہے۔ صرف ایسا امن ہی بنی نوع انسان کی خوشی اور خوشحالی کا امین و محافظ ہے”

یہاں آخر میں بڑی بدیانتی ہوگی جو اگر ہم قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کے اس تاریخی خطاب کا حوالہ نہ دے سکیں کہ جس میں انہوں نے اپنی سوچ اور فکر کو خلاف معمول نہایت جذباتی انداز میں واضح کیا تھا ۔۔۔ 30 جولائی 1948 ء کو لاہور میں اسکاوٹ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وہ تقریباً موت کے دروازے پہ کھڑے تھے کیونکہ اس کے بعد انہیں مرض الموت نے مزید مہلت نہیں دی تھی اور ڈیڑھ ماہ بعد ہی وہ تپ دق کی بیماری کے باعث چل بسے تھے۔ اپنے اس آخری خطاب میں آپ نے یہ فرمایا اور گویا اپنی ذاتی ترجیحات اورمملکتی پالیسیوں کی بنیاد بتانے کے معاملے کی اخیر ہی کردی- آپ نے کہا

” میں نے بہت دنیا دیکھ لی۔ اللہ تعالی نے عزت ، دولت ، شہرت بھی بے حساب دی۔ اب میری زندگی کی ایک ہی تمنا ہے کہ مسلمانوں کو باوقار و سر بلند دیکھوں۔ میری خواہش ہے کہ جب مروں تو میرا دل گواہی دے کہ جناح نے اللہ کے دین اسلام سے خیانت اور پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی امت سے غداری نہیں کی۔ مسلمانوں کی آزادی ، تیظیم ، اتحاد اور مدافعت میں اپنا کردارٹھیک ٹھیک ادا کیا اور میرا اللہ کہے کہ اے میرے بندے! بے شک تو مسلمان پیدا ہوا۔ بے شک تو مسلمان مرا۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

اوپر درج قائداعظم کے متعدد فرمودات وہ ہیں جو ہرشک و شبے سے مبرا اور قطعی مستند ہیں اور متعدد کتب میں موجود ہیں ۔۔ ان کئی اہم حوالوں کے بعد بھی اگر کسی سیکولر نما ذہن میں یہ خناس بھرا ہے کہ وہ قائداعظم کی سوچ اور انکے پاکستان کی اساس کو اسلامی رنگ اور تقاضوں سے ہٹا کر دیکھے تو اس کا صحیح مقام کہاں ہے یہ ہمیں بتانے کی بھلا کیا ضرورت ، قائد کے دیوانے کبھی جوش میں آئے تو ایسے ‘عبقریوں’ کو نکیل ڈال کر خود ہی وہاں چھوڑ آئیں گے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply