یوم دفاع اور امن کی آشا ۔ کعب اسامہ قاضی

کل  وطن عزیز کا اکیاون واں “یوم دفاع”  تھا… ہر طرف دشمن، جنگ، کامیابی، خون، ٹینک، گولی اور شہادت کے متاثرکن الفاظ نے فضا کو   معطر  کر رکھا  تھا… مجھے شہیدوں کے لہو سے بغاوت نہیں کرنی لیکن …!

لیکن…آئیے سنیے میں کچھ اور  کہناچاہتا ہوں!

خدا لگتی کہوں تو ہمیں آزادی کے69 سال بعد یہ میرے تیرے کی تفریق کا راگ الاپنے والا باجا توڑ ہی دینا چاہیے… امن کی فاختہ کے رستے زخموں پہ پٹی رکھنا، اس کے کٹے پروں پہ مرہم لگا نا چاہیے… ان پروں کو جوڑ دیں… چاہے گوند لگائیں،گلو سے چپکائیں یا ویلڈ کریں… کیل ٹھونکیں یا کترن سے ہی باندھیں… جو جس کے بس  میں ہو کر ے لیکن خدارا امن کی اس زخم خوردہ فاختہ کے ٹوٹے پروں کو جوڑ نے کی بات کریں…  امن کی فاختہ کو محبت کی لوری سنانے دیں… اسے پیار کا نغمہ گنگنانے دیں، اسے دوستی کا ترانا سنانے دیں، اسے سلامتی کی فضاؤں میں اڑنے دیں، اسے سفیر کا رتبہ پانے دیں… اوراسے امن کی بھاشا بولنے دیں کہ یہی وہ زبان ہے جو ہر ذی روح کو سمجھ آتی ہے۔

دیکھیں جی تاریخ مسخ بھی ہے تلخ بھی…ہر فریق اپنی فتح کا ڈھول پیٹ رہا ہے… مطالعہ پاکستان کے اسباق تاریخ کا جو روشن رخ دکھاتے ہیں تو آزاد ذرائع اس کا کوئی اور پول کھولتے ہیں… قدرت اللہ شہاب کوئی اور بپتا سناتا ہے تو ایوب خان کی کتاب کوئی اور کہانی سناتی ہے۔

چونکہ ہمیں بھی اپنی مٹی پسند ہے، ہم بھی اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں، ہمیں بھی اپنی فوج پیاری ہے… سو ہم نے بھی اپنے وقت پر (یعنی نصف صدی تک) نفسیاتی برتری اپنی فوج کو دلانے کے لئے یوم دفاع منانے کا یہ کام کر لیا ہے۔

اب دو ملک معرض وجود میں آچکے ہیں…سو اب ہمیں ایک دوسرے کی حیثیت کو تسلیم کرنا ہوگا… اپنےبچوں کو اب ہمیں جنگ کے اسباق پڑھانے کی چنداں ضرورت نہیں، بلکہ اس جنگی لٹریچر سے زیادہ کہیں زیادہ اپنے اپنے ملک کو سدھارنے کی ضرورت ہے…  ہمیں قوم کے معصوم بچوں  کوجنگ سے زیادہ امن کا پیغام سنانے کی ضرورت ہے۔

جی ہاں!

سچ پوچھیئے تو قوم کے ٹیکسوں سے اب ایسے دن منانے پر لاکھوں کروڑوں روپے لٹانے کا رواج مجھے کھلنے لگا ہے۔ دفاعی نمائشوں پر اٹھنے والے کروڑوں روپے مجھے اس وقت شدید چبھتے ہیں جب میں بریگیڈیئر کی بیٹی کو تو فرنگیوں کے دیس جا ان کی  یونیورسٹیوں میں پڑھتا دیکھتا ہوں لیکن میرے ملک کے غریب کی بیٹی کو گنتی سکھانے والے اسکولوں میں وڈیروں کی بھینسیں پالی جاتی ہیں…  واللہ ہم نے اکیاون سال یوم دفاع منایا ہے لیکن مجھے گننے سے بھی اکیاون ایسے اسکولنگ سسٹم اور اکیاون ایسی یونیورسٹیاں نہیں ملیں… جہاں میری قوم کا غریب بچہ بلامعاوضہ پڑھ ایک روشن مستقبل کا ضامن اور قوم کی ڈوبتی نیا بچانے کا علمبردار بن سکے۔

کیا کہا؟ …یہ شہیدوں کے خون سے بغاوت ہوگی؟

نہیں نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے… میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ جنگی جنون ختم کریں… تا کہ  قوم کے بچوں کا مزید خون  نہ بہے… غریبوں کہ مائیں بے سہارا نہ ہوں… بیٹیاں بے آبرو  نہ ہوں… اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں اپنے بچوں کو جانتے بوجھتے مسخ شدہ تاریخ نہ پڑھانی پڑے۔

کیا کہا، یہ دن منانا ہی منانا ہے؟

اچھا وہ کیوں؟

صرف دشمن پر نفسیاتی برتری کے لیے!

اچھا تو یہ ہے نفسیاتی برتری… تو وہ کیا تھی جو محض 6 سال بعد 71 کی ایک سرد رات ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈال کر ساری نفسیاتی برتری کی ایسی کی تیسی کر دی تھی…جی ہاں صرف 6 سال بعد۔

اچھا چلیں ٹھیک ہے مان لیا کہ دشمن پر نفسیاتی برتری ثابت کرنے کیلیئے یہ دن منانا ہی ضروری ہے تو پھر ٹھیک ہے میں بھی یہ دن مناونگا لیکن صرف شہداء کی نسبت سے مناونگا؛ فوج کی الیٹ کلاس کیلیئے نہیں؛ بلکہ رن کچھ کے پتھریلے میدانوں میں اپنا سینہ رگڑ کر جان… جان جاناں پر نچھاور کرنے والے اس بانکے سپاہی کیلیئے مناونگا جسے اس قربانی کے عوض پیسہ مطلوب نہیں تھا، شہرت مقصود نہیں تھی، وہ تعیش کا طلبگار نہیں تھا، اسے قوم کی حفاظت مطلوب تھی تبھی اپنے لخت جگر کو بے آسرا چھوڑ دیا تھا۔ اسے بیوی تو محبوب تھی لیکن وطن کی مٹی اس سے بھی زیادہ محبوب تھی۔ وہ اپنی ماں کا اکیلا سہارا تو تھا، لیکن اسے وطن کی لاکھوں ماؤں کی عفت بچانی تھی۔  جی ہاں میں یہ دن صرف میدانوں میں سینہ چھلنی کروانے والے اس جانباز سپاہی کےلیئے مناونگا جو امیروں کی جرنیلی سے بے پروا شہادت کا جام پی کر سروخرو ہو گیا تھا۔

ہاں ہاں، مجھے کہنے دیجیئے میں یہ دن ان افسران کیلیئے نہیں مناونگا جن کی ساری زندگی کی دوڑ دھوپ محض بحریہ کی سوسائیٹیز سے شروع ہو کر ڈی۔ایچ۔اے کے محلات پر ختم ہوجاتی ہے۔ میں اس کمانڈو کے لیئے نہیں مناونگا جس نے ملک میں بلیک واٹر کیلیئے راستے کھول دیئے تھے۔ میں اس جرنیل کے لیئے نہیں مناونگا جس نے شمسی ایئر بیس بیچ تک بیچ ڈالا تھا۔اور میں ڈالروں کے ان بیوپاریوں کے لیئے نہیں مناونگا  جنہوں نے کارگل کی ٹھٹرتی سردی میں شہادت کا جام پینے والے قوم کے جری سپوتوں کے لہو کا شرمناک سودہ کیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply