• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • فریدا جے توں عقل لطیف، کالے لکھ نہ لیکھ۔۔صغریٰ صدف

فریدا جے توں عقل لطیف، کالے لکھ نہ لیکھ۔۔صغریٰ صدف

محرم کے مقدس اور حرمت والے مہینے کے آغاز میں اُٹھ فریدا سُتیا کا ہوکا دے کر خلقت کو بیدار کرنے والے عظیم صوفی شاعر کے دربار پر آج کل 779 ویں عرس کی تقریبات جاری ہیں۔ جس طرح رمضان میں مسلمان ہمہ تن ،ہمہ وقت خدا کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں اسی طرح محرم بھی ہر لمحے ریاضت کا متقاضی ہے۔عبادات اور استغراق ایک ایسی مشق ہے جو ہمارے وجود کی تربیت کرتی ہے۔ دوسروں کا دکھ محسوس کرنے کی صلاحیت متحرک کرتی ہے۔ مقصد انسان کی روح اور دل کو کائنات کے دکھ درد سے اس طرح جوڑناہے کہ نیک عمل اور انسانیت کی خدمت انسان کی عادت یوں بن جائے کہ وہ ظلم و زیادتی اور برائی سے اجتناب کرے، دنیا کی بے ثباتی کو نظر میں رکھتے ہوئے اس سفر کی تیاری کرے جو ہم سب کا مقدر ہے۔ ہر علم کی ایک خاص زبان ہوتی ہے۔ سائنس،ادب اور جتنے بھی علوم ہیں ان کو بیان کرنے کا خاص ڈھنگ ہوتا ہے۔ روحانی اسرار، روحانی کیفیات اور صوفیانہ رموز کو بیان کرنے کے لئے علامتی زبان برتی جاتی ہے جو معنی کے حوالے سے زیادہ وسعت کی حامل ہوتی ہے۔ بابا فرید نے صوفیانہ تجربات کو شاعری میں بیان کرنے کا ڈھنگ سکھایا۔ ہزار سال سے زیادہ وقت گزر جانے کے باوجود آج بھی ان کا وضع کردہ علامتی نظام رائج ہے۔
بابا فرید کی پوری زندگی روحانیت کی کرنوں سے جگمگاتی رہی۔ وہ پیدائشی ولی تھے، وہ ولایت جو بہت سے صوفیوں اور ولیوں کو ایک سخت مشقت اور مراقبے کے بعد عطا ہوتی ہے انہیں پیدائشی طور پر عطا کر دی گئی تھی اس لئے بچپن سے ہی ان سے کرامات کا سلسلہ جڑا نظر آتا ہے۔ روحانی طور پر باطن منور ہونے کے باوجود انہوں نے فارسی، عربی اور دیگر زبانوں کے بنیادی قواعد و ضوابط باقاعدہ طور پر سیکھے۔ قرآن اور فقہ کی تعلیم حاصل کی اور پھر خواجہ قطب الدین بختیار کاکی سے ملاقات نے اُن پر اُن کے باطن کی حیرتیں آشکار کردیں۔ معین الدین چشتی سے ملاقات نے بھی کئی شمعیں روشن کیں۔ انہوں نے برصغیر کے علاوہ قندھار، ایران، عراق، خراسان، مکہ معظمہ اور حجازِ مقدس کی زیارت کے دوران وہاں موجود صوفیاء اور اولیاء کی باتوں سے پھوٹتی علم کی کرنیں جذب کیں۔ عربی اور فارسی زبان میں موجود روحانی خزانے کے علاوہ ویدانت، بدھ مت اور بھگتی تحریک جو کہ برصغیر میں اس وقت اپنا خاص مقام رکھتی تھی سے بھی استفادہ کیا ۔وہ مقابلے اور مناظرے سے دور رہے۔ وہ تفریق کے قائل نہیں۔ وہ نصیحت نہیں کرتے بلکہ اپنے نام کے ساتھ بات کو شروع کرتے ہیں جیسے وہ ایک کیچڑ بھرے راستے سے گزرتے ہوئے خود کو محتاط رہنے کی تلقین کر رہے ہوں۔ دل خدا کا گھر ہے اور اس کی پاکیزگی زندگی کو اُجالتی ہے زندگی کی بھاگ دوڑ میں دن رات ایک کر دینے والے انسان کے لئے بابا فرید کی شاعری دل سے نکلی آواز ہے کہ خدا کے لئے کچھ دیر رک جاؤ، اپنے اندر جھانکو، اپنے باہر دیکھو، اپنے دل کی آواز سنو، اپنی روح کی بات مانو، اپنے ظاہر اور باطن میں توازن قائم کرو، حلیمی اور انکساری سے جیون کرو کیونکہ تم مٹ جانے والی مخلوق ہو اور ہمیشہ رہنے والا تمہارا میرا محبوب، تمہارا بادشاہ، تمہارا ربّ تکبر اور ظلم کو پسند نہیں کرتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بابا فرید کا ہر شلوک اپنے اندر ایک کہانی رکھتا ہے، ان کی ذات کے ساتھ کئی کرامتیں جڑی ہوئی ہیں لیکن بہشتی دروازہ ایک جیتی جاگتی کرامت ہے جسے دل سے دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بابا فرید نے تمام عمر اپنے عمل اور اپنی شاعری کے ذریعے جو کچھ دنیا کو بتانے اور سکھانے کی کوشش کی وہ سب اس بہشتی دروازے میں پوشیدہ ہے شرط صرف یہ ہے کہ وہاں سے گزرتے ہوئے یہ عہد کیا جائے کہ زندگی اس طرح گزارنے کی سعی کی جائے جیسے بابا فرید نے گزار کر دکھائی۔ بابا فرید کا ہر شلوک پہلے ان کی اپنی ذات پر لاگو ہوتا ہے اور پھر معاشرے پر۔ ’’فریدا میں بھولا وا پگ دا‘‘ میں بابا فرید سمجھاتے ہیں کہ انسان تمام عمر اپنی سفید پگ کی حفاظت کرتا ہے جو معاشرے میں عزت اور ظاہری شان و شوکت کی علامت ہے۔ وہ یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتا کہ جس سر پر رکھی پگ کے لئے وہ باؤلا ہو رہا ہے اُسے بھی مٹی میں دفن ہونا ہے۔
فریدا روٹی میری کاٹھ دی، لاون میری بھُکھ
جِنہاں کھادِی چوپڑی گھنے سہن گے دُکھ
جس کے پاس جتنے وسائل، جتنا بڑا عہدہ اور جتنے بڑے اختیارات ہیں وہ اسی قدر جوابدےہو گا۔ انسان کے سر کا امتیاز یہ ہے کہ وہ محبوب کے سامنے جھکتا ہے اور جو سر جھکنے سے عاری ہے وہ فضیلت سے عاری ہے۔ وہ لکڑی کی مانند جل کر راکھ ہونے جیسا ہے۔
جو سِر سائیں نہ نِویں سو سِر کیجئے کاء
کُنّے ہیٹھ جلائیے بالن سندے تھاء
اس دنیا میں انسان کو اپنے وجود کے اندر رکھی قوتوں کو پہچاننا ہے، نفس کے شر کو پامال کرنا ہے، یہی انسان کا امتحان ہے اور یہ امتحان محبوب نے اپنے معشوق کی محبت کو آزمانے کے لئے رکھا ہے کہ وہ میری رضا تک پہنچنے کے لئے کس طرح اپنے وجود میں موجود ان شر انگیز قوتوں کو پامال کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔
فریدا من میدان کر ٹوئے ٹِبے لا
آگے مول نہ آوسی، دوزخ سندی بھاء
اگر انسان کو خدا نے عقل کی نعمت سے سرفراز کیا ہے وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ غور و فکر کرے، عقل کو استعمال کرے اگر وہ ایسا کرے گا تو نہ کبھی غلط بات کرے گا نہ لکھے گا۔ برائیاں دیکھنے سے پہلے اگر انسان اپنی ذات کا محاسبہ کر لے، سر نیچا کر کے اپنے گریباں میں جھانک لے تو اس پر حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ ہر انسان خطا کا پتلا ہے مگر کسی کو دوسروں کی خطاؤں پر اپنی بڑائی کی عمارت تعمیر نہیں کرنی چاہئے۔ اچھائی کا آغاز اپنی ذات سے کرنا چاہئے کیونکہ ہم میں سے اکثر کی زندگی دوسروں کو بتاتے اور سمجھاتے گزر جاتی ہے لیکن یہ احکامات خود پر لاگو نہیں کرتے۔ ایسے لفظ نہ لکھیں جو دوسروں کو اذیت دیں، جس سے خلقت کو نقصان پہنچے اور جو معاشرے میں بدامنی کا باعث بنے۔
فریدا جے توں عقل لطیف، کالے لکھ نہ لیکھ
اپنے گریوان میں سِر نیواں کر دیکھ
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply