قلعہ عروہ بن زبیر، مدینہ منورہ۔۔منصور ندیم

مدینہ میں سب سے قدیم کسی بھی آثار کی اصل باقیات کی اگر آج بھی بات کی جائے تو ان میں قلعہ عروہ بن زبیر بھی شامل ہے، اسلامی تہذیب، ثقافت اور تمدن کو اگر آج کے دور میں مجسم شکل میں دیکھنا ہو تو قلعہ عروہ ابن زبیر وہ عمارت کہلائی جاسکتی ہے، اس عظیم الشان عمارت کو اس عہد کی تہذیبی آرکیٹیکچر کی پہلی اینٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔ قریب 1300 سال قبل تعمیر ہونے والا یہ قلعہ مدینہ منورہ کی بطور اسلامی ریاست کے درالحکومت کی یاد دلاتا ہے۔

نماز عصر کے بعد ہم یہاں پہنچے، عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یہ قدیم مدینہ سے قریب گاڑی کے سفر کے اعتبار سے 20 منٹ کے فاصلے پر ہے، یہ منی اور مسجد نبوی کے وسط میں وادی عنیق کے پاس پہلی صدی ہجری میں بنایا جانے والا محل ہے، پہلی صدی ہجری میں میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں میں یہ زمین عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کو دی گئی تھی، جہاں انہوں نے اس وقت کے اعتبار سے  اپنی رہائش اختیار کی تھی۔

مدینہ منورہ میں یہ محل اب تو کھنڈرات میں بدل چکا ہے مگر پھر بھی اپنی باقیات سے یہ قلعہ اس عہد میں اسلام کی فاتحانہ شان وشوکت کی اولین یادگار ہونے کے ساتھ ساتھ بیتے دنوں میں مسلمانوں کی اس عہد فتوحات کے بعد امارت کا بھی گواہ ہے۔

تصاویر میں نظر آنے والی جگہ عروہ ابن زبیر کا محل ہے۔ اس محل کے باقیات کے قریب جانے کا کوئی چارہ نہ تھا، کیونکہ یہاں حکومت کی طرف سے باڑ لگائی گئی ہیں،ویسے بھی یہ جگہ ماضی کی سعودی حکومت کی طرف سے نظر انداز ہی کی جاتی رہی ہے، مگر حالیہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی آثار قدیمہ سے خصوصی دلچسپی کی وجہ سے اس جگہ کی ممکنہ تزئین وآرائش کا امکان ہے۔

یہ محل عروہ بن زبیر نے پہلی صدی ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی فتوحات کے بعد بعد بنایا تھا، عروہ بن زبیر تابعی رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے، جن کی کنیت ابو عبد اللہ تھی ، یہ مشہور صحابی اور حواری رسول صلی اللہ علیہ وسلم زبیر بن العوام (جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے) کے فرزند تھے۔ ان کی والدہ اسماء بنت ابوبکر تھیں۔ ام المؤمنین عائشہ ان کی خالہ تھیں۔ عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کی تربیت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کی تھی، عروہ بن زبیر بن العوام کا شمار تابعین کے دور میں مدینہ منورہ کے سات بڑے فقہا میں ہوتا تھا۔ بلکہ یہ مدینے کے پہلے شخص تھے جنہوں نے خود قلم سے پہلی بار اسلامی تاریخ لکھی۔

عروہ بن زبیر نے جب مدینہ کے مغرب میں اپنا گھر بنایا۔ مگر صرف چار سال یہاں مقیم رہے اور پھر مدینہ میں ہی اپنے محل سے کچھ فاصلے پر موجود اپنے باغات میں رہائش کے لئے منتقل ہوگئے تھے، ان کا یہ موجود گھر اسوقت تک علمی سر گرمیوں اور دور دور سے آنے والے علم کے طالب علموں کے لئے وقف تھا ، اس کے علاوہ دور دراز سے آنے والےحجاج و معتمرین کے لیے ‘میقات’ کی بھی حیثیت رکھتا تھا، اس کے علاوہ تھکے ہارے مسافر ان کے مہمان بنتے، گھر کے سائے سے فائدہ اٹھاتے اور ٹھنڈا پانی پیتے یعنی یہ جگہ اسعہد میں ایک سرائے کی حیثیت رکھتی تھی ،

حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے دنیا سے انتقال کر جانے کے بعد ان کے گھر کو ایک قلعہ یا پیلس کی اس شکل میں تبدیل کیا گیا تھس، مدینہ منورہ میں یہ اس دور کے مسلمانون کے فن تعمیر کا عمدہ شاہکار ہے۔ حال ہی میں چونکہ سعودی عرب کے محکمہ آثار قدیمہ نے قلعے کے کھنڈرات کا ازسر نو جائزہ لیا اور یہ تسلیم کیا ہے کہ قلعہ عروہ ابن زبیر نہ صرف قرون اولیٰ کے مسلمان فن تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے بلکہ یہ مسلمانوں کی ابتدائی شان شوکت اور غلبہ اسلام کا چشم دید گواہ بھی ہے۔ ممکن ہے آنے والے دنوں میں سیاحوں اور دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ : یہ تصاویر میں نے اپنے  موبائmل سے 27 جنوری سنہء 2020 کو  بنائیں تھیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply