• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کشن گڑھ (راجھستان) کا دبستان مصوری کا پس منظر اور بنی ٹھنی۔۔احمد سہیل

کشن گڑھ (راجھستان) کا دبستان مصوری کا پس منظر اور بنی ٹھنی۔۔احمد سہیل

راجھستان میں مصوری کی روایت صدیوں قدیم ہے۔
کشن گڑھ کی مصوری پر یہاں کے شاعر ناگری داس جی کی شاعری کا بہت گہرا اثر ہے۔ ناگری داس جی کی تخلیقات میں منودھت منجری رشکار تناولی اور دی ہرچند ریکھا بہت اہم ہیں۔ ناگری داس جی کی فنکارانہ حیثیت بنیادی طور پر مذہبی اساطیر کی  بنتی  ہے۔ جو کشن گڑھ کی مصوری کے موضوع بھی بن جاتے ہیں۔ سری نگری رس ’’دراصل‘‘ بھگتی رس سے مشابہہ  دکھائی دیتی ہے۔ مگر ناگری داس جی کی شاعری میں زیادہ حوالے رادھا کشن کی تھیم ہے۔ مگر یہاں ناگری داس جی غیر مذہبی سوعناعات کو  اپنی شاعری میں جگہ دیتے ہیں۔ تو ان کی شاعری مختلف شعری جمالیات کا روپ دھار لیتی ہے۔ ان کے اشعار میں جگہ جگہ  زلف، چشم، پجاری، عشق بازی جیسے واضح عاشقانہ اشارے ملتے ہیں۔ خاص کر ایک داسی بنی ٹھنی کا نسوانی کردار بہت اہم ہے۔ یہ شاعرانہ تخیل نہیں بلکہ ناگری داس جی کے  ذہن کی پیدا وار  ،گوشت پوست کی حقیقی عورت ہے۔ جس سے ناگری داس جی کو عشق تھا یا یوں کہہ لیں ’’بنی ٹھنی‘‘ سے ان کو  افلاطونی عشق تھا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ناگری داس جی کو ’’بنی ٹھنی‘‘ سے صرف جمالیاتی اور شاعرانہ عشق تھا جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ’’بنی ٹھنی‘‘ سے ناگری داس جی کے جسمانی تعلقات تھے۔ مگر فی الحال ابھی تک کوئی بات حتمی طور پر سامنے نہیں آئی۔

کہا جاتاہے کہ ساونت سنگھ ( ناگری داس جی)کی سوتیلی ماں بکاوتی  بنی ٹھنی کو چاندنی چوک دہلی سے بحیثیت ایک گا ئیکہ کے اپنے دربار میں لائی تھی۔ بکاوتی جی کو موسیقی اور شاعری کا عمدہ ذوق و شوق تھا۔ انہوں  نے گیت بھی لکھے۔ کہتے ہیں ” بنی ٹھنی کی دربار میں “خراب شناخت” تھی ۔ اس کا اصل نا م کسی کو نہیں معلوم جس سے ساونت جی/ ناگری داس جی عشق میں مبتلا ہوگئے۔ اور اس نے اپنے آپ کو دربار میں ” بنی ٹھنی ” کے نام سے متعارف کروایا۔ ناگری داس  عاشق مزاج  تھے۔ اور بنی ٹھنی پر انھوں نے شاعری کرکے سنسکرت کی شاعری کو نیا رومانی رنگ اور جمالیاتی جہت عطا کی۔

خاص کر کشن گڑھ میں “مینچرز” تصاویر کے خدوخال، ساخت، رنگ اور بیانیہ اساطیری نوعیت کا ہے۔ کشن گڑھ  کی مصوری میں ایک افسانوی یا فرضی کردار ” بنی ٹھنی” کو ہمیشہ کلیدی حیثیت  حاصل ر ہی ہے۔ ۔ بنی ٹھنی مغنیہ تو تھی ساتھ  ہی  ہندی کی شاعرہ اور اس کا حسن لاجواب تھا۔ کشن گڑھ کی مصوری میں  اس کی نوک دار ناک، کمان دار تھوڑی، اور صراحی دار گردن اور خوب صورت جسم نے کئی مصوروں کو مبالغے کی حد تک متاثر کیا اور بنی ٹھنی کو ہندوستان کی “مونا لیزا” بھی کہا گیا۔ یہ بھی کہا جاتا  ہے  کہ  بنی ٹھنی نے  راجھستان  اور فلورنس (اٹلی) کی فنکارانہ(مصورانہ) دنیاؤں کو ایک دوسرےمیں ضم کردیا   تھا،

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ بھی کہا جاتا  ہے کہ  “بنی ٹھنی” ساونت سنگھ کی “رکھیل “تھی۔ جس میں حسن، تہذیبی شائستگی، معاشرتی رکھ رکھاؤ بہت تھا۔ اسی سبب بنی ٹھنی کشن گڑھ کی تہذیبی، جمالیاتی قدر اور اساطیری کردار بن گئی۔ کشن گڑھ کی مصوری اور بنی ٹھنی پر پروفیسر ایرک ڈکنس ،کارل کنڈیلا اور ڈاکٹر فیاض علی خان نے اعلیٰ  درجے کا محققانہ اور تنقیدی کام کیا  ہے جیسے للیت کلا اکادمی ، دہلی نے شائع بھی کیا  ہے۔اور کشن کے مصور شہزاد علی خان نے اس حوالے سے  شاندار تصاویربناکرمصوری کے اس مکتبہ فکر کو زندہ رکھا  ہوا  ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply