• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عمران خان کے نیویارک ٹائمز کو دیے گئے انٹرویو کا اردو ترجمہ/سمیع خیام

عمران خان کے نیویارک ٹائمز کو دیے گئے انٹرویو کا اردو ترجمہ/سمیع خیام

س: یقینی طور پر پاکستان اور خطے میں یہ ایک اہم وقت ہے، امریکی فوجی مداخلت کے باعث پاکستان کو خاصی امریکی مدد حاصل رہی، اب جبکہ امریکہ وہاں سے جا رہا ہے تو آپ پاکستان امریکہ تعلقات کو مستقبل میں کیسا دیکھتے ہیں؟

ج: پاکستان کے امریکہ سے ہمیشہ اچھے تعلقات رہے ہیں نسبتاً ہندوستان کے جو کہ ہمارا پڑوسی ملک ہے، 9/11 کے بعد بھی پاکستان امریکی اتحاد میں شامل ہوا اب جبکہ امریکہ یہاں سے جارہا ہے تو پاکستان امریکہ کے ساتھ ایک مہذب تعلق چاہے گا جو تعلق قوموں کے درمیان ہوتا ہے اور ہم چاہیں گے کہ ہمارے امریکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات بہتر ہوں۔

س: کیا آپ مزید وضاحت کرسکتے ہیں کہ مہذب تعلق سے آپکی کیا مراد ہے؟
ج: آپ جانتے ہیں جیسے تعلقات امریکہ و برطانیہ کے ہیں یا پھر جیسے تعلقات آجکل امریکہ و ہندوستان کے ہیں۔ ایک ایسا تعلق جو برابری کی بنیاد پر ہو، بدقسمتی سے اس دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران یہ تعلق بڑا ناہموار رہا ہے کیونکہ امریکہ کو لگتا تھا کہ وہ پاکستان کو امداد دیتے ہیں اس لیے پاکستان کو امریکی ایماء پر اقدامات کرنے چاہئیں۔ پاکستان نے امریکی خوشنودی کے لیے جو اقدامات کئے انکی وجہ سے ہمیں ستر ہزار سے زائد لاشیں اٹھانا پڑیں ،معیشت کو 150 ارب سے زائد کا نقصان ہوا کیونکہ خودکش دھماکے ہورہے تھے ملک بھر میں دھماکے ہورہے تھے، یہاں سے مسئلے کی شروعات ہوئی، امریکی پاکستان سے مزید اقدامات کی توقعات کرتے رہے اور پاکستانی وہ کام کرنے کی کوشش کرتے رہے جس کی ان میں صلاحیت ہی نہ تھی۔ اس لئے تعلقات میں ایک عدم اعتماد کی فضاء تھی اور پاکستانیوں نے محسوس کیا کہ انہوں نے اس تعلق کی بھاری قیمت چکائی ہے جبکہ امریکہ کو لگتا تھا پاکستان کے اقدامات نا کافی ہیں۔ اس لئے یہ ایک ناہموار تعلق تھا۔
ہم چاہتے ہیں مستقبل میں ہمارا تعلق اعتماد اور مشترکہ مفادات کی بنیاد پر ہو۔
جیسا کہ اب ہے افغانستان میں ہمارے اور امریکی مقاصد ایک ہی ہیں۔

س: امریکہ کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد آپکو کیا لگتا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی؟
ج: مجھے نہیں معلوم، سچی بات ہے کہ نہ ہی اس بارے میں ہم نے سوچا ہے کہ ہمارے تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی! ریاستوں کے تعلقات مشترکہ مفادات کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ پاکستان 220 ملین آبادی کا ملک ہے جس کی بڑی تعداد نوجوان ہیں، پاکستان بہترین جگہ پر موجود ہے مستقبل میں تعلقات کے لیے اگر ہمارے ہندوستان کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے جو مجھے یقین ہے کہ ضرور ہوں گے۔
ہمارے دونوں اطراف بڑی منڈیاں ہیں، اور پھر سٹریٹجکلی ہم وسط ایشیائی ریاستوں اور ایران کے انرجی کوریڈور سے بھی منسلک ہیں اگر امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو مستقبل کے لیے ہم بہترین جگہ پر ہیں کہ ہمارے ساتھ معیشت کی بنیاد پر تعلقات بنائے جائیں۔

س: آپ خاص طور پر فوجی و سکیورٹی تعلقات کو مستقبل میں کس طرف جاتا دیکھ رہے ہیں؟
ج: مجھے نہیں معلوم کہ امریکی انخلاء کے بعد ہمارا فوجی تعلق کس نوعیت کا ہوگا لیکن لمحۂ موجود میں یہ تعلق اس مشترکہ مقصد کے لئے ہونا چاہیے کہ امریکی انخلاء سے قبل افغانستان کے مسئلے کا سیاسی حل نکالا جائے، کیونکہ پاکستان افغانستان میں خانہ جنگی نہیں چاہتا اور مجھے یقین ہے امریکہ بھی ایسا ہرگز نہیں چاہتا کہ جب وہ خدا جانے کتنے کھرب ڈالر خرچ کرنے کے بعد یہاں سے جائے تو یہاں خانہ جنگی ہو۔

س: پاکستان نے اپنے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے انٹرا افغان امن مذاکرات میں ایک اہم کردار ادا کیا، گزشتہ کچھ ہفتوں میں افغانستان کے اندر پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، آپ افغانستان میں خانہ جنگی کے خطرے سے کس قدر متفکر ہیں اور آپ طالبان میں اپنے اثرورسوخ کو کیسے امن مذاکرات کے لئے استعمال کررہے ہیں؟
ج: اب جبکہ امریکہ نے انخلاء کی تاریخ دے دی ہے تو اب ہمارا اثر ورسوخ کم ہوگیا ہے، جیسے ہی امریکا نے انخلاء کا اعلان کیا تو طالبان نے اپنی جیت کا اعلان کردیا ہے انکا خیال ہے وہ یہ جنگ جیت گئے ہیں اسے لئے ہماری ان پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت کم ہوتی جارہی ہے۔
اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے ہم انہیں مذاکرات کی میز پر لائے، ہم نے انہیں پریشرائز کیا اور مذاکرات پر راضی کیا اور افغان حکومت کے ساتھ بات چیت پر رضا مند کیا۔

س: آپ کے طالبان کے ساتھ تعلقات کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اب مزید آپکا ان پر کوئی اثرورسوخ نہیں؟
ج: پاکستان طالبان پر زور ڈال چکا ہے کہ انہیں مکمل فوجی فتح کی طرف نہیں جانا چاہیے، کیونکہ ایسا ہونا ناممکن ہے اور اگر انہوں نے ایسا کیا تو اس کا مطلب ہوگا کہ ایک طویل خانہ جنگی اور اس خانہ جنگی سے جو ملک سب سے زیادہ متاثر ہوگا وہ پاکستان ہوگا کیونکہ پاکستان میں افغانستان سے زیادہ پشتون آباد ہیں، کیونکہ طالبان بنیادی طور پر پشتون تحریک ہے تو اسکے دو اثرات ہوں گے ایک تو ہمیں ڈر ہے کہ مزید پناہ گزیں پاکستان کی طرف آئیں گے، ہم پہلے ہی بمشکل تیس لاکھ پناہ گزینوں کو سنبھال رہے ہیں۔
دوسرا ہمارا وژن براستہ افغانستان وسط ایشیائی ریاستوں سے تجارت کرکے اپنی معیشت کو بہتر کرنے کا ہے، ہمارے بہت سی وسطِ ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارتی معاہدے ہیں اور ہم وہاں صرف براستہ افغانستان جا سکتے ہیں اور کسی بھی خانہ جنگی کی صورت میں یہ ممکن نہ ہوگا۔۔

س: کیا آپ کابل حکومت کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں؟ اگر طالبان نے افغانستان کو اوور ٹیک کرلیا تو آپ کیا کریں گے؟
ج: ہم نے افغان قیادت کو اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے، ہم فوجی کاروائی کے علاوہ انکی مدد کے لیے سب کچھ کریں گے۔ اور اگر طالبان نے افغانستان اوور ٹیک کرلیا تو ہم بارڈر سیل کردیں گے کیونکہ ابھی ہم کرسکتے ہیں۔

س: کیا آپ طالبان حکومت کو تسلیم کریں گے اگر انہوں افغانستان پر فوجی قوت سے قبضہ کرلیا؟
ج: پاکستان صرف اس حکومت کو تسلیم کرے گا جسے افغانستان کے لوگ منتخب کریں گے پھر چاہے وہ کوئی بھی حکومت ہو۔

س: کیا آپکو لگتا ہے کہ اگر ہندوستان میں کوئی اور حکومت ہو تو آپکے تعلقات بہتر ہوں گے؟
ج: میں نے آفس سنبھالتے ہی بات چیت کی دعوت دی تھی کہ آئیں ملکر غربت کے خلاف کام کریں لیکن یہ آر ایس ایس کا پرتشدد نظریہ ہے جو کہ بات چیت کی راہ میں حائل ہے، مجھے امید ہے کہ اگر کوئی دوسری حکومت ہوگی تو ہم بہتر طریقے اور بات چیت سے اپنے مسائل حل کرسکیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

س: ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہندوستان اور امریکہ کے تعلقات میں گرمجوشی آرہی ہے یہ اس لئے بھی ہے کہ امریکہ ہندوستان کو چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو کنٹرول کرنے کے لئے استعمال کررہا ہے، آپکے چین کے ساتھ بہت گہرے تعلقات ہیں تو کیا ایسے میں آپ امریکہ اور ہندوستان کے ساتھ ایک مشکل صورتحال میں پھنس نہیں جاتے؟
ج: پہلے تو مجھے یہ بات سب سے عجیب لگتی ہے کہ چین اور امریکہ کو ایک دوسرے کے خلاف لڑنا ہی کیوں ہے؟ اگر یہ دونوں معاشی دیو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں تو اس سے ہم سب کا فائدہ ہوگا۔
اور دوسری بات یہ کہ ہمیں امریکہ اور چین میں سے کسی ایک کا انتخاب کیوں کرنا پڑے؟ ہمارے تعلقات سب کے ساتھ ہونے چاہئیں! دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہمارا بہت نقصان ہوا، ہمارے قرضے بڑھتے گئے، ایسے میں چین ہی ہماری مدد کو آگے بڑھا۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply