بہادر شاہ ظفر کی کوشش تھی کہ وہ اپنے بعد اپنی مرضی کا جانشین کا تقرر کر سکیں۔ ان کے بڑے بیٹے دارا بخش کی وفات بخار آ جانے کے بعد 1849 میں ہو گئی تھی۔ اگلا نمبر مرزا فخرو کا تھا۔ لیکن زینت محل کا اصرار اپنے بیٹے مرزا جوان بخت کو بنوانے کا تھا۔ یہ بیٹوں میں پندرہوں نمبر پر تھے اور عمر آٹھ سال تھی۔
انگریزوں نے ہندوستان میں حکمرانی کے وراثتی جھگڑوں سے نمٹنے کے لئے قانون بنایا تھا کہ کسی بھی فرمانروا کی موت کی صورت میں بڑا بیٹا حکمران ہو گا اور اس سے کوئی استثنا نہیں۔ نواب، راجہ، خان، مہاراجہ اور بادشاہ سب پر یہ لاگو تھا۔
بہادر شاہ ظفر نے لیفٹیننٹ گورنر کو خط لکھ کر درخواست کی تھی کہ مرزا جوان بخت نہ صرف ان کے ہاتھوں سے تربیت پا رہا ہے بلکہ ان کی جائز بیوی کی اولاد بھی ہے، اس لئے ولی عہد جوان بخت کو بنانے کی اجازت دی جائے۔ یہ درخواست دلچسپ اس لئے تھی کہ بہادر شاہ ظفر کا بادشاہ بننا بھی اسی قانون کے مرہونِ منت تھا۔ ان کے والد اپنے بڑے بیٹے سے ناخوش تھے اور انہوں نے بھی انگریز سرکار کو خط لکھا تھا کہ ولی عہد کو تبدیل کرنے کی اجازت دی جائے جو مسترد کر دی گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولی عہد مرزا فخرو نے انگریزی سیکھنی شروع کر دی تھی۔ اور انگریز افسروں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کر دیا تھا۔ مرزا فخرو نے انگریز لیفٹیننٹ جنرل سے بات طے کر لی تھی کہ وہ انہیں بادشاہ بنانے میں مدد کریں تو وہ دو سو سال سے مغل بادشاہت کا مرکز لال قلعہ انگریزوں کے حوالے کر کے مہروالی منتقل ہو جائیں گے۔ انگریز اسے اسلحہ ڈپو، فوجی بیرک اور انتظامی مرکز کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ دوسری بات فخرو نے یہ طے کر لی تھی کہ وہ مغلوں کے پرانے دعوے سے دستبردار ہو جائیں گے کہ مغل برٹش گورنر جنرل سے بالاتر ہیں اور برابری کو رسمی طور پر تسلیم کر لیں گے۔
بہادر شاہ ظفر کو جب اس معاہدے کا علم ہوا تو فخرو پر بہت غصہ کیا۔ ان کا مشاہرہ بند کر دیا۔ سرکاری پوزیشنوں سے معزول کر دیا۔ ان کی جائیداد چھوٹے شہزادوں کے حوالے کر دی۔ لوگوں کو ان کا بائیکاٹ کرنے کو کہا۔ لیکن جب آہستہ آہستہ واضح ہو گیا کہ کچھ نہیں ہو سکتا تو ظفر مایوسی کا شکار ہو گئے۔ انہوں نے میٹکاف کو لکھا کہ “میری ہر خواہش رد کر دی جاتی ہے اور یہ میرے لئے ناخوشی کا باعث ہے۔ میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں بادشاہت چھوڑ کر حج کرنے مکہ چلا جاوٗں اور باقی ایام وہیں گزاروں۔ اس دنیا تو میں ہار چکا ہوں لیکن کہیں اگلی دنیا میں بھی نہ ہار جاوٗں”۔
بعد میں انہوں نے یہ ارادہ ترک کر دیا۔
تھامس میٹکاف چالیس سال سے دہلی میں تھے۔ اپنے پیشرووٗں کے برعکس مغل پگڑی اور لباس نہیں پہنتے تھے اور نہ ہی پچھلے برٹش ریزیڈنٹ ڈیوڈ اوکٹرلونی کی طرح تھے جنہوں نے ہندوستان میں تیرہ شادیاں کی تھیں اور ہاتھیوں کے قافلے پر سیر کرنے نکلتے تھے جس میں ہر بیوی کا اپنا اپنا ہاتھی تھا۔ میٹکاف کی بیوی فوت ہو چکی تھیں۔ وہ اکیلے رہا کرتے تھے۔ نہ کوئی شوق رکھا ہوا تھا۔ کام میں جٹے رہا کرتے تھے۔ دہلی کے آرٹ سے دلچسپی تھی۔ دہلی آرکیولوجیکل سوسائٹی بھی شروع کی تھی جس کے ایک پرجوش ممبر سید احمد خان تھے۔ اس سوسائٹی کے رسالے کا انگریزی ترجمہ خود کیا کرتے تھے۔
جہاں پر دوسرے برٹش افسران ہندوستان میں تعیناتی کو عارضی سمجھتے تھے، میٹکاف نے یہاں مستقل رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ دہلی میں اپنے لئے دو بڑے گھر تعمیر کروائے تھے۔ بہادر شاہ ظفر سے دوستانہ روابط تھے۔ ان کا انتقال 1853 میں ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھامس میٹکاف کے بیٹے تھیو میٹکاف جو کہ مجسٹریٹ بنے اور انہیں “کانا میٹکاف” کہا جاتا تھا۔ 1857 میں ان کا سفاکانہ کردار ایک وجہ رہی کہ برٹش پارلیمنٹ نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے 1858 میں اختیارات چھین لئے اور ہندوستان کو براہِ راست تاجِ برطانیہ کے ماتحت کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساتھ لگی تصویر مرزا فخرو کی پینٹنگ ہے، جو مغل خاندان کی آخری ولی عہد تھے۔ 1856 میں ان کی وفات کے بعد کوئی ولی عہد نہیں بنایا گیا۔
(جاری ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں