تربیت اور اخلاق۔۔شاہد محمود ایڈووکیٹ

بِسْمِ اللَّه الرَّحْمَن الرَّحِيم ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِين ۔
سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ عَدَدَ خَلْقِهِ وَرِضَا نَفْسِهِ وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ –
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ طِبِّ الْقُلُوْبِ وَدَوَآئِھَا وَعَافِیَۃِ الْاَبْدَانِ وَشِفَآئِھَا وَنُوْرِ الْاَبْصَارِ وَضِیَآئِھَا وَعَلٰی اٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلِّمْ۔
ایک چھوٹی سی بات جس کے بڑے نتائج نکلتے ہیں وہ ہے “ملمع کاری” کہ ہمارا گھر سے باہر کاروبار یا ملازمت کی جگہ پر یا برادری و دوست احباب میں رویہ بڑا سلجھا ہوا، تعاون کرنے والا، تحمل و بردباری سے بات سننے والا اور دوسروں کے کام آنے والا ہوتا ہے۔ ہم دوسروں کے مسائل سننے اور حل کے لئے وقت بھی نکال لیتے ہیں۔ دوسروں کو ان کی پڑھائی، کاروبار، ملازمت بارے اپنے تجربے کی روشنی میں مشوروں سے بھی نوازتے ہیں۔ اپنے آپ کو خُودّ ار اور کھلے دل کا مالک ثابت کرتے ہیں لیکن جس لمحہ گھر میں داخل ہوتے ہیں تو ۔۔۔ ہماری کایا پلٹ جاتی ہے ، بیوی بچوں کا سانس خشک ہو جاتا ہے ۔ وہ دبک جاتے ہیں ،جائز ضروریات، بنیادی ضروریات کے لئے بات کرنے کے لئے بھی ہمت جمع کر کے موقع محل دیکھ کر ڈرے سہمے بات کرتے ہیں ۔ اگر ہم  میں سے کوئی ایک بھی ایسا “طرم خان” ہے تو اسے اپنے گریبان میں  جھانکنے کی اور اپنی اصلاح کی ضرورت ہے۔ میری بیگم حضور کے پاس ایک خاتون ملنے آتیں تو بیگم کے فون سے اپنے میکے فون کرتیں کیونکہ ان کے اپنے فون میں صرف “مس بیل” کرنے جتنا بیلنس ان کے “امیر کبیر اور ہر سال گاڑی کا ماڈل بدلنے والے میاں” ان کے فون میں ڈلواتے تھے اور اگر وہ میکے مس بیل کرتیں اور کوئی غلطی سے فون اٹینڈ کر لیتا اور بیلنس اڑ جاتا تو شوہر نامدار کلاس لے لیتے ۔ الامان الحفیظ ۔۔ الحمدللہ ہماری بیگم حضور بسکٹس کے پیکٹ وغیرہ گھر رکھتی ہیں اور جو بچے کبھی گھر آئیں تو انہیں خالی ہاتھ نہیں بھیجتیں بلکہ ان کے بہن بھائیوں کے حصے کی چیز بھی دے کر بھیجتی ہیں تو انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ کس گھر کے بچے خود اعتماد اور کس کے سہمے ہوئے ہیں۔ اگر ہم میں سے کسی کی بھی والدین، بیوی بچے، بہن بھائی ہم سے کسی وجہ سے بھی بات کرنے سے، اپنی ضرورت بیان کرتےجھجھکتے  ہیں،تو  فور ی اصلاح کی ضرورت ہے ۔۔۔۔ یہ تو وہ رشتے ہیں جن کی ضرورتیں ان کی زبان پر آنے سے پہلے خوش دلی سے ہمیں خود پوری کرنی چاہئیں ۔ کوشش کریں جنہیں آپ کی پیدائش کی خوشی ہوئی تھی وہ اپنے بڑھاپے میں بھی آپ سے خوش ہوں، کوشش کریں جنہیں آپ کے مرنے کا غم ہو سکتا ہے ان کے ساتھ اپنی زندگی میں خوشگوار وقت گزاریں، ان کی خوشیوں کے لئے کوشاں رہیں، کوشش کریں آپ کو قبر میں اتارنے والے آپ کے اپنے ہوں جو آپ کی قبر پر اپنے ہاتھوں سے پھول بھی ڈالیں اور آپ کو اپنی دعاؤں میں بھی یاد رکھیں۔
سلامتیاں، ڈھیروں پیار اور محبت بھری پرخلوص دعائیں۔
نوٹ:- تصویر کا تحریر سے تعلق خود ڈھونڈیں۔

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply