مری کے ساتھ میری بہت خوبصورت یادیں وابستہ ہیں۔ اسی لئے جب ہر سال یہ خبر سننے کو ملتی ہے کہ مری کے مقامی لوگوں نے کسی نہ کسی سیاح کے ساتھ بد تمیزی کی ہے تو یہ سن کر مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے کیونکہ میں آج تک مری میں گزارے وہ چند دن نہیں بُھول سکی جو ایک کالج ٹرپ کی وجہ سے مجھے میسر آئے تھے۔
مری پاکستان کے سیاحوں کے لئے ایک پُر کشش مقام ہے جہاں ملکی اور غیر ملکی سیاح لطف اندوز ہونے آتے ہیں۔۔ ایسے میں مری کے مقامی لوگوں کا یہ رویہ ناقابلِ قبول ہے۔
ایسی دہشت گردی کی میں مذمت کرتی ہوں۔ اگر یہی رویہ رہا تو یہ مقام ویران ہو جائے گا۔۔ اس خوف کی فضاء میں کوئی نہیں آئے گا۔ اس لئے اس طرح کے رویوں پر حکومتی سطح پر بروقت قدم اٹھانا چاہیے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں بی ـاے فائنل ایئرمیں تھی اور کالج کے ٹرپ میں مجھے مری جانے کا اتفاق ہوا۔یوں تو سکول کالجز ایسے ٹرپ اکثر اُن طلباء اور طالبات کے لئے ارینج کرتے ہیں جن کا سکول یا کالج میں آخری سال ہوتا ہے۔یہ بہت ہی خاص ٹرپ اس لئے بھی تھا کہ مجھے اس ٹرپ کے ساتھ جانے کی اجازت نہیں تھی اور میرے جیسی بیٹی اتنے پیارے والدین کے لاڈ و پیار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ کہتی ہے کہ اجازت نہیں مانگ رہی صرف بتا رہی ہوں کہ جانا ہے تو بس جانا ہے۔ ہماری ماں بہت ہی سادہ درویش صفت سی گھریلو خاتون تھیں اس لئے انہوں نے کہا والد صاحب سے بات کرو اور یہ تَڑیاں (دھمکیاں) مجھے نہیں اپنے باپ کو دکھاؤ ۔
میں چونکہ والد صاحب کی لاڈلی اور انہیں کی طرح ضدی، ہٹ دھرم اور نڈر بھی تھی۔ اس لئے اُن سے کہتے ہوئے کبھی ڈر نہیں لگا۔
والد صاحب سے کہا آپ سے پاکٹ منی نہیں چاہئے اور نہ ہی ٹرپ کا خرچہ کیونکہ میں اپنی ٹیوشن کی انکم سے ٹرپ کی فیس بھر چکی ہوں اور اب صرف آپ کو بتا رہی ہوں کہ جانا ہے۔
والد صاحب ہمیشہ کی طرح میری ہڈ دھرمیاں یہ سوچ کر برداشت کرگئے کہ جی لے جب تک میرے پاس ہے۔۔
پتا نہیں آگے کیسے لوگ ملیں؟
“جو اِس کے اِن معصوم نخروں کو گُستاخیاں اور ہٹ دھرمیاں نہ سمجھنے لگیں ”
والدین ہمیشہ مختلف سوچتے ہیں اور باپ کا پیار تو ہوتا ہی بیٹی کے نخرے اٹُھانے کے لئے ہے۔ مجھے ہمیشہ وہ بھرپور لاڈ اور پیار اپنے والد صاحب سے ملا ۔جب بھی میں نے اپنی مرضی چلائی ۔انہوں نے اسے میرا نخرہ سمجھ کر دل سے قبول کر لیا۔ہمارے خاندان میں بیٹیوں سے پیار کرنے والے مرد ہیں جو بیوی کی سُنیں نہ سُنیں لیکن بیٹی کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں شائد ہم بیٹیاں اُن کا فخر اور آنکھ کا تارہ جو ہوتی ہیں۔
میں بھی ایسے ہی گھرانے میں پیدا ہوئی جس میں 5 بیٹوں کی وفات کے بعد بھی بیٹی کو منحوس نہیں سمجھا گیا بلکہ بیٹی کو بیٹے کا درجہ دیا گیا اُس کی ضد اور ہٹ دھرمی اس لئے برداشت کی گئی کہ اُسے یہ نہ لگے کہ 5 بیٹوں کی وفات کے بعد پیدا ہونے والا بھائی اِن بیٹیوں سے زیادہ لاڈلا ہے۔
لو میں بھی کیا کہانی لے کر بیٹھ گئی۔۔۔۔
واپس چلتے ہیں اُس ٹرپ کی طرف جو آجکل کے مری میں ہونے والے واقعے کی وجہ سے مجھے یاد آگیا ہے۔
خیر ہمارا ٹرپ اپنے مقررہ وقت پر یہاں سے روانہ ہوا اور ہمارا پہلا قیام پنڈی کا ایک ریسٹ ھاؤس تھا ۔ نام ٹھیک سے یاد نہیں لیکن کوئی ایجوکیشن سینٹر کا چھوٹا سا چند کمروں کا ریسٹ ہاؤس تھا۔ جہاں ہمیں دو دن ٹھہرنا تھا۔ اسی رات ہم نے اپنا سامان جس میں ہمارا بوریا بستر بھی شامل تھا ۔بتائے گئے ٹھکانے پر لگایا اور رات کے کھانے کے لئے ہمیں کابانہ لے جایا گیا ۔ بھوک اتنی تھی کہ کہ لگا اِس سے شاندار اور لذیذ شائد ہی ہمیں کبھی میسر آیا ہو، اس لئے جی بھر کر کھایا۔
اس وقت رابطے کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس نہ تھا کہ بتا سکتے کہ خیریت سے پہنچ گئے ہیں۔ خیر دو دن اسلام آباد اور پنڈی میں خوب مزے کئے جن میں شکر پڑیاں ، دامنِِ کوہ،ایوب پارک،فیصل مسجد اور بہت ساری اہم عمارات کے درشن بھی ہمیں کروائے گئے۔ دو دن کے قیام کے بعد ہمیں مری کی طرف روانہ ہونا تھا۔ فروری کا مہینہ اور مری میں کچھ دن قیام کرنا تھا۔۔
ہمیں بتایا گیا کہ مری میں برف باری ہوئی ہے۔اس وقت ایک شوق تھا برف باری کو دیکھنے کا، تب یہ نہیں معلوم تھا کہ مجھے ساری زندگی ہی یہ برفباری دیکھنی پڑے گی۔ اب ہر سال برف باری کے حسین مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن وہ مزا جو صرف چند دن کا تھا میں آج تک نہیں بُھلا سکی ۔
پنڈی سے نکلتے ہوئے راستے میں ہمیں چھتر پارک بھی دکھایا گیا۔ اس خوبصورت پارک کی جھیل کے قریب ہم نے پوز مار مار کر تصویریں بنائیں۔۔ آج بھی وہ یادگار تصاویر میری فیملی کے پاس محفوظ ہیں۔ ہم چار دوستوں کا گروپ تھا۔ ہمارے ہی گروپ کی ایک لڑکی نے کیمرہ ارینج کیا اور ہم نے خرچے کو چاروں میں تقسیم کرلیا۔ ایک ایک لمحے کو جی بھر کر جیا۔ آج تک اس آزادی کا مزا نہیں بھول پائی جو ہفتہ گھر سے دور رہ کر ملی تھی جبکہ میرے گھر کا ماحول پابندیوں والا نہیں تھا لیکن پھر بھی سہیلیوں کے ساتھ گزارے وقت کا مزا لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی۔
آج کون کہاں ہے؟ “نہیں جانتی لیکن ان کے چہرے آج بھی یاد ہیں۔”
پنڈی سے مری تک کے سفر میں ہمیں بہت ساری جگہیں دکھائی گئیں اسی وجہ سے ہم جب مری پہنچے تو جس چھوٹے سے ھوٹل میں ہمیں قیام کرنا تھا وہاں ہماری بکنگ کے مسئلے کی وجہ سے ہمیں ایک پرائمری سکول جس کے شیشے تک ٹوٹے ہوئے تھے رات گزارنی پڑی ۔ ٹھنڈا فرش ،سفید آسمان اور ٹوٹے ہوئے کھڑکیوں کے شیشے جن سے اندر آتی سرد ہوا۔ ایسے میں ڈبل ٹرپل جرابیں، سویٹر، جیکٹ ، ٹوپی اور جاگرز کے ساتھ لیس ہوکر ہی رات گزاری۔ ٹیچرز کو ریسٹ کرتا دیکھ کر باری باری لڑکیوں کے ٹولے اپنا سامان سائیڈ پر رکھ کر مری کی مال روڈ دیکھنے نکل پڑے۔
مال روڈ کی خوبصورتی رات میں اپنے جوبن پر ہوتی ہے۔ خوبصورت روشنی میں سجے کلچر اور ثقافت کا یہ بازار، گہما گہمی اور رونق ایک دلفریب نظارہ پیش کرتا ہے۔ رات گئے تک یہ بازار کھلا رہتا ہے اور سیاح اس کی روشنیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس ٹھنڈ میں کافی یا چائے بھی ایک الگ مزا دیتے ہیں۔ رات ہم وقفے وقفے سے اندر باہر آتی رہیں کیونکہ اُس ٹھنڈے فرش پر سونے سے بہتر تھا کچھ گھوم پھر کر مستی کر لی جائے۔
اگلے ہی دن ہمیں ایک قدرے بہتر چھوٹے سے ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ جہاں پہلے ہمیں ناشتہ کروایا گیا اور سامان رکھ کر پھر سے ہمیں مری گھمانے کے لئے لے جایا گیا۔ پٹریاٹا ،پنڈی پوائنٹ ،مال روڈ کی سیر کروائی گئی۔ کیبل کار اور چئیر لفٹ کی سیر بھی کروائی گئی ۔ غرض کہ فل پیکج دیا گیا۔ برف پوش پہاڑوں پرگھوڑے پر بیٹھ کر سیر کرنے کا موقع بھی ملا۔ ایک دوسرے پر برف پھینکنے اور برف میں لوٹ پوٹ ہونے کا بھی اپنا ہی مزا تھا۔ شریر تو میں تب بھی تھی اور میرے جیسی میری دوست رفعت جو ایک مذہبی فیملی سے تعلق رکھتی تھی یہاں آکر اس نے برقعہ بیگ میں ڈال دیا اور جی بھر کر اس آزادی کا مزا لیا جس کا وہ تصور بھی لاہور میں نہیں کر سکتی تھی۔ یہ میری کالج کی وہی دوست تھی جس کے ساتھ مل کر میں ٹیچرز کی گاڑیوں کی ھوا نکال دیتی تھیں اور ڈیٹس پر جانے والی لڑکیوں کے برقعے چھپا دیتی تھی اور جب جب اُن کے یہ عاشق ہمارے ڈے ٹرپ پر موٹر سائیکلوں پر آتے تھے تو ان کے منہ پر مونگ پھلی، مالٹے کے چھلکے اور کبھی کبھی چاٹ مصالحہ بھی بس کی کھڑکی سے پھینکتی تھی۔ تاکہ یہ وقتی عاشق بجائے بعد میں رستہ بدلنے کے ابھی ہی واپس لوٹ جائیں۔۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔
پورا ہفتہ خوب مزا کیا۔ مری روڈ کے لذیذ کھانے جن میں تازہ تازہ بنی چکن اور مٹن کڑاہی نان سلاد اور چٹنی کے ساتھ۔ اس کا ذائقہ آج تک یاد ہے۔
سردی کی وجہ سے میرے پاؤں کی ایڑی میں سُوجن بھی آگئی تھی اور سونے پر سہاگہ ایک کنکر پتا نہیں کیسے جاگرز کے اندر چلا گیا تھا ؟
جس نے اِس سُوجن کو مزید چار چاند لگا دئے تھے۔ یہ واقعہ واپسی والے دن رُونما ہوا ۔ اگر پہلے ہوتا تو چلنا پھرنا بھی محال ہو جاتا ۔ خیر مری کی یہ سُوجن بھری سوغات کے ساتھ دس دن لاہور میں تکلیف کے ساتھ گزارے اور جب جب تکلیف ہوتی گھر والے کہتے “پھر چلیں مری”
اور میرا بھائی اور ماموں تو میرے زخم کو جان جان کر ہاتھ لگاتے اور
جب میری ٹیس بھری آواز نکلتی تو کہتے
“چلیں پھر مری”۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں