• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا پیریڈ کا مقررہ تاریخ پر نہ آنا نقصان دہ ہے؟۔۔۔۔۔۔۔سلطان محمد/ہیلتھ بلاگ

کیا پیریڈ کا مقررہ تاریخ پر نہ آنا نقصان دہ ہے؟۔۔۔۔۔۔۔سلطان محمد/ہیلتھ بلاگ

سوال ۔۔ پیریڈز اگر مقررہ تاریخ سے پہلے آ جائیں تو میڈیکلی کوئی نقص ہے یا نارمل سمجھا جائے؟؟

جواب ۔۔ایک نارمل پیریڈ کا اوسط دورانیہ اٹھائیس دن کا لیا جاتا ہے جبکہ کم از کم بائیس اور زیادہ سے زیادہ پینتیس دن تک نارمل ہو سکتا ہے۔ بائیس اور پینتیس کے بیچ میں ماہانہ پیریڈز کے دورانیے میں کمی بیشی ہو سکتی ہے جو کہ نارمل ہے۔بائیس دن سے کم پیریڈز کو پولی مينوریا کہا جاتا ہے۔ پینتیس دن سے زیادہ پیریڈز کو اولیگو مینوریا کہتے ہیں۔ نارمل سے زیادہ خون آنا یا زیادہ دنوں تک خون آنے کو مینو رجیا یا ڈس فنکشنل یوٹرائین بلیڈنگ کہتے ہیں۔پینتیس دن تک پیریڈز نہ آنے کی وجہ حمل کا ٹھہرنا بھی ہو سکتا ہے۔
کسی بھی تکلیف کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ خواتین ممبرز کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ اس موضوع پر مزید جاننا چاہیں تو سوال کریں۔

سوال۔۔ کیا پیریڈز کے دورانpain killer لینا مفید ہے؟

جواب ۔ پیریڈز کے دوران پین کلرز:
پین کلر ادویات عام طور پر محفوظ ہوتی ہیں لیکن بروفین، پونسٹان، ڈائکلو فینیک یا ایسپرین جیسی ادویات لینے سے خون پتلا ہو کر بلیڈنگ زیادہ ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ اس لیے درد کی صورت میں پیراسیٹامول یا پیناڈول ہی استعمال کرنی چاہیے۔

سوال ۔۔خواتین کو ماہواری یا پیریڈز کیوں ہوتی ہیں؟

جواب۔ ہر ماہواری کے وقت یوٹرس کی اندرونی تہ (انڈو مٹریم ) متوقع حمل کیلیے اپنے آپ کو تیار کرتی ہے ، اسکی موٹائی بڑھ جاتی ہے ، یہاں خون کی نئی رگیں بنتی ہیں خلیے تیزی سے تقسیم ہو کر یہاں ایسا ماحول بناتے ہیں جس میں ایمبریو آ کر نشونما پا سکے ،پر اگر حمل نہ ہو تو ہر ماہ یہ تہ ضائع ہو کر جھڑ جاتی ہے ، اسکو باہر نکالنے کیلیے یوٹرس کے پٹھے سکڑتے ہیں ، اس سے وہاں موجود خون کی رگیں وقتی طور پر دب جاتی ہیں اور خون اور آکسیجن کی کمی سے وہاں درد کی کیفیت پیدا ہوتی ہے (یہی کچھ ہارٹ اٹیک میں بھی ہوتا ہے ) .۔ارتقائی طور پر دوسرے ممالیہ جانداروں میں بھی ماہواری ہوتی ہے ، کچھ میں انسان کی طرح یہ باہر جھڑ جاتی ہے کچھ میں دوبارہ جذب ہو جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جواب ۔۔ حمل کے دوران ہارمونز کا اتار چڑھاؤ:
ایک نارمل ماہانہ پيریڈ اٹھائیس دنوں کا شمار کیا جاتا ہے۔ خواتین کے جسم میں موجود بيضہ دانیاں (ovaries) ماہواری کے شروع کے دنوں میں ایسٹروجن نامی ہارمون بناتی ہیں جس سے یوٹرس کی اندرونی سطح اینڈو میٹریم کی ڈیویلپمنٹ شروع ہو جاتی ہے۔چودھویں یا پندرھویں دن دونوں میں سے ایک بیضہ دانی سے ایگ ریلیز ہوگا جس کے بعد بیضہ دانی ایک اور ہارمون پروجیسٹروجن بھی بنائیگی۔ اس کے عمل سے یوٹرس میں مزید گروتھ ہوگی اور وہ ممکنہ آنے والے زایگوٹ کے لئے زیادہ خون اور غذائی اجزاء ذخیرہ کریگا۔
اگر حمل ٹہر جائے، تو ہارمون بنانے کی زمہ داری ایمبریو کے گرد لپٹی ھوئی جھلی (Placenta) لے لیتی ہے اور اس طرح حمل جاری رہتا ہے۔عام طور پر 280 دن پورے ہونے پر ایک اور ہارمون آکسیٹو سین اپنا رنگ دکھانا شروع کریگا جسکا کام یوٹرس کو حرکت دینا ہوتا ہے تاکہ وہ حمل کو، جو کہ اب ایک بچہ بن چکا ہے، باہر دھکیل دے۔اس تمام عرصے میں ایک اور ہارمون، پرولیکٹین، ماں کی چھاتیوں میں دودھ بنائیگا اور اسے ذخیرہ کریگا۔بچے کے پیدا ہوتے ہی Oxytocin کے عمل سے ہی چھاتیوں سے فوری طور پر، اور بعض اوقات ایک دو دن بعد دودھ آنا شروع ہوگا تاکہ ننھے مہمان کو اپنی پہلی غذا میسر ہو سکے۔جب تک بچہ دودھ پیتا رہےگا، ماں کے جسم میں Prolactin کے لیولز بھی زیادہ رہیں گے اور اسکی وجہ سے بیضہ دانی دوسرا بیضہ نہیں بنائیگی۔ (یہ فیملی پلاننگ کا ایک قدرتی طریقہ بھی ہے مگر بہت زیادہ موثر نہیں۔)بچے کا دودھ چھڑانے کے بعد ماں کے نارمل پیریڈز لوٹ آئنگے اور اسکا جسم ایک اور حمل کے لئے تیار ہو جائیگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply