• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • فلسطینیوں کی جاری نشل کشی اور عرب آمر بادشاہ۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

فلسطینیوں کی جاری نشل کشی اور عرب آمر بادشاہ۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

سچی بات یہ ہے کہ جب سے غزہ پر اسرائیلی حملے شروع ہوئے ہیں، دل بہت ہی افسردہ ہے۔ اسرائیلی جہاز و میزائل سسٹم فلسطینیوں پر ابراہہ کی طرح حملہ آور ہیں۔ طاقت کے نشے میں بدمست ہاتھی کی طرح ہر چیز کو روندنے کے درپے ہیں۔ رہائشی کمپلکس بڑے پیمانے پر گرائے جا رہے ہیں۔ فلسطینی بچوں کے جنازے بے ضمیر دنیا کے سوئے ضمیر پر تازیانے بن کر پڑ رہے ہیں۔ مغرب و مشرق کے انصاف پسند سڑکوں پر ہیں، وہ دہائیاں دے رہے کہ غزہ میں جنگ نہیں نسل کشی کی جا رہی ہے۔ دنیا کا ضمیر کس قدر احساسات سے عاری ہوچکا ہے۔؟ انڈیا کے اقوام متحدہ میں مندوب ٹی ایس تریمورتی نے کہا کہ “انڈیا تشدد، بالخصوص غزہ سے ہونے والے راکٹ حملوں کی مذمت کرتا ہے۔” سبحان اللہ کیا ہی انصاف پر مبنی ردعمل ہے؟ عربوں کو چونے لگانے والے یہ لوگ ظالم کے ساتھ ہیں، مظلوم کی بات فقط اس لیے کرتے ہیں کہ کہیں وہاں سے حاصل ہونے والا تھوڑا بہت تجارتی مفاد بھی خطرے میں نہ پڑے۔

اسرائیل کے معیارات بڑے واضح ہیں، وہ ہر فلسطینی بچے کو اپنا دشمن سمجھتا ہے اور اس پر اسے کسی قسم کی ندامت کا احساس تک نہیں ہے۔ اسرائیلی کی رکن پارلیمنٹ نے سرعام سوشل میڈیا پر فلسطینی بچوں کو سپولے قرار دیا تھا اور ان کی ماوں کو سپولے پالنے والیاں کہا تھا۔ اس نے ان تمام کے خاتمے کو ہی امن کی بنیاد قرار دیا تھا۔ جی جب اسرائیل امن کی بات کرتا ہے تو اس سے مراد فلسطینیوں کا خاتمہ ہے۔ اسرائیل زمین اور انسان کھانے والی وہ بلا ہے، جو نوے فیصد فلسطین کھا چکی ہے۔ اسرائیل کے عرب پڑوسی اس خوش فہمی میں ہیں کہ یہ بلا ان کی طرف نہیں آئے گی، مگر یہ ان کی بھول ہے۔ شام کی گولان کی پہاڑیاں یہ بلا نگل چکی ہے، جس کے بعد شام کو سمجھ آئی کہ یہ بلا ہے اور اس کا علاج فقط طاقت ہے، یہ بلا فقط بارود سے خوف کھاتی ہے، کیونکہ یہ بارود سے ہی خوفزدہ کرتی بھی ہے۔ مصر کے صحرائے سینا سمیت بڑے حصے کو بھی نگل لیا تھا، پھر مصر نے اس شرط پر صلح کر لی کہ مصر کو اس بلا کے دیگر چھوٹے ممالک کے نگلنے پر کوئی اعتراض نہ ہوگا بلکہ مصر ہر ممکن تعاون کرے گا۔

دیکھ لیں غزہ کی واحد سپلائی لائن وہ سرنگیں تھیں، جو اسے مصر سے جوڑتی تھیں، انہیں بارود لگا کر اڑا دیا گیا ہے اور مصری فوج نے ان سرنگوں میں پانی چھوڑ کر انہیں تباہ کر دیا۔ اس سے غزہ کا واحد زمین رابطہ بھی کٹ گیا۔ کاش مصر نے یہ سمجھا ہوتا کہ دنیا میں عزت سے بھی اپنی زمینیں واپس لی جا سکتی ہیں، مگر اس کے لیے ذرا محنت زیادہ کرنا پڑتی ہے۔ ایک دور تھا کہ اسرائیلی فوجیں بیروت تک دنداناتی پھرتی تھیں، پورا جنوبی لبنان ان کے قبضے میں تھا، پھر ایک قیادت ابھری اور انہوں نے مقاوت کا راستہ اختیار کیا۔ اسرائیل سے اس کی زبان میں بات کی، مذاکرات کی بھول بھلیوں میں وقت ضایع کرنے کی بجائے، میدان میں کام کیا اور دنیا نے دیکھا کہ اسرائیل کو جنوبی لبنان سے دم دبا کر بھاگنا پڑا۔ پھر ایک بار سرحد پار کرنے کی جرات کی اور 33 روز تک مسلسل آگ اگلنے کے باوجود جب اسرائیلی ٹینک آگے بڑھے تو بارود کی لپٹ میں آگئے۔ دنیا کے بڑے ممالک کو دہائیاں دے کر جنگ بندی کرانا پڑی۔

بحرین و عرب امارات مکمل طور پر اسرائیل کی گود میں جا گرے ہیں۔ غزہ کی موجودہ جنگ میں بہت سی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ متحدہ عرب امارات اسرائیل کی ہمراہی میں فلسطینیوں کے خلاف جنگ میں شریک ہے۔ یہ بات بھی ان ممالک کے خفیہ تعلقات کی طرح طشت از بام ہو جائے گی، مگر ایک بات جسے میڈیا نے رپورٹ کیا کہ متحدہ عرب امارات نے حماس سے کہا ہے کہ وہ اسرائیل پر حملے بند کر دے، ورنہ عرب امارات فلسطین میں جاری اپنے سارے منصوبے بند کر دے گا۔ جنگ کے دوران معاشی نظام کو برباد کرنے کی دھمکی دینے والے دشمن سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ عرب کے حریت پسند عوام آج بھی فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں، اردن کے عوام فلسطینی بارڈر تک پہنچ گئے کہ اہل فلسطین کی مدد کے لیے جائیں گے۔ شام کے امریکی و داعش کے مشترکہ مظالم کا شکار عوام بھی اہل فلسطین کی مدد کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ لبنان کے مجاہد عوام بھی اسرائیلی بارڈر تک پہنچ گئے اور بھرپور احتجاج ریکارڈ کرایا۔ یمن میں انصاراللہ اور یمنی عوام نے اہل فلسطین کی حمایت کا اعلان کیا۔ اسی طرح کئی عرب ممالک میں احتجاج دیکھنے کو ملا، یہ تازہ ہوا کے جھونکے ہیں، جو فلسطینیوں کے لیے امید کی کرن ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اہل فلسطین کی حمایت کے لیے مسلمان و مومن ہونا شرط نہیں ہے، انصاف پسند ہونا شرط ہے۔ ایک تصویر سوشل میڈیا پر بہت وائل ہوئی، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ معروف امریکی مصنف اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر ایڈورڈ سعید اسرائیلی فوج کو پتھر مار رہے ہیں۔ ان کا پتھر مارنا ایک معمولی بات نہیں، دراصل ایک تہذیب کا ایک غیر تہذیب یافتہ گروہ سے نفرت اور لاتعلقی کا اظہار ہے۔ جن کی کتابیں دنیا کی ہر بڑی زبان میں ترجمہ ہوچکی ہیں، جن کو مشرق و مغرب کے لوگ بڑی دلچسپی سے پڑھتے ہیں، ایسا سوچنے، سمجھنے اور فکر کرنے والا مفکر و دانشور بھی اسرائیل و صیہونیت کا علاج فقط اور فقط پتھر کو ہی سمجھتا ہے۔ مجھے ان کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ نامی لبرل ازم کے نام پر دھبہ بنی اس مخلوق پر ترس آتا ہے، جو اسرائیلی مظالم کی وجہ فلسطینیوں کو قرار دینے کی سعی لاحاصل کرتے ہیں۔ انہیں ظالم کے ظلم پر کوئی اعتراض نہیں ہے، مگر مظلوم کی چیخوں سے انہیں مسئلہ ہے۔ طاقتور کی محفل میں بیٹھنے والے یہ درباری کسی اخلاقی اور انسانی نظام کے قائل نہیں ہیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply