دہشت گرد پٹھان ہیں یا ہمارا قومی بیانیہ؟

دہشت گرد پٹھان ہیں یا ہمارا قومی بیانیہ؟
عبیداللہ
“دہشت گرد کا کوئی مذہب یا کوئی نسل نہیں ہوتی” کوئی مسلمان ایسا نہیں کر سکتا ،یہ یقینا ًمسلمانوں کے روپ میں کفار ہیں!لیکن ہمارے ہاں تو سارے دہشت گرد ہی پکے مسلمان ہوتے ہیں۔ وہ اپنے نظریے کے علاوہ کسی دوسرے کو مسلمان ماننے کیلئے تیار ہی نہیں۔ ابھی یہ بحث کسی انجام پر نہیں پہنچی تھی کہ ایک اور جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا ہے۔اور وہ یہ ہے کہ سارے پختون دہشت گرد نہیں ہوتے۔ لیکن یہ کیا کہ اب سارے خود کش ہی پختون نسل سے آ رہے ہیں! کیا یہ بیانیہ نیا ہے؟ ہر گز نہیں؟ یہ صورت حال بالکل بھی نئی نہیں ہے۔انڈین فلم ’’مائی نیم از خان‘‘ یاد ہے آپ کو ۔اس فلم میں پٹھان اور دہشت گردی کے گٹھ جوڑ کو توڑنے کی کوشش کی گئی تھی۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ دہشت گردی اور نسل کے گٹھ جوڑ کا تاثر نیا نہیں پرانا ہے۔تاہم اس تاثر کو مقامی سطح پر اب تک زیادہ پذیرائی حاصل نہیں تھی۔ پہلے پنجابی طالبان کا بھی بہت چرچا ہوتا تھا۔اس وقت دہشت گردی اور قومیت کے گٹھ جوڑ پر کسی نے خاص توجہ نہ دی۔ میرا ایک ذاتی مشاہدہ ہے اور ہو سکتا ہے بہت سارے دوست اس سے متفق نہ ہوں۔ تاریخی طور پر پختون قوم پرست اور پنجابی پاکستان کی باقی قومیتوں کے مقابلے میں زیادہ ہم آہنگ رہے ہیں یا پھر یہ تاثر ضرور رہا ہے۔ لیکن ہم آہنگی کا درجہ وہ نہیں جو پختونوں اور انڈین کے درمیان پہلے سے تھا اور اب بھی ہے۔حالیہ دہشت گردی میں بھی پنجابی طالبان کے ملوث ہونے کا تاثر نہیں ملا اور اس بیانیے کو تقویت ملی کہ زیادہ تر دہشت گرد اور ان کے سہولت کار پختون ہی ہیں۔ جب یہ تاثر عالمی سطح پر آیا تو موضوع بحث نا بنا اور اب یہی تاثر پنجاب سے آیا ہے تو اس پر بہت لے دے ہو رہی ہے۔
اس صورت حال میں پختوں قوم پرستوں کی تکلیف بخوبی سمجھ آتی ہے۔ چند لوگوں کی وجہ سے ایک پوری قوم پر الزام کسی صورت ظلم سے کم نہیں۔بحثیت پنجابی مجھ سے بہتر کون اس نسلی امتیاز کے درد کو محسوس کر سکتا ہے۔ بطور عام پنجابی میں نے یہ درد کابل کی سڑکوں پر محسوس کیا ہے۔ ڈھاکہ کے بازاروں میں ذلت سہی ہے۔سندھ میں گالیاں کھائی ہیں۔بلوچستان سے لاشیں اٹھائی ہیں،اور کراچی میں پختون دوستوں کا سہارا لے کر جان کی امان پائی ہے۔ پنجابی اشرافیہ کی وجہ سے عام پنجابی نے بہت سزا پائی ہے۔ اب عام پٹھان قومی بیانیے کی بھینٹ چڑھ رہاہے۔ موجودہ صورت حال میں میری تمام تر ہمدردی عام پختونوں کے ساتھ ہے۔
اس سب کی ذمہ دار کوئی ایک قوم نہیں بلکہ اس کاذمہ دار ہمارا قومی بیانیہ ہے۔اب بھی اس قومی بیانیہ میں کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آ رہی۔ دہشت گردی کے ماخذ، ان کی نظریاتی پرورش اور ان کے نظریے کے خاموش سہولت کار آج بھی اسی آزادی سے کام کر رہے ہیں جو انہیں ہمیشہ حاصل رہی ہے۔آج بھی تعلیمی ادارے بند ہوتے ہیں اور دینی مدرسے کھلے رہتے ہیں۔آج بھی بلاگرز غائب ہو جاتے ہیں اور نفرت سے بھر پور گلے سڑے دماغ آزاد پھرتے ہیں۔آج بھی عافیہ قوم کی بیٹی اور ایمان علی ایک “آوارہ” ہے۔آج بھی موم بتی گروپ قومی وقار کیلئے خطرہ اور مذہبی گروہ قومی وقار کی علامت ہے۔ سانحہ سہون پر خاموشی سے شرک کا الزام لگا کر پردہ پوشی کی جا رہی ہے۔ کسی وہابی، دیوبندی مسلک کے عالم نے آج دن تک مذہبی اور فرقہ پرست دہشت گردی کی مخالفت نہیں کی۔ادھر ممتاز قادری کی پہلی برسی کی تیاری بھی پورے جوش اور جذبے سے جاری ہے۔ جب تک یہ قومی بیانیہ نہیں بدلا جاتا ،دہشت گردی اور الزامات دونوں سے چھٹکارا ملتا دکھائی نہیں دیتا ۔نہیں تو الزامات بدلتے رہیں گے۔ پرسوں مہاجر تھا، کل پنجابی تو آج پٹھان دہشت گردہے ، اور کل پھر سے بلوچ اور سندھی دہشت گرد بن جائیں گے۔

Facebook Comments

عبیداللہ چوہدری
ابلاغیات میں ماسٹر کرنے کے بعد کئی اردو اخباروں میں بطور سب اڈیٹر اور روپوٹر کے طور پر کام کیا۔ گزشتہ18سال سے سوشل سیکٹر سے وابستگی ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply