• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان میں کمیونسٹ نظریہ اور ترمیم پسندی۔۔شاداب مرتضی

پاکستان میں کمیونسٹ نظریہ اور ترمیم پسندی۔۔شاداب مرتضی

بلوچستان سے کامریڈ عابد میر نے اپنے ایک ممدوح کے اس مؤقف پر اظہارِ خیال کیا ہے کہ کمیونسٹ قوم پرستوں کی سیاست کر کے سرداروں اور جاگیرداروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ کامریڈ عابد نے اس بات کے جواب میں بالکل درست نشاندہی کی ہے کہ کمیونسٹ نظریے کے مطابق اس میں مزدورں کی طبقاتی جدوجہد کو اولیت حاصل ہے اور قومی جدوجہد ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے کمیونسٹ قوم پرست نہیں ہوتے بلکہ بین الاقوامیت پسند ہوتے ہیں اور ان کی سیاست کا محور تمام قوموں کے مزدوروں کی طبقاتی جدوجہد ہوتی ہے۔

اس معاملے پر میں ایک اہم پہلو کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں۔ عالمی کمیونسٹ تحریک کی طرح پاکستان میں بھی کمیونسٹ تحریک کو کمیونزم میں ترمیم پسندی اور موقع پرستی کے رجحانوں کا سامنا ہے۔ ایسے وقت میں ان رجحانوں کو پھلنے پھولنے کا بھرپور موقع ملا ہے کہ جب پاکستان میں مزدور تحریک بحیثیتِ مجموعی بہت کمزور ہوئی ہے اور طبقاتی شعور رکھنے والی مزدور تحریک سکڑ کر خلیاتی سطح پر آگئی ہے۔

پاکستان میں جگہ جگہ ایسے سیاسی رہنما، کارکن اور گروہ پائے جاتے ہیں جو اپنی سیاسی شناخت کمیونسٹ، سوشلسٹ، مارکسسٹ، لینن اسٹ وغیرہ کی حیثیت سے کراتے ہیں لیکن ان کے سیاسی تصورات اور مؤقف کمیونزم کے نظریے سے متصادم ہوتے ہیں۔ اختصار کی خاطر میں ان سب کے لیے “کمیونسٹ” لفظ استعمال کروں گا اور  ذیل میں اس بات کی کچھ مثالیں پیش کروں گا۔ ایسے کمیونسٹوں کی رائے ہے کہ:

1) پاکستان میں قومی تضاد سب سے زیادہ ابھرا ہوا تضاد ہے اس لیے کمیونسٹوں کو قومی تحریک کو اولیت دینی چاہیے اور مزدور تحریک کو ثانوی درجے پر رکھنا چاہیے۔

2) پاکستان میں مزدور تحریک کمزور ہے اس لیے کمیونسٹوں کو چاہیے کہ وہ فی الحال خود رو عوامی تحریکوں کا حصہ بنیں اور مزدور طبقے کی سیاست کو اس وقت تک کے لیے موقوف کر دیں جب تک کہ مزدور تحریک میں ابھار پیدا نہ ہو۔

3) پاکستان پسماندہ ملک ہے۔ اس میں ترقی یافتہ صنعت نہیں ہے۔ اس لیے پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب کا فی الحال کوئی امکان نہیں ہے۔ لہذا، کمیونسٹوں کو چاہیے کہ وہ مزدوروں کی طبقاتی جدوجہد کو منظم کرنے کے بجائے عوام کے جمہوری حقوق کی سیاست پر توجہ مرکوز کریں۔

4) نجی ملکیت اور مسابقت (کمپٹیشن) کے بغیر معیشت کی ترقی ناممکن ہے۔ اس لیے کمیونسٹوں کو چاہیے کہ وہ پاکستان میں سماجی ترقی کے لیے سرمایہ داروں اور مزدوروں کے معاشی اور سیاسی اشتراکِ پر مشتمل سوشلسٹ انقلاب کے لیے جدوجہد کریں۔

(5) پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے ریاستی سرمایہ داری پر انحصار کرنا ضروری ہے۔ اس لیے کمیونسٹوں کو چاہیے کہ وہ سوشلزم کی جدوجہد میں رہاستی سرمایہ داری کی ناگزیر اہمیت کو تسلیم کریں۔

(6) عورت دوہرے جبر کا شکار ہے اور آبادی کا نصف حصہ ہے۔ اس لیے کمیونسٹوں کو چاہیے کہ وہ اپنی جدوجہد میں صنفی برابری کی جدوجہد کو مزدوروں کی طبقاتی جدوجہد کے برابر اہمیت دیں۔

(7) جمہوری مرکزیت جمہوریت کے آدرشوں کے خلاف ہے۔ اس لیے کمیونسٹوں کو صرف جمہوری سیاسی تنظیموں کا حصہ بننا چاہیے اور سیاسی تنظیموں میں مرکزیت کی مخالفت کرنا چاہیے۔

(8) مزدور طبقے کی آمریت پر استوار سوشلزم شخصی آزادیوں کی خلاف ورزی کا سبب بنتا ہے۔ بیسویں صدی کے سوشلسٹ انقلابات، خصوصاً  سوویت انقلاب، اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ لہذا، پاکستان میں کمیونسٹوں کی جدوجہد کا محور جمہوری سوشلزم (سوشل ڈیموکریسی) کا قیام ہونا چاہیے جس کی مثالیں ہمیں لاطینی امریکہ میں، بولیویا، وینزویلا، پیرو وغیرہ میں، ملتی ہیں۔

(9) سرمایہ دارانہ سماج میں جمہوری اور اصلاحی جدوجہد کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ پاکستان کو براہِ راست سوشلسٹ انقلاب کی ضرورت ہے۔ اس لیے پاکستان میں سوشلسٹوں کو چاہیے کہ وہ جمہوری تحریک کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اور صرف انقلابی جدوجہد پر توجہ دیں۔

(10) ٹھیکیداری نظام میں پھنس کر اور سماج میں پھیلی ہوئی خودغرضی اور انفرادیت پسندی کے زیرِ اثر ہونے کی وجہ سے مزدور معاشی و سیاسی جدوجہد پر آمادہ نہیں ہیں۔ اس لیے کمیونسٹوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ مختلف سماجی پرتوں کے مسائل اور حقوق کی جدوجہد کا حصہ بنیں۔

(11) سوشلزم بین الاقوامی مظہر ہے۔ عالمی سوشلسٹ انقلاب کے بغیر پاکستان میں سوشلزم ناکام ہوجائے گا۔ جب تک دنیا کے متعدد ملکوں میں سوشلسٹ انقلاب کامیاب نہیں ہوجاتا تب تک پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب اور سوشلزم کی تعمیر خارج از امکان ہے۔

وغیرہ وغیرہ۔۔

یہ مثالیں واضح کرتی ہیں کہ پاکستان میں سوشلزم کے بارے میں یہ تصورات، خیالات، یا منصوبے رکھنے والے عناصر کمیونزم کے اصول، قوانین، حکمتِ عملی، طریقِ کار وغیرہ کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے یا اس سے دست بردار ہوچکے ہیں۔

ایسے کمیونسٹ طبقاتی جدوجہد کے کمیونسٹ نظریے اور اس کی خصوصیات سے انکار کرتے ہیں، سرمایہ دار طبقے کی آمریت کے خاتمے کے لیے مزدور طبقے کی آمریت کی ناگزیر اہمیت کو تسلیم نہیں کرتے، سوشلزم کے لیے سرمایہ داروں سے اشتراک کو لازمی سمجھتے ہیں، سرمایہ داری کے بغیر معاشی و سماجی ترقی کا تصور نہیں کرسکتے، سیاسی تنظیم کے لیے جمہوری مرکزیت کے کلیدی ضابطے کو مسترد کرتے ہیں، مزدور آمریت پر مبنی سوشلسٹ انقلابات کو آمرانہ، غیر جمہوری سمجھتے ہیں، پسماندہ ملک میں جمہوری جدوجہد کی اہمیت سے انکار کرتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ مگر اس کے باوجود یہ اپنی سیاسی شناخت مارکسسٹ، لینن اسٹ، سوشلسٹ یا کمیونسٹ کی حیثیت سے کرواتے ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی فرد یا گروہ کمیونزم کے نظریے، اصول اور قوانین سے اتفاق نہیں کرتا تو پھر اسے اس بات کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے کہ وہ خود کو کمیونسٹ، سوشلسٹ، مارکسسٹ یا لینن اسٹ ظاہر کرے؟ اس کے برعکس ہونا تو یہ چاہیے کہ یہ افراد یا گروہ علی اعلان، واضح، دوٹوک انداز سے لوگوں کو اپنے بارے میں یہ حقیقت بتائیں کہ ہم سوشلسٹ نہیں ہیں ہلکہ سوشل ڈیموکریٹ ہیں۔ ہم سرمایہ داری نظام کو ختم نہیں کرنا چاہتے بس اس میں بہتری لانا چاہتے ہیں، اسے زیادہ جمہوری بنانا چاہتے ہیں۔ ہماری سیاست کا مقصد سرمایہ دارانہ جبر و استحصال کو مکمل طور پر ختم کرنا نہیں ہے۔ ہم اس استحصال میں بس تھوڑی کمی لانا چاہتے ہیں جبکہ اس کء برعکس سوشلسٹ نظریے اور تحریک کا بنیادی، حتمی مقصد سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنا ہے۔

لیکن یہ لوگ ایسا نہیں کرتے۔ ایک طرف یہ خود کو سوشلسٹ کہتے جاتے ہیں اور دوسری طرف سوشلزم کے نام پر لوگوں کے سامنے ایسے سیاسی، معاشی اور سماجی خیالات پیش کرتے جاتے ہیں جو سوشلزم سے متصادم ہیں۔ چنانچہ، وہ لوگ، خصوصا ً نوجوان، جو سیاسی جدوجہد کے میدان میں  آتے ہیں، مگر سوشلزم سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے وہ ان کے سوشلزم سے متضاد خیالات کو ہی سوشلزم سمجھنے لگتے ہیں اور اس طرح سوشلزم کے نام پر وہ خیالات اپنا لیتے ہیں جو سوشلزم کے خلاف ہیں۔ سوشلزم کے نام پر انہیں سوشلزم کے خلاف سوشلزم ملتا ہے۔

کیا کمیونزم کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ کوئی سوچھی سمجھی سازش ہے؟ کمیونسٹ تحریک میں ترمیم پسندی اور موقع پرستی صرف سامراج کی سازش کا حصہ نہیں ہے۔ ہر سیاسی، سماجی، معاشی اور فلسفیانہ رجحان کی طرح ان کی بھی ایک مخصوص سماجی بنیاد ہے۔ یہ پہٹی بورژوا، چھوٹی ملکیت والے، درمیانے طبقے کے سیاسی رجحان ہیں۔ پوری کمیونسٹ تحریک کا تمام تر تجربہ یہ دکھاتا ہے کہ ہر جگہ، ہر شکل میں یہ رجحان درمیانے طبقے کے رجحان رہے ہیں۔

اپنی بچولی طبقاتی حیثیت کی وجہ سے درمیانہ طبقہ کیپٹلزم اور کمیونزم میں، سرمایہ دار طبقے اور مزدور طبقے میں اشتراک، اتحاد، مصالحت اور ہم آہنگی قائم رکھنے کے تصور سے آگے، کسی نہ کسی طرح سرمایہ دارابہ سماج کو قائم رکھنے کے تصور سے آگے نہیں جا سکتا۔ اس کی بقاء سرمایہ دارانہ طبقاتی سماج کے وجود پر منحصر ہے اور اس لیے اس کا مفاد اس سے زیادہ کچھ اور نہیں ہو سکتا کہ کسی نہ کسی طرح سرمایہ دارانہ نظام اور اس پر مبنی سماج کو بچایا جائے۔

لیکن مزدور طبقے کا مفاد اس کے برعکس ہے۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام و سماج کو ختم کرنا چاہتا ہے کیونکہ صرف اسی صورت میں وہ خود کو اجرتی غلامی کی ذلت بھری زندگی سے آزاد کرا سکتا ہے۔ سرمایہ دار طبقہ اور درمیانہ طبقہ دونوں موجودہ طبقاتی سماج کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ صرف مزدور طبقہ اسے ختم کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ، اس صورتحال میں درمیانے طبقے کی سیاست اس کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتی کہ اپنے اور سرمایہ دار طبقے کے مفاد میں مزدور طبقے کو سرمایہ دارانہ نظام کا تختہ الٹنے سے روکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مزدورر طبقے کی آزادی کے نظریے کو، کمیونسٹ نظریے کو، ہر طرح سے مسخ کرے، اسے کند کرے اور اسے اس قابل نہ رہنے دے کہ یہ سرمایہ داروں کے خلاف مزدوروں کی طبقاتی جنگ کا ہتھیار بن جائے۔

طبقاتی جدوجہد، قومی سوال، مزدور آمریت، سرمایہ داری سے کمیونزم میں منتقلی، سوشلسٹ معیشت، ترمیم پسندی، موقع پرستی، درمیانہ طبقہ، مارکیٹ سوشلزم، مخلوط معیشت، جمہوریت اور سوشلزم، ریاستی سرمایہ داری، جمہوری مرکزیت، سوشل ڈیموکریسی، سوویت انقلاب وغیرہ کے بارے میں پاکستان میں لیفٹ کے ان مختلف سیاسی گروہوں کا لٹریچر دیکھیے یا ان کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خیالات سنیئے تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ سوشلزم کے بارے میں ان کے تصورات سوشل ڈیموکریسی کے مجہول خیالات کا کوئی ایک یا دوسرا ملغوبہ ہیں۔

کمیونسٹ نظریہ فلسفے، سیاست اور معیشت کے نظریات کا ایک مربوط اور ہم آہنگ فکری نظام ہے۔ اس میں کسی نے صرف تضاد میں کشمکش کا پہلو پکڑ لیا اور کسی نے صرف اتحاد کا، کسی نے ثانوی خاصیت کو بنیادی اور بنیادی کو ثانوی بنا دیا ہے، کسی نے طبقاتی جدوجہد کو کثیر الطبقاتی جدوجہد سے بدل دیا ہے، کسی نے سوشلزم کے ساتھ منڈی کو نتھی کر دیا ہے، کسی نے مزدور آمریت کو مختلف طبقوں کی مخلوط جمہوریت بنا دیا ہے، کسی نے مقداری تبدیلیوں کو خارج کر کے صرف معیاری تبدیلی کو اس میں جگہ دی ہے، کسی نے جمہوری مرکزیت سے جمہوریت اور مرکزیت کو کاٹ کر الگ کردیا ہے، کسی نے صرف مشترکات پر نظر رکھی اور متفرقات کو نظر انداز کر دیا ہے، کسی نے عبوری خصوصیات کو مستقل خاصیت بنا دیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کمیونزم کے مربوط فکری نظام کے حصے بخرے کر کے ان کے ساتھ سرمایہ دارانہ خیالات کی پیوند کاری کردی گئی ہے اور پیوند کاری کے ان نمونوں کو ہر گروہ نے ایک مختلف، پیٹنٹ نام سے متعارف کرا دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کمیونزم میں ترمیم پسندی اور موقع پرستی کے رجحانات پاکستان کی سیاست میں ناقابلِ تردید حقیقت ہیں۔ یہی وہ منبع ہے جہاں سے پاکستان میں کمیونسٹ نظریے اور کمیونسٹوں کے طرزِ عمل کے بارے میں ایک طویل عرصے سے تواتر کے ساتھ غلط فہمیاں، الجھنیں اور شکایات جنم لیتی آرہی ہیں۔ ترمیم پسندی اور موقع پرستی میں مبتلا ان “کمیونسٹوں” کے تمام متفرق خیالات کی ایک بنیادی خاصیت ہے۔ یہ یا تو طبقاتی جدوجہد کی کمیونسٹ نظریے کو مسترد کرتے ہیں یا پھر مختلف تاویلیوں اور دلیلوں سے اسے ثانوی حیثیت دیتے ہیں ہا پھر طبقاتی جدوجہد سے جڑے مسائل پر ایسا نکتہ نظر اپناتے ہیں جو آخری تجزیے میں طبقاتی جدوجہد کے کمیونسٹ نظریے سے متصادم ہوتا ہے۔

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply