سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

منفرد لہجے اور بہت گہری بات کو سادہ اشعار میں بیان کرنے والے معروف بھارتی شاعر راحت اندولوی نے 2016ء میں کہا تھا:-

سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا,
کچھ پتہ تو کرو, چناؤ ہے کیا-
خوف بکھرا ہے دونوں سمتوں میں,
تیسری سمت کا دباؤ ہے کیا-

ایک عجیب سی افراتفری مچی ہوئی ہے- سارے انڈیا میں گھمسان کا  رن پڑا ہے- ہر انڈین میڈیا چینل چیخ رہا ہے کہ پلوامہ حملہ میں پاکستان ملوث ہے اس لئے اس دراندازی کی سزا دینے کے لئے پاکستان سے جنگ کی جائے- جو بھی معقول شخص جنگ کی بجائے مذاکرات کی بات کرے اسے مطعون ٹھہرایا جا رہا ہے- دوسری طرف پاکستان میں ایسے لگ رہا ہے کہ “وچوں گل کجھ وی نئیں”- ایک بھی بندہ ایسا نہیں جس نے جنگ سے ڈرایا ہو یا وہ خود جنگ سے خوفزدہ ہو- ڈائریکٹر جنرل تعلقات عامہ جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس میں بھی انڈیا کو جو بین السطور پیغام دیا گیا وہ یہی تھا, ” ٹھنڈ رکھ- نئیں تے فیر کر لے شوق پورا”-

بالفرض جنگ کا طبل بجتا ہے تو پاکستان اور انڈیا دونوں اطراف میں ایسے لوگ حکومت کر رہے ہیں جنہیں انتہا پسند قرار دیا جا سکتا ہے- نریندر سنگھ مودی اگر راشٹریہ سیوک سنگھ کے خاص الخاص کارکن رہے اور اسی حیثیت میں بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہوکر گجرات کی وزارت اعلی سے انڈیا کی وزارت عظمی تک پہنچے تو اب انہیں مزید اس ذمہ داری پر ٹکے رہنے کے لئے عوام کو کچھ بڑا کرکے دکھانا ہے- جس معیشت کی مضبوطی اور انقلاب کی باتیں مودی کرتے رہے, وہ اسی رفتار سے چلتی رہی جس کا آغاز من موہن سنگھ کے دور سے شروع ہوا تھا جو درحقیقت انڈیا کی اقتصادی ترقی کے اصل معمار تھے- سرحد کے ہماری طرف عمران خاں کی ذاتی زندگی تو روشن خیالی میں ہی گزری ہے مگر وہ دوسروں کے لئے انتہا پسندی والے نظریات کے حامی ہیں- ملکی آئین کے تحت عدالتی نظام کو تقویت دینے کی بجائے روایتی جرگہ سسٹم کی حمایت, انتہا پسند اور کالعدم قرار دئیے جانے والے طالبان کے دفاتر کھولنے اور ان سے مذاکرات کرنے کے حامی عمران خاں نے مروجہ سیاسی جماعتوں کے مقابلہ میں ووٹروں اور حامیوں کے جس گروپ کو اپنی جماعت کے لئے اکٹھا کیا ہے ان کی اکثریت انتہا پسندانہ خیالات رکھتی ہے-

یہ حالات کی ستم ظریفی ہے کہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے ایک جرمن فوجی یعنی ہٹلر سیاسی عمل کے ذریعے اقتدار میں آگیا۔ جس کے بعد اس نے پوری دنیا کو اس جنگ میں جھونک دیا جس میں کروڑوں لوگ مارے گئے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ کسی فوجی کے اقتدار میں آنے سے کہیں زیادہ خطرناک کسی انتہا پسند کا اقتدار میں آنا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہندوستان میں پچھلے کافی عرصے سے انتہا پسند پارٹی بی جے پی اقتدار میں ہے۔ 2019ء کی دوسری سہ ماہی میں ہندوستان میں عام انتخابات ہونے ہیں۔ ان انتخابات سے قبل نومبر 2018ء میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں انتہا پسند حکمران جماعت بی جے پی کو متعدد اہم ریاستوں میں برسوں سے نیم مردہ سمجھی جانے والی کانگریس کے ہاتھوں شکست اٹھانی پڑی۔ اس کے بعد یہ متوقع تھا کہ دہشت گردی کا کوئی نہ کوئی بڑا واقعہ ہندوستان یا کشمیر میں کہیں ہوگا اور پھر انڈیا کی طرف سے جنگجویانہ فضاء بنا دی جائے گی- اس جنگی جنون کا اصل مقصد بظاہر الیکشن میں کامیابی ہے۔ اس لئے یہ بات قرین قیاس نہیں ہے کہ انڈیا, پاکستان میں باقاعدہ جنگ چھڑ جائے- یہ سارا جنون الیکشن لڑنے اور جیتنے کے لئے ہی پیدا کیا گیا ہے-

اور اگر یہ جنگ ہوتی ہے تو انڈیا اور پاکستان دونوں طرف ایسے قائدین نہیں ہیں جو جنگ لڑنے کی قیادت کر سکیں- سیانوں کا بھی یہ قول ہے کہ جنگ لڑنے کا معاملہ فوجیوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا اور نہ ہی کامیابی سے جنگ لڑنے کے لئے انتہا پسندانہ نظریات کام آتے ہیں- جارجز بنجمن کلیمینچو Georges Benjamin) Clemenceau) فرانس کے دو دفعہ وزیر اعظم رہے- پہلی جنگ عظیم میں انہوں نے فرانس کی قیادت کی- سنہ 1919ء میں اس نے وارسلز معاہدہ امن کروانے میں بھی اہم کردار ادا کیا- جنگ سے متعلق ان سے منسوب اءک مشہور قول ملتا ہے کہ:-

War is too serious a matter to entrust to military men
(جنگ جیسا سنجیدہ معاملہ فوجیوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا)-

انڈیا اور پاکستان میں ہونے والی آئندہ کوئی بھی جنگ روایتی نہیں رہ سکے گی- دونوں ممالک کی لیڈرشپ جذباتی اور جنونی قائدین کے پاس ہے- دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہیں- دنیا بھر کے ممالک اس حقیقت سے پوری طرح آشنا ہیں اس لئے دونوں ممالک بالخصوص انڈیا کے جنگی جنون کی حمایت کوئی ملک نہیں کر رہا- اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے تو انڈیا کا پلوامہ واقعہ پر مؤقف بھی مسترد کر دیا ہے کہ پاکستانی حکومت اس واقعہ میں ملوث ہے-

نریندر مودی حکومت کے لئے بہت بڑی مشکل کھڑی ہو چکی ہے کہ اپنے لوگوں میں جنگی جنون پیدا کرنے کے بعد اسے ٹھنڈا کیسے کرے- اس جنون میں محدود فوجی کارروائی کے آپشن پر بھی اس لئے عمل درآمد نہیں کیا جا سکتا کہ اس کی صورت میں پاکستان کی طرف سے شدید ردعمل کا خدشہ موجود ہے- انڈین انٹیلی جینس نے اپنی حکومت کو صاف طور پر سمجھا دیا ہوگا کہ 7 لاکھ انڈین فوج کی کشمیر میں تعنیاتی, ناگالینڈ میں مارکسٹ انتہا پسندوں سے نبردآزما ہوتی انڈین فوج کے لئے پاکستان سے باقاعدہ جنگ لڑنا ممکن نہیں ہوگا- چھوٹی موٹی جنگی کاروائی بھی بڑی جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو غربت میں پسے ہوئے برصغیر کو شمشان گھاٹ میں بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔

جنگ مکمل بربادی کا نام ہے۔ یہ جان، مال اور آبرو کے لٹنے کا نام ہے۔ یہ شہروں کے کھنڈر بن جانے، گھروں کے ملبہ بن جانے، لاشوں کے قیمہ بن جانے کا نام ہے۔ یہ بیٹیوں کے سرعام بے آبرو کیے جانے، بیٹوں کی لاشیں اٹھانے اور ماؤں کی آسمان تک بلند ہوتی چیخوں کا نام ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مودی جیسے انتہا پسند سیاستدانوں اور فوجی جرنیلوں کے لیے جنگ سیاست کا کھیل ہوتی ہے۔ وہ خود آرام سے رہتے ہیں اور (Collateral Damage) کے نام پر دوسروں کی زندگی برباد کر دیتے ہیں۔ ایسے میں دونوں اطراف سے سمجھدار اور دانشور لوگوں پر فرض ہے کہ ایسی تباہی سے پہلے آگے آئیں اور امن کی آواز بلند کریں چاہے اس کی کوئی بھی قیمت دینی پڑے۔ کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ امن کی آخری قیمت جنگ کی ابتدائی قیمت سے بہت کم ہوتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply