بچے: ہماری دولت۔۔روبینہ قریشی

مدارس اور درس گاہوں کے  حالیہ  واقعات کے بعد اور بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں ہونے والے حادثات کے بعد نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور انہیں ہراسگی سے محفوظ رکھنے کیلئے مختلف فورمز پہ لوگ مختلف طریقوں سے اپنے خیالات کا اظہار کررہے ہیں۔
کچھ لوگ مدارس پہ اعتراض کررہے ہیں۔۔ اور کچھ لوگ اسکا الزام انٹر نیٹ  پہ لگا رہے ہیں۔
جہاں تک بات ہے مدارس کی  تو ظاہر ہے کہ وہ مقام جہاں پہ لوگ اپنے بچوں کو دین سیکھنے بھیجتے ہیں،  اس احترام کی وجہ سے ہم انہیں، اپنے  ذہن میں ایک بلند مقام پہ بٹھا دیتے ہیں۔۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان دینی مقامات  پہ خلاف ِ شرع کوئی کام ہوتا ہے تو اسے زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس کیلئے ایک تجویز میرے  ذہن میں یہ ہے کہ ہر طالب علم کو مدرسے کی زندگی کے شروع میں لازمی تربیتی کورس کروائے جائیں، جن میں   self care کے کورس  شامل ہوں ۔
دوسرا یہ کہ موبائل چھاپہ مار ٹیمیں تشکیل دی جائیں جو کہ وقتاً فوقتاً مدارس کے حالات چیک کرتی رہیں۔

ایک بڑی وجہ انٹر نیٹ کا غلط استعمال ہے۔آپ یقین کریں انٹر  نیٹ سے زیادہ بے ضرر اور فائدہ مند چیز اور کوئی نہیں اگر آپ اس کو مثبت طریقے سے استعمال کریں۔

کیا آپ میری بات پہ یقین کریں گے ،کہ جب بھی میں صبح سویرے بہت جلدی نیٹ کو آن کرتی ہوں تو وہ مجھے سورہ یسین یا منزل بھیجا کرتا ہے۔۔ دوپہر کو مجھے زیادہ تر سلائی، کڑھائی یا کھانا بنانے کی تراکیب بھیجتا ہے۔شام کے بعد اکثر ڈرامہ وغیرہ ۔یعنی جو چیز ہم دو، یا تین مرتبہ search کرتے ہیں وہ اسے اپنی یادداشت میں محفوظ کر لیتا ہے اور پھر ہمیں وہی بھیجتا ہے۔

زیادہ تفصیلات میں نہیں جاؤں گی۔۔ مختصر ترین لفظوں میں یہ کہوں گی کہ آج کے دور کے والدین اور خصوصاً مائیں اپنے معمولات پہ توجہ دیں۔  اپنے بچوں کو اپنی پہلی ترجیح رکھیں۔۔ بچوں کی گھٹی میں بری چیز کو دیکھنے، سننے، بولنے سے نفرت ڈالیں ۔

چاہے آپ نیٹ پہ کچھ اچھا بھی کررہے ہیں اپنے اوقات کار  مقرر کریں ۔ بچوں کیلئے بھی وقت مقرر ہو نیٹ کے استعمال کیلئے۔جب وہ اپنی پڑھائی کررہے ہیں تو ان پہ چیک رکھیں۔۔ یہ صرف کچھ سالوں کی بات ہے۔ایک مرتبہ آپکا بچہ سیدھی لائن پہ آگیا تو اس کے بعد بچے کیلئے بھی اور آپ کیلئے بھی، باقی ساری زندگی کی آسانیاں ہیں۔

اگر کچھ غلط ہو جائے تو ایک دوسرے پہ الزام تراشی کی بجائے  اس کی وجہ تلاش کریں اور اس کا سدِ  باب کریں،اور آخری بات۔۔۔ جو بہترین چیز آپ اپنے بچے کو دے سکتے ہیں
وہ اچھا سکول  نہیں
وہ اچھا بیگ، بستہ، کتابیں   نہیں
اچھا پُر آسائش گھر نہیں
اچھے کھلونے  نہیں
اچھی سواری، موٹر سائیکل، گاڑی نہیں۔۔۔
بلکہ

Advertisements
julia rana solicitors

اچھی  خوراک(رزقِ حلال )اور اپنا وقت ،ہے۔۔یہ دو چیزیں ایسی ہیں  جن کی مدد سے آپ اپنے بچوں کو اس فتنوں کے دور میں ہر  برائی  سے بچا سکتے ہیں۔ جب  آپ یہ کر لیں پھر سکول، کتابیں کھلونے یا باقی لوازمات کی طرف توجہ کریں۔
بچوں کو اتنا وقت دیں،ان سے اتنی دوستی کریں کہ وہ اپنا ہر مسئلہ آپ کو بتا سکیں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply