اعلیٰ عدلیہ میں غیر جمہوری سوچ کی جڑیں/ارشد بٹ

یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ آمروں کے سامنے سرنگوں اور فوجی مارشلاوں کو جائز قرار دینے والی عدلیہ نے آئین بنانے اور بحال کرنے والی پارلیمنٹ کو کمزور کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ جسٹس منیر سے جسٹس بندیال تک کس کا ذکر کریں کس کا نہ کریں۔ کیا ایسی اعلیٰ عدلیہ اور چیف جسٹس نظر آتا ہے جس نے مروجہ آئین کا تحفظ کیا ہو۔ ملک کی پہلی دستور ساز اسمبلی کو صفحہ ہستی سے مٹانے ، ۱۹۵۶ کے آئین کے قتل ، ۱۹۷۳ کے آئین کے معطل یا حلیہ بگاڑنے ، چار بار فوجی آمروں کو آئین و قانون کا لبادہ لپٹانے اور عدلیہ کو آمروں کے جیب کی گھڑی بنانے جیسے سنہری کارنامے سر انجام دینے کا تاج اعلیٰ عدلیہ کے سر پر رکھنے کے علاوہ کس کو پہنایا جا سکتا ہے۔ آج تک کسی فوجی ڈکٹیٹر کو آئین و قانون پامال کرنے کی پاداش میں مجرم نہیں ٹہرایا گیا۔ جبکہ عدلیہ نے منتخب حکومتیں ختم کرنے، عوام کے منتخب وزیر اعظم کا جوڈیشل قتل کرنے، وزراء اعظم کو جیلوں میں ڈالنے، سزا دینے اور جلاوطن کرنے میں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کیا۔ فوجی آمروں کے سامنے تھر تھر کانپنے والے قلم کا زور صرف اور صرف عوام کے منتخب نمایندوں پر تلوار بن کر چلتا رہا۔ جسٹس افتخار چوہدری کے کارنامہ بھی کسی سے کم نہیں۔ جمہور کے کندھوں پر سوار ہو کر چیف جسٹس کی کرسی حاصل کرنے والے چوہدری افتخار نے منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو ایک غیر قانونی فیصلے کی بھینٹ چڑھا کر وزارت عظمیٰ سے محروم کر دیا تھا۔

عدلیہ کے اندر غیر جمہوری سوچ کے غلبے کی وجوہات کی نشاندہی کرنا مشکل کام نہیں۔ قیام پاکستان کے بعد جمہوری سیاست کے فقدان کی وجہ سے غیر جمہوری قوتوں کو پنپنے کے لئے زرخیز زمین میسر آئی۔ انگریز کی تربیت یافتہ سول بیوروکریسی بشمول عدلیہ اور عسکری قیادت نے کمزور جمہوری پس منظر رکھنے والی سول قیادت کو پسپا کر کے ریاستی اقتدار پر گرفت مضبوط کرنا شروع کر دی تھی۔ ۱۹۵۴ تک ریاست پر غیر جمہوری قوتوں نے اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑھ دئے تھے۔ ما سوائے چند سالوں کے وقفوں کے ریاستی اداروں اور عدلیہ میں غیر جمہوری سوچ کے نمائندہ افراد کی تقرریاں ہوتی رہیں۔ جس سے غیر جمہوری سوچ اور عناصر کی جڑیں مضبوط ہوتی رہیں۔ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرریاں غیر جمہوری قوتوں کے مرہون منت رہی ہیں۔ بیوروکریسی کے سرغنہ غلام محمد، سکندر مرزا، چوہدری محمد علی، اورفوجی آمروں جنرل ایوب، جنرل یحیٰ، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے طویل دور اقتدار کے دوران اعلیٰ عدلیہ میں غیر جمہوری سوچ رکھنے والے افراد کی نامزدگیاں کی جاتی رہیں۔ تاکہ یہ عناصر ریاستی اقتدار پر غیر قانونی غاصبانہ قبضےکو نام نہاد قانونی تحفظ فراہم کرتے رہیں۔ اس لئے یہ اچھنبے کی بات نہیں کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان ڈکٹیٹروں کے ریاست پر غیر آئینی قبضے کو آئینی قرار دیتے رہے۔

انصاف و قانون طاقتور وں کے گھر کی لونڈی بنا رہا ۔ جبکہ عدالتی فیصلوں کے ذریعے منتخب حکومتوں کے آئینی اختیارات استعمال کرنے اور جمہوری اقدار کے فروغ کے راستے میں کانٹے بچھانے سے دریغ نہیں کیا جاتا رہا۔ عدالتی فیصلوں کا شاخسانہ تھا کہ بے نظیر شہید کی دونوں وفاقی حکومتیں، پیپلز پارٹی کی تیسری وفاقی حکومت اور میاں نواز شریف کی تینوں حکومتیں سیاسی استحکام حاصل نہ کر پائیں۔ کیا اعلیٰ عدلیہ کے تعاون کے بغیر اسٹبلشمنٹ جمہوری حکومتوں کو عدم استحکام کا شکار کرنے میں کامیابی حاصل کر سکتی تھی۔ اس سوا ل کا جواب ہر پاکستانی بخوبی جانتا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اعلیٰ عدلیہ میں تازہ ہوا کا جھونکا بن کر آئے ہیں۔ انہوں نے بطور چیف جسٹس پہلے دن اعتراف کیا کہ سپریم کورٹ سے بھی غلطیاں سر زد ہوئی ہیں۔ بقول انکے بھٹو کیس میں سپریم کورٹ نے غلط کیا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ مارشلاوں کے حق میں سپریم کورٹ کے فیصلے درست نہ تھے۔ چیف جسٹس قاضی عیسیٰ جہاں آئین و قانون کی عملداری کا تہیہ کئے ہوئے لگتے ہیں وہیں وہ پارلیمنٹ کی بالادستی کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ پارلیمنٹ کے حق قانون سازی کو تسلیم کرتے ہیں۔ مگر انکے بعض ہمنوا جج صاحبان کی غیر جمہوری سوچ بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ وہ ابھی تک آئین و قانون کی خالق پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ انکی غیر جمہوری سوچ یہ تسلیم کرنے سے عاری ہے کہ عوام کی منتخب پارلیمنٹ بالاتر ہے۔ آئین بنانے اور آئین میں ترمیم کرنے والی پارلیمنٹ آئین کے دائرے میں قانون سازی کرنے میں با اختیار ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

عوام کی منتخب پارلیمنٹ کو بالادست تسلیم نہ کرنے والے جج صاحبان بخوبی جانتے ہیں کہ پارلیمانی جمہوری نظام میں آئین عوام کے منتخب نمائیندوں یعنی پارلیمنٹ کی تخلیق ہوتا ہے۔ عوامی حاکمیت کی مظہر اور آئین و قانون کی خالق پارلیمنٹ اپنی تخلیق کے خدوخال کو عوامی مفاد میں ڈھالنے یا تبدیل کرنے پر قادر ہوتی ہے۔ جبکہ آئین ریاست پر عوامی بالادستی اور جمہوری طرز سیاست کے تسلسل کا ضامن ہو تا ہے۔ آئین اور آئینی دائرے میں پارلیمانی قانون سازی سب ریاستی اداروں اور عدالتی اداروں کی تخلیق کرتے ہیں۔ نچلی سطح سے اعلیٰ سطح تک عدلیہ ، وفاقی، صوبائی اور لوکل گورنمنٹس اور سب ادارے آئین و قانون کے دائرہ میں کام کرنے کے پابند قرار دئے جاتے ہیں۔ یہ نشاندہی کرنا بھی ضروری نہیں کہ سارا عدالتی نظام بشمول سپریم کورٹ پارلیمنٹ کی تخلیق آئین کے مطابق معرض وجود میں لائے گئے ہیں۔ غیر جمہوری سوچ کی قانونی موشگافیاں پارلیمنٹ کی بالادستی اور آئین و قانون کی حکمرانی کے اصول کی بنیاد کو نہیں ہلا سکتیں۔ یہ امید کی جانی چاہے کہ چیف جسٹس قاضی عیسیٰ کے فیصلے آئین وقانون کی عملداری، جمہوری اقدار کے فروغ اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھنے والی قوتوں کو مضبوط کریں گے۔ جس سے عدلیہ میں غیر جمہوری سوچ کے نمائندہ افراد کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ یہاں یہ کہنا مناسب ہو گا کہ غیر جمہوری قوتوں کی پسپائی اور جمہوری عمل کے تسلسل سے پارلیمنٹ کی بالادستی، آئین و قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کے عظیم مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply