ہمارے ذہن کی کنجوسی۔۔۔یاسر پیرزادہ

امریکہ کی ایک کمپنی ہے، الفابٹ، اپنے ہاں کم ہی لوگوں نے اس کا نام سنا ہے، یہ دنیا کی پانچویں بڑی ٹیکنالوجی کی کمپنی ہے، دنیا بھر میں پھیلے اس کے ملازمین کی تعداد تقریباً 80ہزار ہے، سالانہ منافع12.7 ارب ڈالر ہے جبکہ اثاثوں کی مالیت 197ارب ڈالر ہے، عالمی فہرست میں اس کمپنی کا نمبر52 ہے، اس سے پہلے ایمازون 18اور ایپل11ویں نمبر پر ہیں۔ مگر اِس کمپنی کی ایک خاص بات ہے جس کی وجہ سے یہ کمپنی دنیا کی سب سے قیمتی کمپنی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ الفابٹ کمپنی گوگل کی مالک ہے۔ انٹرنیٹ پر ہونے والی کھوج (search) کا تقریباً90 فیصد گوگل کے ذریعے کیا جاتا ہے، آپ نے کسی بھی قسم کی معلومات حاصل کرنا ہو، کوئی تحقیق کرنا ہو یا کسی موضوع کے بارے میں چھان بین کرنا ہو، گوگل سے پوچھ لیں، اس کے پاس معلومات کے خزانے کی کنجی ہے۔ گوگل کا دور دور تک کوئی مقابل نہیں، فیس بک کے ساتھ مل کر گوگل انٹرنیٹ کی نہ صرف70 فیصد ٹریفک پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ انٹرنیٹ کی دنیا میں اشتہارات کی ترویج پر بھی انہی دو کمپنیوں کی اجارہ داری ہے۔ امریکہ میں لابنگ کی مد میں خرچ کرنے والی کمپنیوں میں بھی گوگل کا پہلا نمبر ہے، 2017ء میں الفابٹ نے لابنگ پر 18ملین ڈالر خرچ کیے تھے جبکہ ایمازون اور فیس بک نے 13ملین ڈالر اور مائیکرو سافٹ اور ایپل نے بالترتیب 11.5ملین اور 7ملین ڈالر خرچ کیے۔ جب آپ گوگل پر کسی قسم کا کھوج لگاتے ہیں تو گوگل اپنی من پسند ویب سائٹس کو بڑھاوا دیتا ہے اور انہیں اوپر لے آتا ہے، انہی حرکتوں کی وجہ سے یورپ نے 2017میں گوگل پر 2.7ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا۔ گوگل اپنے مقابلے پر کسی دوسری کمپنی کو ابھرتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔ اگر آپ قابل ہیں اور آپ نے ڈیجیٹل دنیا میں کوئی نئی ایجاد کی ہے، کوئی انوکھی ایپ بنائی ہے یا کمپیوٹر کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے والے ہیں تو اِس پہلے کہ آپ انقلابی بنیں گوگل آپ کو خرید لے گا۔گوگل یہ کام 200مرتبہ کر چکا ہے۔ یوٹیوب، جی میل، اینڈرائیڈ، گوگل ڈرائیو اور ایسی لاتعداد ذیلی کمپنیاں جن کے بغیر ہم ایک لمحہ نہیں گزارتے، الفابٹ کا حصہ ہیں۔

یہ صرف ایک کمپنی کا ذکر ہے، گوگل کی طرح کئی دوسری کمپنیاں بھی ہیں جنہیں آج اگر زندگی سے نکال دیا جائے تو ہماری زندگی کولہو کے بیل جیسی ہو جائے گی، مثلاً بوئنگ کمپنی جہاز بناتی ہے، ایپل آئی فون بناتی ہے، مختلف جاپانی اور کورین کمپنیاں الیکٹرونکس مصنوعات بناتی ہیں، جرمن، جاپانی اور امریکی کمپنیوں کی گاڑیوں پر اجارہ داری ہے، بڑے بڑے کارخانوں میں استعمال ہونے والی مشینیں بھی دو چار طاقتور ملکوں کی کمپنیاں بناتی ہیں، غرض سر سے پیر تک ہم جو چیز استعمال کرتے ہیں وہ دنیا کی پانچ سو بڑی کمپنیوں کی مرہون منت ہے۔ لیکن پانچ سو سال پہلے تک اِن پانچ سو کمپنیوں میں سے کسی کا بھی وجود نہیں تھا، سن 1500ء میں کوئی ذہین ترین شخص بھی یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ پانچ سو سال بعد کے انسان کی مٹھی میں ایک ایسی شے ہوگی جس کے ذریعے وہ گھر بیٹھے اپنے تمام کام نمٹا لے گا۔ آخر اِن پانچ سو برس میں ایسا کیا ہوا کہ آج ہم چاند پر چہل قدمی کر چکے ہیں، مریخ کا معائنہ کرنے چلے ہیں، بلیک ہول کی ’’تصویر‘‘ ہماری جیب میں ہے اور جنیٹنگ انجینئرنگ کے ذریعے مستقبل کے بچوں کی ذہانت کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی تیاری میں ہیں! انسان بنیادی طور پر سہل پسند ہے اور انسانوں میں ہم پاکستانی کچھ زیادہ ہی آرام طلب واقع ہوئے ہیں، نہ صر ف جسمانی طور پر ہم کاہل ہیں بلکہ دماغ استعمال کرنے میں بھی جز رس ہیں، زیادہ پیچیدہ سوال ہمیں پسند نہیں اور اگر کوئی ایسا سوال ہمیں درپیش ہو جو بظاہر آسان مگر حقیقت میں گمبھیر ہو تو ہماری خواہش ہوتی ہے کہ اِس کا آسان سا جواب پلیٹ میں رکھ کر ہمیں پیش کر دیا جائے، سوچنے سمجھنے میں کنجوسی سے کام لینے کی اِس قبیح عادت کو نفسیات دانوں نے cognitive miser(ذہن کنجوس) کا نام دیا ہے۔ جس طرح ایک کنجوس شخص کو پیسے خرچ کرنے میں تکلیف ہوتی ہے بالکل اسی طرح cognitive miserکو سوچنے سمجھنے میں تکلیف ہوتی ہے، ایسا شخص دماغ استعمال کرنے میں کنجوسی سے کام لیتا ہے اور اگر اُس کے سامنے کوئی سوال رکھا جائے تو کوشش کرتا ہے کہ ذہن کو تھکائے بغیر کسی سہل طریقے سے آسان جواب مل جائے۔ ہمارے ہاں مارکیٹ میں بہت سے ایسے دانشور دستیاب ہیں جو یہ خدمات مفت انجام دے رہے ہیں، قوم کو چونکہ سوچنے سمجھنے کی عادت نہیں لہٰذا انہیں ہر قسم کا پکا پکایا جواب ان دانشوروں سے مل جاتا ہے۔ مثلاً اسی سوال کو لے لیں کہ گزشتہ پانچ سو برس میں مغرب نے ترقی کی مگر مسلمانوں نے نہیں کی تو اِس کی کیا وجہ ہے، جواب آئے گا کہ مسلمانوں نے پرنٹنگ پریس کی مخالفت کی تھی، یورپ میں پرنٹنگ پریس کی وجہ سے کتابیں عام ہو گئیں، جو کتب خانے پہلے صرف بادشاہوں اور امرا کی ملکیت ہوتے تھے، پرنٹنگ پریس کی بدولت ان کتب خانوں تک عام بندے کو بھی رسائی مل گئی، مغرب میں علم پھیل گیا، سائنس کی ترقی ہو گئی، وہ قلانچیں بھر کے آگے نکل گئے اور ہم منہ تکتے رہ گئے۔

بات اتنی سادہ نہیں اور بات صرف مسلمانوں کی بھی نہیں۔ جو ترقی یورپ میں ہوئی اس کا عشر عشیر بھی ایشیا اور افریقہ میں نہیں ہوا، ان براعظموں میں صرف مسلمان ہی نہیں بستے تھے بلکہ ہر مذہب اور قومیت کے لوگ بستے تھے۔ دنیا بھر میں پرنٹنگ کی تاریخ پر ذرا نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ آکسفورڈ میں پرنٹنگ کا آغاز 1478ء میں ہوا جبکہ فرانس میں 1563ء میں شاہی اجازت نامے کے بغیر پرنٹنگ پر پابندی تھی اور خلاف ورزی کی سزا موت، یہ کام اگر کسی مولوی نے مغل بادشاہ کے زیر سایہ کیا ہوتا تو آج ہمارے زوال کا ذمہ دار وہ مولوی کہلاتا، پندرہویں صدی میں استنبول میں پرنٹنگ ہائوسز بن چکے تھے اور پہلی کتاب 1503ء کے آس پاس شائع ہوئی تھی مگر ایک تحقیق کے مطابق یہ مسلمانوں کے نہیں تھے۔ ترکی میں مسلمانوں کا پہلا پرنٹنگ پریس 1727ء میں قائم ہوا، یعنی نیو یارک میں پرنٹنگ پریس بننے کے صرف 36برس بعد! سو مسلمان جو آج تنزلی کا شکار ہیں کیا اُس کی تمام تر ذمہ داری سلطنت عثمانیہ کے اُن بادشاہوں یا ملاؤں پر ڈال دی جائے جنہوں نے پرنٹنگ کی مخالفت کی؟ ترقی نہ کرنے کی بہت سی وجوہات میں سے شاید یہ بھی ایک وجہ ہو مگر cognitive miserکے طور پر ہم فقط یہی وجہ سُن کر قبول کر لیتے ہیں۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ آج تو دنیا برابری کی سطح پر کھڑی ہے، پرنٹنگ کی جو سہولت سڈنی میں کسی شخص کو حاصل ہے لگ بھگ وہی ادیس بابا میں بھی ہے، گوگل ہر کسی کی پہنچ میں ہے، روپے پیسے کی ایشیائی حکومتوں کے پاس کمی نہیں، تحقیق یہ بھی ثابت کر چکی ہے کہ ذہانت پر کسی ایک قوم یا نسل کی اجارہ داری نہیں، ہر انسان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت برابر ہوتی ہے تو پھر آخر وہ کیا وجوہات تھیں جن کی بنیاد پر پانچ سو سال قبل یورپ اپنی تمام تر جہالت کے باوجود ہم سے آگے نکل گیا۔ اس کا جواب پھر کبھی!

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ روزنامہ جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply