• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • یروشلم شہر سے مسلمانوں کی بے دخلی(2،آخری قسط)۔۔افتخار گیلانی

یروشلم شہر سے مسلمانوں کی بے دخلی(2،آخری قسط)۔۔افتخار گیلانی

سابق امریکی صدر ٹرمپ، یورپی یونین، ان کے عرب حلیف اور اسرائیل نے ڈیل آف سنچری کے نام سے جس فارمولہ کو فلسطینیوں پر تھوپنے کی کوشش کی، اس سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہونا ہی تھا۔ چند سا قبل ایک یہودی عالم ڈیوڈ روزن نے راقم کو بتایا تھا تمام تر جارحانہ کارروائیوں کے باوجود یہودیوں اور اسرائیلی حکام کو اس حقیقت کا ادراک ہو گیا ہے کہ وہ ناقابل تسخیر نہیں ہیں۔ ویسے تو اس کا اندازہ 1973کی جنگ مصر اور بعد میں 2006 میں جنگ لبنان کے موقع پر ہی ہوگیا تھا مگر حالیہ کچھ عرصے سے یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے۔اس لئے دنیا بھر کے یہودی چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ تاریخ کا پہیہ کوئی اور رخ اختیار کرے، اسرائیل کی سرحدوں کا تعین کرکے، زیادہ سے زیادہ علاقے ہتھیا کر ان میں یہودی بستیوں کو بسا کر پڑوسی ممالک سے اسکا وجود تسلیم کرایا جائے۔ ٹرمپ اور انکے معاونین کے فارمولہ، جس کو موجودہ صدر جو بائیڈن کی بھی حمایت حاصل ہے ،کے مطابق فلسطینی مہاجرین کی اپنے گھروں کی واپسی کا معاملہ ہمیشہ کیلئے بند ہو جائیگا۔یا تو ان کو اس نئی کرم خوردہ فلسطینی اسٹیٹ میں رہنا ہوگا یا جس ملک میں مقیم ہیں وہیں ضم ہوکر ہمیشہ کیلئے اپنی فلسطینی شناخت کو خیر باد کرنا پڑیگا۔ 1993میںاوسلو میں اسرائیلی اور فلسطینی قیادت کے درمیان طے پائے گئے سمجھوتہ میں ایک فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا تھا اور 4 ملین کی آبادی کو دو خطوں مشرق میں غزہ اور اردن کی سرحد سے متصل مغربی کنارہ میں تقسیم کیا گیا۔ نسبتاً وسیع مغربی کنارہ کا انتظام الفتح کی قیادت والے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن یعنی پی ایل او کے پاس ہے ، وہیں غزہ میں اسلامک گروپ حماس برسراقتدار ہے۔ حماس فلسطینی بستیوں میں بسائی گئی یہودی ریاست کے وجود سے انکاری ہے۔ اس فارمولہ کے مطابق القدس یا یروشلم شہرکا کنٹرول اسرائیل کے پاس ہی رہیگا۔ شہر میں مکین عرب مسلمان اسرائیل کے بجائے فلسطین کے شہری ہونگے۔ ان کی بہبود، تعلیم و صحت کیلئے نئی فلسطینی اسٹیٹ اسرائیلی بلدیہ کو رقوم فراہم کرے گی الاقصیٰ حرم پر جوں کی توں پوزیشن برقرار رہیگی، یعنی یہ بدستور اردن کے اوقاف کے زیر نگرانی رہیگا۔ ویسے سعودی عرب اس کے کنٹرول کا متمنی تھا، تاکہ ریاض میں موجود فرمانراو سبھی تین حرمین یعنی مکہ، مدینہ و مسجد اقصیٰ کے متولی یا خادم قرار پائیں۔جس طرح اسی سال مارچ میں اردن کے ولی عہد شہزادہ حسن بن عبداللہ کو سکیورٹی کے بہانے مسجد الاقصیٰ کا دورہ کرنے سے روک دیا گیا، اس سے لگتا ہے کہ اسرائیل اب اس مقدس عبادت گاہ کو کنٹرول کرکے اس کو یہودیوں کے حوالے کرنے کا خواہاں ہے اسرائیل مسجد اقصیٰ کے تہہ خانہ تک رسائی کا خواہشمند ہے۔ جس کیلئے اس نے مغربی سرے پر کھدائی بھی کی ہے، تاکہ وہاں تک پہنچنے کیلئے مسجدکی دیواروں کے نیچے سے ایک سرنگ بنا سکے۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ تہہ خانہ میں ہی معبد سلمان کے کھنڈرات موجود ہیں۔ الاقصیٰ حرم یا کمپائونڈ کے وسط میں قبتہ الصخرایا Dome of Rock ہے۔ یہ دراصل ایک بڑی چٹان ہے جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم یہیں سے معراج کے سفر پر تشریف لے گئے اور یہیں انھوں نے دیگر پیغمبروں کی امامت کرکے نماز پڑھائی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور دیگر پیغمبروں علیہم السلام نے بھی یہاں قیام کیا ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ چٹان کو کاٹ کر نیچے ایک خلا میں جانے کا راستہ بنایا گیا ہے جہاں پر زائرین دورکعت نفل نماز پڑھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج پر جاتے ہوئے یہ چٹان بھی اوپر اٹھ گئی تاآنکہ اس کو ٹھہرنے کا حکم ہوا۔ تب سے یہ چٹان اسی پوزیشن میں ہے اور اس کے نیچے ایک خلا پیدا ہو گیا۔ واللہ اعلم بالصواب ۔حضرت عمر فاروقؓ جب اس شہر میں داخل ہوئے تو اس مقام پر بس چند کھنڈر باقی تھے۔ ہیکل سلیمانی کب کا تباہ ہو چکا تھا۔ اس چٹان کے شمال میں جہاں اس وقت چاندی کے گنبد والی مسجد ہے بس ایک چبوترا بچا تھا، جو ابھی بھی مسجد کے تہہ خانے میں موجود ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہی قبلہ اوّل ہے۔ یہیں محراب مریم بھی ہے، جہاں حضرت جبریل ان کے رْوبرو حاضر ہوئے۔ اس تہہ خانے میں مسیحی دور کی یادیں بھی تازہ ہیں، جب صلیبیوں نے88 برسوں تک اس کو ایک اصطبل بنایا تھا۔ ستونوں میں گھوڑوں کو باندھنے کے لیے گاڑی گئی میخوں کے نشانات ابھی بھی واضح ہیں۔ یروشلم سے باہر غزہ یا مغربی کنارہ میں رہنے والے فلسطینیوںکیلئے اسرائیل نے مسجد الاقصیٰ تک رسائی بند کر دی ہے۔ مغربی کنارہ میں موجود حضرت عیسیٰ کی جائے پیدائش بیت اللحم کے چرچ آف نیٹیوٹی یا کنیستہ المھد اور یروشلم کے درمیان مشکل سے 10کلومیٹر کا فاصلہ ہے، مگر وہاں کے مکینوں کیلئے یہ صدیوں پر محیط ہے۔ وہ اسرائیلوں کی اجازت کے بغیر یروشلم نہیں جاسکتے ہیں۔ وہ صرف دور سے اس شہر کو دیکھ سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے زیرانتظام ایک سکول کے استاد نے مجھے بتایا کہ 14سال قبل وہ ایک بار یروشلم گئے تھے اور مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کی تھی۔ اسرائیلی حکومت نے فلسطینی علاقوں کو محصور کرکے ایک مضبوط دیوار کھڑی کی ہے۔ یروشلم سے بحرمیت جانے کیلئے یہودیوں اور فلسطینیوں کیلئے دو الگ راستہ بنائے گئے ہیں اوران کے بیچ میں اونچی دیوار ہے۔ یہ نسل پرستی کا ایک بدترین مظاہرہ ہے۔ خیر کسی بھی تحریک میں شارٹ کٹ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے استقامت ضروری ہے۔ اپنے آپ کو مضبوط بنانا اور زیادہ سے زیادہ حلیف بنانا بھی تحریک کی کامیابی کے لئے ضروری ہے۔ تاریخ کا پہیہ سست ہی سہی مگر گھومتا رہتا ہے۔ تاریخ یہ بھی سکھاتی ہے کہ کمزور اور طاقتور کے درمیان کوئی ایگریمنٹ دیرپا نہیںہو سکتاہے۔ مذاکرات کی میز پر آنے کیلئے بھی سیاسی لحاظ سے مضبوط ہونا لازمی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply