اک تم ہو کہ جم گئے ہو جمادات کی طرح۔۔خنساء سعید

اسلام کی عالمگیر اخوت یہ تھی کہ اس نے زمین کے دور دراز گوشوں کو ایک کر دیا تھا ۔اسلام کا ظہور ریگستان ِ حجاز میں ہوا مگر صحرائے افریقہ میں اس کی صدا بلند ہوئی، تاریخ کی نگاہیں جس وقت دریائے دجلہ و فرات کے کنارے پیروان ِ اسلام کے نقش ِ قدم گن رہی تھیں عین اُسی وقت گنگا اور جمنا کے کنارے سینکڑوں ہاتھ تھے جو خدائے واحد کے سامنے اُٹھے ہو ئے تھے ۔

اسلام کو ماننے والے چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں رہیں دوردراز گوشوں، آبادیوں میں مکین ہوں ،ایک گھر ہی کے عزیز مانے جاتے ہیں ،جن کو تفرقہ اندازیوں ،خودغرضیوں ،اور ذاتی مفادات نے ایک دوسرے سے الگ کر کے رکھ دیا ہے ۔

ملت ِ اسلامیہ ایک جسم ِ واحد ہے مسلمان خواہ اس دنیا میں کہیں بھی ہوں ایک دوسرے کی خوشیوں میں خوش اور دکھوں میں غمگین ہوتے ہیں مگر نہ جانے مسلم اُمہ کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر ی ہوئی اور سمندر کی جھاگ کی طرح کمزور کیوں ہو گئی ہے ؟

ہمارے تو گھر کا یہ عالم ہے کہ ہم راوی کے ساحل سے لے کرتابہ خاک کراچی بھی اسلامی اخوت ، بھائی چارے اور رواداری کے ساتھ زندگی بسر کرنےکے اہل نہیں رہے ۔اخوت تو یہ ہے کہ کابل میں بھی اگر کسی کو کانٹا چبھے تو ہندوستان کے سب بوڑھے اور نوجوان بے تاب ہو جائیں ،بھائی چارہ تو یہ ہے کہ میدان ِ جنگ میں اگر کوئی ترک زخموں سے چور ہو جائےتوسارے مسلمان اُس کے زخموں کا بدلہ لینے کے لیے بے چین ہو جائیں، علامہ نے اسی رنگ و نسل کے تعصب کے ضمن میں کہا تھا کہ  یوں تو سب کچھ ہو تم، بتاؤ مسلمان بھی ہو ۔۔

ہم مسلمان ہی ہیں، مگر آج کے مسلمان کی تعریف بدل گئی ہے آج کا مسلمان بے حس ،ظالم ، مردہ ضمیر اور خاموش تماشائی ہے ۔ آج فلسطین اور کشمیر میں ہوتے ظلم و بربریت کو دیکھتے ہوئے پوری دنیا میں موجود پچاس سے زائد مسلمان ملک خاموش تماشائی بنے ہیں، کیوں کہ اگر وہ بولیں گے کشمیریوں اور فلسطینیوں کی مدد کو جائیں گے تو ان کے ذاتی مفادات متاثر ہوں گے مسلمانوں کے ذاتی مفادات نے مسلمانوں کو بے شرم اور لالچی بنا دیا ہے ۔

اگرہم تاریخ کے جھروکوں میں جھانکیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہمارے اسلاف کبھی بھی جرم ضعیفی کا شکار نہیں ہوئے بلکہ ہمیشہ جہاد اور شہادت کے علمبردار نظر آئے ۔ہمارے آباء کا وہ جذبہ  ایمانی کہ جس کی وجہ سے ابراہیم آتش ِ نمرود میں کود پڑے ،موسی فرعون سے ٹکرا گئے ،حسین یزید کے سامنے کلمہ حق کہنے لگے ، سرزمین ِ سندھ پر اسلام کا پرچم کس نے لہرایا ،اندلس کے ساحل پر کشتیاں جلانے والے کون تھے ،سومنات کے مندروں کو زمین بوس کس نے کیا ،یقیناً  وہ ہمارے آباء ہی تھے ۔

آج پوری اُمت مسلمہ کو آخر کیا ہو گیا ہے کہ ان کو پیروانِ اسلام کے سروں پر چمکتی تیز دھار تلواریں اپنے سروں پر لٹکتی محسوس نہیں ہوتیں ۔غزہ میں اگر ایک معصوم بچے کا لاشہ تڑپ رہا ہے تو پوری مسلم اُمہ کے  دلوں میں تڑپ کیوں پیدا نہیں ہوتی ۔اگر ایک بے گناہ فلسطینی اور کشمیری کے حلق ِ بریدہ سے خون کا فوارہ پھوٹ رہا ہے تو ہم مسلمانوں کے  جگر چھلنی کیوں نہیں ہوتے؟

آج اگر حافظین کلمہ توحید کے سراور سینے اسرائیلی وحشیوں کی گولیوں سے چھلنی ہو رہے ہیں تو پوری مسلم اُمہ  ایک لمحے کے لیے بھی راحت اور سکون کیسے محسوس کر سکتی ہے ۔آج غزہ میں بہتے خون کی شور مچاتی ندیاں مسلمانوں کے ضمیر کو کیوں نہیں جھنجھوڑ رہیں ۔ آج ایک طرف فلسطین میں بے گورو کفن ٹھنڈے ہوتے لاشے ،آگ اور خون کی ہولی میں ناچتے ہوئے اسرائیلی ہیں تو دوسری طرف مسلمان خواب غفلت کی چادر تان کر لمبی نیند سو رہے ہیں ۔

مسلم اُمت کچھ نہ کرے اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی اسرائیل اور مود ی کو بد دعائیں دیتی رہے تو خون کے شوریدہ دریا تھم نہیں جائیں گے ۔ مسلمانوں کا قبلہ اوّل مسلمانوں سے چھینا جا رہا ہے اور ساری مسلمان قوم سوشل میڈ یا کی مجاہد بنی بیٹھی سوشل میڈیا پر جہاد کر رہی ہے ۔

آج مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ سامان کی کمی نہیں ہے نہ ہی مسلمانوں کے پاس توپ و تفنگ اور گولہ بارود کا فقدان ہے ،نہ آج کے مسلمانوں کے پاس تربیت یافتہ فوجوں کی کمی ہے نہ ہی مسلم اُمت کی کمزوری کی وجہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا عدم حصول ہے ،نہ ہی مال و دولت اور سیم و زر کی قلت ہے، بلکہ مسلم اُمہ کی کمزوری کی وجہ ایمان و ایقان اور اتفاق و اتحادکا فقدان ہے ۔کفر کی بڑی بڑی طاقتیں صحابہ سے ان کے سازو سامان اور اسلحہ سے نہیں بلکہ ان کے یقین محکم اور اور بے مثال اتحاد کی وجہ سےلرزہ براندام تھیں۔صلاح الدین ایوبی ،محمد بن قاسم ، محمود غزنوی ،سلطان محمد فاتح ،شیر ٹیپو ،احمد شاہ ابدالی،طارق بن زیاد ،فاروقِ اعظم ،موسی بن نصیر،اپنے ساتھ کوئی جدید اسلحہ نہیں لے کرگئے تھےبلکہ ان کے جذبہ ایمان نے ہی ان کو فتوحات کے روشن چہرے دکھائے تھے ۔

آج مسلم اُمہ کا جذبہ ایمان برف کی سل کی مانند ہو چکا ہے ،مسلمان اُمت مرے ہوئے ایمان کے ساتھ اندھی ،گونگی اور بہری بھی ہو گئی ہے اُن کو نہ تو قبلہ اول کی پکار سنائی دے رہی ہے اور نہ ہی اُن کے دلوں پر معصوم بچوں کے بمباری میں روئی کی طرح اُڑتے جسم ہل چل مچا رہے ہیں ۔تو اےکشمیر و فلسطین کی تڑپتی،سسکتی ، مچلتی ،بلکتی ماؤں ذرا دھیرج رکھو !کیوں کہ اُمت ِ مسلمہ ابھی خواب ِ خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔

ہر کوئی مست ِ مئے ذوقِ تن آسانی ہے

Advertisements
julia rana solicitors

تم مسلماں ہو یہ اندازِ مسلمانی ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply