رمضان کریم کی مقدس ساعتوں میں ہر سو رحمتوں برکتوں کی برسات جاری ہے ۔ آج وقت افطار کافی عرصہ پہلے ڈسٹرکٹ جیل گجرات کے قیدیوں کے ساتھ کی گئی ایک افطاری یاد آ گئی
ان دنوں کی بات ہے جب ہم ایم پی اے تھے ۔ ایک روز کسی میٹنگ میں شریک تھے جس کی صدارت اس وقت کے ضلع ناظم چوہدری شفاعت حسین کر رہے تھے ,ایجنڈے میں شامل تھا کہ انجمن بہبودِ اسیراں کے صدر کا انتخاب عمل میں لایا جائے، نجانے کس مہربان نے ضلع ناظم کے کان میں سرگوشی کی اور پھر قرعہ فال میرے نام نکل آیا ،اگلے لمحے باقاعدہ یہ اعلان کر دیا گیا
بطور صدر انجمن بہبودی اسیراں متعدد بار ڈسٹرکٹ جیل جانا رہا ۔ ہمارا ایجنڈا تھا کہ قیدیوں کے لئے سہولتیں بہم پہنچائی جائیں اور جیل میں اصلاحات متعارف ہوں، سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی اصلاح پر کام کیا جائے۔
ملک ضیاء اللہ اس وقت جیل کے داروغہ تھے ایک خوش اخلاق ، ملنسار مگر انتہائی عاجز کھلے ڈلے بندے روایتی جیلروں کے برعکس نہ گردن میں سریا نہ ماتھے پر رعونت ،کہیں سے نہ لگتا کہ یہ جیل سپرنٹنڈنٹ ہیں ،ہمہ وقت تعاون کے لئے کشادہ دلی سے تیار۔
اسی اثناء میں رمضان کریم آ گیا ۔ ملک صاحب ایک روز کہنے لگے، عرصے سے دلی خواہش ہے کہ جیل میں ایک شاندار افطار ڈنر کا اہتمام کیا جائے، جو اسیروں کے اعزاز میں ہو، مگر یہ مخیر حضرات کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں، میں نے جھٹ سے کہہ دیا ان شاء اللہ میرا رب بہتر کرے گا اور پھر اللہ نے میرے توکل کی لاج رکھی، کچھ دوستوں سے رابطہ کیا، کسی نے بھی مایوس نہ کیا ،اور ایک پُرتکلف افطار کا سارا سامان جیل پہنچا دیا گیا۔
ایسا منظر کم کم ہی دیکھنے میں آیا ہو گا ۔۔جیل کے وسیع و عریض سرسبز لان میں مخملیں قالین بچھے تھے ،اور قیدی نظم و ضبط کے ساتھ ہمہ تن گوش۔۔
میں نے تجویز دی کہ افطار سے پہلے مختصر سا درس قرآن ہو اور پھر اجتماعی دعا۔
یہ سعادت اللہ رب العزت نے میرے نصیب میں لکھی تھی کہ رمضان کریم کی نسبت سے قیدیوں سے مخاطب ہو کر کتاب لاریب کا پیغام ہدایت ان تک پہنچاؤں۔
وہ گھڑیاں میرے لئے یادگار تھیں۔ جب کردہ و ناکردہ جرائم کی پاداش میں احساس ندامت لئے قیدی سر جھکائے بارگاہ الہی میں میرے ساتھ دست دعا دراز کئے انتہائی رِقت سے اپنے رب سے معافی کے طلبگار تھے۔
اسی طرح ایک روز بیٹھے بٹھائے نجانے جیلر صاحب کو کیا سوجھی کہنے لگے ایم پی اے صاحب اگلا جمعہ جیل کی مسجد میں آپ پڑھائیں گے۔ اب میں سوچنے لگا یہ کیسا امتحان ہے، منبرِ رسول پہ بیٹھ کر بات کرنے کے احساس نے ہی لرزہ طاری کر دیا، اللہ جی اتنی بڑی ذمہ داری۔۔۔
خیر جمعہ کے روز جیل پہنچا تو ملک صاحب منتظر تھے مجھے ساتھ لیا اور مسجد میں داخل ہو گئے۔
لمبی چوڑی تمہید باندھنے کی بجائے سوچا قیدیوں کو رحمت الہی کی وسعتوں سے آگاہ کیا جائے، جلال کی بجائے جمال کی صفت سے آگاہ کیا جائے، انہیں بتایا جائے کہ توبہ کا دروازہ کھلا ہے ،رب کی عافیت تو بہانے تلاش کرتی ہے ،لوٹ آؤ، اپنے مہربان رب کی طرف۔۔
پھر ایک پیغام خاص تھا ان قیدیوں کے نام
کہا، آپ اپنی جھوٹی انا ، ہوس نام نہاد غیرت کے بہکاوے میں آ کر چوری ڈاکہ قتل جیسے جرائم کر بیٹھے، لیکن ایک لمحے کو سوچیے ذرا، اپنے بیوی بچوں ماں باپ بہن بھائیوں کا تصور کیجیے، وہ کس حال میں ہیں۔
آپ کی غیرت کیسے گوارا کرتی ہے کہ آپ کی مائیں بہنیں بیویاں آپ سے ملاقات کے لئے کس طرح خوار ہوتی پھرتی ہیں۔
بس خطبہ کیا تھا شکستہ الفاظ میں سینے کا درد تھا جو جیل میں قید نمازیوں کو دیکھ کر زبان پہ آ گیا۔
آج اتنے برس بعد ایک دم افطاری کے وقت ڈسڑکٹ جیل گجرات کی مسجد کا خطبہ اور افطاری پہ درس قرآن یاد آ گیا، اور میں دل ہی دل میں اپنے رب کا شکر ادا کرنے لگا ،جس نے مجھ جیسے نکمے ناکارہ گنہگار سے یہ کام لے لیا۔
میں گلیاں دا روڑا کوڑا
محل چڑھایا سائیاں!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں