20 دسمبر 2020 کو عزیزی جاوید (مصنف،کالم نگر،سفرنامہ نگار)نے اطلاع دی کہ شمس الرحمٰن فاروقی کاانتقال ہوگیا ہے۔کچھ دیر بعدکچھ اور جوانب سے بھی اطلاع یہی آئی۔فاروقی صاحب اپنے عہد کے اتنے بڑے عبقری تھے کہ ان کی تخلیقی جہتوں کااحاطہ مشکل ہے۔ان کااردو ناول ”کئی چاند تھے سر ِ آسماں“ وہ ادبی شاہکار ہے۔جس کامثل شاید عشروں تک تخلیق نہ کیا جاسکے۔جن احباب کو شکوہ ہے کہ اردو کے دامن میں کوئی عظیم ناول کیوں نہ تخلیق ہوا،وہ بھی ”آگ کادریا“(قراۃ العین حیدر)”راجہ گدھ“(بانو قدسیہ)”دشت سوس“(جمیلہ ہاشمی)”نادار لوگ“ (عبداللہ حسین)اور ”جاگے ہیں خواب میں“(اختر رضاسلیمی)(یہ وہ ناول ہیں جن میں تنوع کے کامیاب تجربے ہوئے ہیں)دیکھ کر اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہو جائیں گے۔مگر ”کئی چاند تھے، سرِ آسماں“کامطالعہ کرنے کے بعد کوئی شخص یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگاکہ اردو کادامن اچھے ناول سے تہی دامن ہے۔
آج ہم قارئین کی خدمت میں اس ناول کی کہانی اور اس کے محاسن کاجائزہ لیں گے۔یہ ناول دو مرتبہ پڑھنے کے بعد تیسری بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔مگر آٹھ سو صفحات کی ضخامت دیکھ کر سردیوں سے ٹھٹھرتے ہوئے دروبام میں اس کام کے لیے مناسب جگہ اور ہمت نہیں پارہا۔اگرچہ میری سٹڈی میں ہیٹر وغیرہ موجود ہے۔روشنی کابھی اچھا انتظام ہے،مگر رات کو کڑاکے کی سردی رضائی میں گھسنے پر مجبور کردیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ابھی یہ سطور دھوپ میں باہر کرسی بچھا کر بیٹھالکھ رہاہوں۔آمدم برسرِ مطلب اس ناول کی کہانی پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں پھر تکنیک پر بات کریں گے۔تاکہ قارئین کی دلچسپی برقرار رہے۔
ناول کی کہانی شروع کرنے سے پہلے اس کے پراجیکٹ پر کام کرنے والے چند اہم کرداروں کا ذکر ضروری ہے۔ جن لوگوں نے ساٹھ کی دہائی کاادب پڑھا ہے وہ وسیم جعفر جیسے ادیب کو ضرور یاد رکھے ہوں گے۔یہی وہ ادیب ہے جس نے برٹش میوزیم لائبریری کے تہہ خانوں سے ایک تصویر برآمد کی ،جو ناول لکھنے کاسبب بنی۔وہ تصویر کس کی تھی؟ وزیر خانم کی۔اپنے عہد کی خوب صورت،فیشن ایبل اور طبقہ رؤسا سے تعلق رکھنے والی یہ خاتون مشہور اردو غزل گو نواب مرزا خان داغ دہلوی کی والدہ تھیں۔
ٍوزیر خانم نے 1811 میں یوسف سادہ کار کے ہاں جنم لیا۔1828 میں ایک انگریز (انتظامیہ کے افسر)مارسٹن بلیک سے شادی ہوئی جس سے ایک بیٹا مارٹن بلیک اور بیٹی مسیح جان(صوفیہ) پیدا ہوئے جو جلد ہی (صوفیہ)یتیم ہوگئے۔کیوں کہ1820 کے ایک بلوے میں مارسٹن بلیک ہلاک ہوگیا۔صوفیہ مسیح کی شادی ایک انگریز سے ہوئی جو چل نہ سکی۔دوسری شادی امیر اللہ سے ہوئی جس کاایک بیٹا گمنام زندگی گزار گیا۔مگر امیر اللہ کابیٹا (دوسر ے لفظوں میں صوفیہ کاپوتا)حسیب اللہ قریشی (پیدائش 1890 سلیم جعفر کے نام سے تھا جس کاذکر اوپر گزرا ہے اسی نے برٹش میوزیم سے اپنی خاندانی بزرگ کی تصویر تلاش کر کے انتہائی ثبوتوں کے ساتھ فراہم کی ، جن پر شمس الرحمان فاروقی نے یہ خوبصورت ناول تحریر کیا۔
اصل کہانی یوں شروع ہوتی ہے کہ ایک حقیقی کردار میاں مخصوص اللہ جس کاتعلق کشن گڑھ (بھارت)سے ہے ،ایک مصوّر ہے جو ایک مہاراجہ کی بیٹی من موہنی کی تصویر بناتا ہے۔اس جرم کی پاداش میں جلاوطن ہو کر کشمیر کارخ کرتا ہے۔جب کہ مہاراجہ اپنی بیٹی من موہنی کی تصویر کی خبر سن کر خود اپنی بیٹی کو تلوار سے ہلاک کردیتا ہے۔جو اس کی ریاست کا ظالمانہ قانون ہوتا ہے۔میاں مخصوص اللہ کشمیر میں شادی کرتا ہے۔جس سے اس کابیٹا یحییٰ بڈگامی پیدا ہوتاہے۔یحیی ٰکے دو بیٹے داؤد اور یعقوب کاروبار کے سلسلے میں اپنے آبائی وطن کشن گڑھ جاتے ہیں۔جہاں ان کی شادیاں دوبہنوں سے ہوتی ہیں۔یعقوب بڈگامی کابیٹایوسف 1839 میں پیدا ہوا۔دس سال کی عمر میں یوسف کاسارا خاندان لارڈ لیک کی فتح دہلی کے موقع پر توپ کے گولے کی زد میں آکر ختم ہو جاتاہے۔یوسف کو ایک خاتون اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔اور 1880 میں پندرہ سال کی عمر میں یوسف کی شادی اصغری بیگم سے کروادیتی ہے۔یوسف سادہ کار کی تین بیٹیاں پیدا ہوتی ہیں۔سب سے چھوٹی وزیر خاتم ہوتی ہے۔جو اس ناول کی ہیروئن اور داغ دہلوی کی والدہ ہے۔
اب وزیر خانم کے حوالے سے چند معلومات پیش خدمت ہیں۔
اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ اس خاتون کی پہلی شادی 17 سال کی عمر میں مارسٹن بلیک (انگریز افسر)سے ہوتی ہے۔جو ہلاک ہو جاتا ہے۔وزیر سے اس کے بچے عیسائی قانون کے مطابق لے لیے جاتے ہیں۔چنانچہ وہ دہلی میں اپنے میکے یابہنوں کے پاس آجاتی ہے۔یہاں سے کہانی ایک بہت دلچسپ مگر کرب ناک دور میں داخل ہوتی ہے۔
مغلیہ حکومت کے آخری سانس چل رہے تھے۔عمل داری حقیقی طور پر انگریز ریذیڈینٹ کی تھی۔فوج،انتظامیہ،عدالت سب انگریزوں کاتھا۔بادشاہ بہادر شاہ ظفر محض اپنے القابات کے سہارے قلعہ معلی ٰ میں رنگ رلیاں منارہا تھا۔شراب و شباب میں تمام امرائے دلی غرق مئے ناب تھے۔ ذرا بے اختیار بادشاہ کے القاب ملاحظہ فرمائیے ”29 ستمبر 1837کی رات کو تین بجے سراج الدین نے حضرت ظل سبحانی،خلیفتہ الرحمانی،بادشاہ جم جاہ،ملائک سپاہ،شہر یار ظل اللہ،پناہ دین،محمدی،رونق افزائے ملت احمدی،سلالہ خاندان گورگانی،نقاؤہ دودمان صاحب قرانی،خاقان المعظم شہنشاہ الاعظم،الخاقان ابن خاقان،السلطان ابن السلطان،صاحب المفاخر و المغازی،ولی نعمت حقیقی و خداوند مجازی،ابو المظفر،سراج الدنیا والدین محمد بہادر شاہ غازی،خلد اللہ ملکہ و سلطانہ،افاض العالمین برہ،واحانہ ۔۔کے القابات و خطابات کے ساتھ جلو ہ افروز و ساؤہ بادشاہی ہوئے (صفحہ نمبر ۷۳۶)
حقیقت یہ تھی کہ ان القابات میں خودستائی کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔مغل بادشاہ کمپنی کی پنشن پر گزارا کرتاتھا۔حکومت صرف شاہی قلعے کی دیواروں کے اندر محدود تھی۔سکہ انگریز کاچلتا تھا۔جن کے مختصر نام مگر بڑے کام تھے۔اقبال نے صحیح فرمایا تھا۔
میں تجھ کو بتاتا ہوں کہ تقدیر اُمم کیا ہے۔
شمشیر و سناں اوّل، طاؤس و رباب آخر
اس دور کی تاریخ پر نظر رکھنے والے نواب شمس الدین رئیس لوہارو کے نام سے بخوبی واقف ہوں گے۔غالب کے کئی خطوط ان کے بھائی کے نام ہیں۔یہ حقیقی کردار اس ناول میں بڑی شان سے داخل ہوتاہے۔وزیر خانم کااس سے مدخولہ کارشتہ قائم ہوتاہے۔چنانچہ25 مئی1813 کو داغ کی ولادت ہوتی ہے۔جہاں مشاعرہ ہوتا ہے جس میں غالب بھی مدعو ہوتے ہیں۔مصنف نے جزئیات نگاری میں جو کمال دکھایا ہے اس کی ایک جھلک غالب کے سراپے میں دیکھیے جن کی عمر اس وقت 33برس تھی۔
”مرزا صاحب کاقد نہایت بلند و بالا ،پیشانی اونچی،آنکھیں روشن اور متبسم،سینہ فراخ،کلائیاں چوڑی اور گردن بلند تھی۔ان کی رفتار تمکنت و اعتماد سے بھری ہوئی لیکن نخوت سے بیگانہ تھی۔نہایت گورا سنہرا رنگ،جسے میدہ شہاب کہیں تو غلط نہ ہوگا۔چہرہ داڑھی سے بے نیاز لیکن بڑی بڑی خوب صورت نوک دار مونچھیں تورانی وضع کی،گھنی بھنوئیں،لمبی پلکیں،نازک نازک ہونٹوں پر ہلکا ساتبسم،ا ن چیزوں نے مل کر ان کے چہرے کو اس قدر دیدہ زیب بنا دیا تھاکہ دیکھتے رہیے۔ایک لمحے کے لیے وزیر کی نگائیں بھی نواب شمس الدین احمد کے چہرے سے ہٹ کر مرزا صاحب کے چہرے پر مرکوز ہو کر رہ گئیں۔“صفحہ نمبر237۔(ہم سب نے غالب کے صرف بڑھاپے کی تصاویر دیکھی ہیں)نواب شمس الدین کاسراپا ملاحظہ فرمائیے۔
”شمس الدین احمد کی عمر اکیس بائیس سال سے زیادہ نہ تھی۔لیکن ان کے چہرے سے امارت کی رعونت اور تجربے کی پختگی کے آثار نمایاں تھے۔ان کے سرپر مغل امراء کی طرح پگڑی اور سر پیچ دونوں تھے۔سر پیچ میں کبوتر کے انڈے کے برابر بیضوی ہی طرز پر کٹا ہوا بدخشانی لعل کمرے کی تمام روشنیوں سے چشمکیں کر رہا تھا۔موسم کی سردی بے نیاز بدن میں باریک تن زیب کاکُرتا،اس پر جامد وار کانیمہ،کُرتے کی کاٹ اور نیمے کی بناوٹ ایسی کہ کُرتے کے نیچے سے داہنا سینہ جھلکتا تھا۔گلے میں ست لڑا موتیوں کاہار،کمر میں مرصع کمر بند،خنجر۔۔۔۔۔کمخواب کاایک برکاپاجامہ،لیکن اس پرجامہ نہ تھا۔لہٰذارانوں کاکھینچاؤ او رپنڈلیوں کاکساؤ خوب نمایاں تھے۔رنگ نہایت گورا،بڑی بڑی آنکھیں،مغل طرز کی نوک دار داڑھی،نمایاں لیکن ہلکی مونچھیں،ان کی چال ڈھال اور چہرے بشرے کامجموعی تاثر اس قدر وجیہہ اور دل پذیر ،طرزِ رفتار اس قدرا میرانہ اور پر وقار اور مجموعی رنگ ڈھنگ اس قدر قوت اور اندرونی توانائی کاتھا کہ اس بھرے پُرے بارونق کمرے میں ایک لمحے کے لیے تمام لوگ غیر اہم اور غیر شان دار نظر آنے لگے۔
ناول کی ہیروئن وزیر خانم کی تصویر کشی میں مصنف نے جس شاعرانہ نثر،تہذیبی شعور اور جزئیات کی منظر کشی کاثبوت دیا ہے وہ قاری کو انگشت بدنداں کردینے کے لیے کافی ہے۔ذرا دل تھام کر پڑھیے۔
یوں تو وزیر خانم کے سراپے پرمتعدد مواقع پر متعدد بار تصویر کشی کے لفظی مو قلم آزمائے گئے ہیں۔مگر ذیل کی تصویر سب سے زیادہ موثر ہے۔ملاحظہ ہو۔۔
”ڈھاکے کی ململ کاپائجامہ،اس قدر باریک کہ کولھوں کے دائرے اور رانوں کے خطوط صاف نمایاں تھے۔دیکھنے والے کو موقع ملتا یاہمت بہم پہنچا کر وہ کچھ دیر ٹھہر ارہتا تو شمسین ِسیاہ کے درمیان کے جوف کی بھی جھلک کبھی کبھی دیکھ سکتا تھا“اگر یہ پائجامہ اس قدر کاشف البدن تھا تو پھر سامنے والے کو پیٹرو کاابھار اور تختہ صندل بروئے چاہ ِشیریں،یعنی کوہ ِ زہرہ کاارتفاع اور نازک ڈھلان بھی جھلک مارتی نظر آسکتی تھی۔حقیقت یہ تھی کہ پائے جامے کے نیچے ایک اور زیر جامہ تھا،بالکل بدن کے رنگ کااور اس قدر چست کہ بدن سے چسپاں ہو کر رہ گیا تھالیکن وہ اس قدر کشاف ِاسرار بدن نہ تھاکہ سب کچھ نہ سہی سامنے کے کچھ راز تو کھل جانے کے لیے مچلتے نظر آتے“صفحہ نمبر ۵۰۳۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں