مارچ 1950 میں اقوامِ متحدہ سیکورٹی کونسل نے آسٹریلین ہائی کورٹ کے مشہور جج سر اوون ڈکسن کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بھیجا۔ انہوں نے پوری کوشش کی کہ انڈیا اور پاکستان کے مختلف اعتراضات اور اختلافات کو حل کر کے استصوابِ رائے منعقد کرایا جا سکے۔ بہت جلد انہیں اندازہ ہو گیا کہ دونوں ممالک اس معاملے پر اتفاق کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ سب سے پہلا معاملہ پاکستان کا تمام علاقے کو خالی کر کے انڈیا کی تحویل میں دینا تھا۔ یہ پاکستان کے لئے ناقابلِ قبول تھا۔ اگلا مسئلہ یہ تھا کہ تین الگ طرح کی انتظامیہ علاقے میں حکمران تھی۔ انڈین جموں و کشمیر میں پروانڈیا نیشنل کانفرنس، پاکستانی جموں و کشمیر میں پروپاکستان مسلم کانفرنس اور شمالی علاقہ جات میں پروپاکستان منتظم۔ علاقے میں فوج بڑی تعداد میں تھی۔ اس کی موجودگی میں اتنے اہم ووٹ پر اثرانداز ہونا آسان تھا۔ یہ جنگ کا زون تھا۔ علاقہ دشوار گزار تھا۔ انتخابی فہرستیں موجود نہیں تھیں۔ یہ سب حل کیا جا سکتا تھا۔ اس کے لئے وقت، پیسے، امن، استحکام، باصلاحیت منتظمین کے علاوہ پاکستان اور انڈیا کے تعاون کی ضرورت تھی۔
پاکستان اور انڈیا تلخ حریف تھے اور کسی بھی چیز پر اتفاق نہیں کرتے تھے۔ ڈکسن نے نتیجہ اخذ کیا کہ پورے جموں و کشمیر میں استصواب کروانا غیرعملی ہے۔ جموں اور لداخ کے لوگ انڈیا کے ساتھ مطمین ہیں۔ شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر کے پاکستان کے ساتھ۔ صرف وادی کشمیر وہ علاقہ ہے جہاں پر معاملہ طے کئے جانا ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے لیڈروں کے ساتھ طویل ملاقاتوں میں انہوں نے تجویز کیا کہ استصوابِ رائے کے علاقے کو محدود کر دیا جائے۔ اس کو صرف کشمیر میں کروایا جائے۔ اس تجویز پر انڈیا نے مشروط آمادگی ظاہر کی۔ انڈیا کا اس میں پاکستانی کشمیر کا کچھ کشمیری سپیکنگ علاقہ شامل کرنے کا مطالبہ تھا۔ یہ غالباً سودا بازی کے لئے لی گئی پوزیشن تھی۔ کیونکہ جلد ہی انڈیا نے یہ مطالبہ واپس لے لیا۔ پاکستان نے اس تجویز کو مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ اس کا موقف تھا کہ یہ پوری ریاست میں ہو گا تو ہی قبول کیا جائے گا۔
پاکستان نے ایک اور تجویز دی۔ اس کے مطابق کشمیر کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر دیا جائے۔ اس کا مطلب یہ نکلتا کہ وادی کشمیر خود بخود بغیر انتخاب کے پاکستان کے پاس آ جاتی۔ دہلی کے لئے یہ تجویز قابلِ قبول نہیں تھی۔
ڈکسن اپنی تمام تر کوششوں کے بعد ناکام ہو کر واپس چلے گئے۔ انہوں نے اپنی رپورٹ اقوامِ متحدہ سیکورٹی کونسل میں جمع کروائی جس میں کہا گیا کہ بغیر ریاست کو تقسیم کئے اس کا حل نہیں نکالا جا سکتا۔ ڈکسن کی تجویز پہلی بار کسی کی بھی دی گئی تجویز تھی جس میں ریاست کو تقسیم کرنے کے خیال کی بات کی گئی تھی۔ اس خیال پر پاکستان اور انڈیا، دونوں نے اتفاق کیا تھا۔ تاہم دونوں اس کے طریقہ کار پر اتفاق نہ کر سکے۔ ڈکسن کا دوسرا نوٹ یہ تھا کہ کشمیر کا معاملہ اس وقت تک حل نہیں کیا جا سکے گا جب تک اس عمل میں کشمیریوں کو بامعنی طریقے سے ملوث نہیں کیا جاتا۔ یہ معاملہ پاکستان اور انڈیا طے نہیں کر سکتے۔ ڈکسن برِصغیر سے چلے گئے۔ ڈکسن کے بعد آنے والے ڈاکٹر فرینک پی گراہم تھے۔ اس کے علاوہ سویڈن کے گنار جارنگ بھی تصفیے کے حل کے لئے آئے۔ 1948 سے 1958 کے درمیان اقوامِ متحدہ اپنی کوشش کرتی رہی کہ معاملے کو بڑھایا جا سکے۔ ان مذاکرات اور کوششوں اور نتائج کی بہت تفصیلی دستاویزات موجود ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے نمائندگان دونوں اقوام کے لیڈروں کے غیرلچکدار موقف کے آگے بے بس رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابتدائی برسوں میں بھارت استصوابِ رائے کے لئے تیار تھا۔ اختلافات دائرہ کار اور طریقہ کار پر رہے تھے۔ لیکن 1953 کے آخر میں یہ واضح ہو گیا تھا کہ بھارت اسے جیت سکتا ہے۔ اس کی وجہ شیخ عبداللہ حکومت کو برطرف کر دینے کے بعد ہونے والا ردِعمل تھا۔ 1954 تک انڈیا کا اس بارے میں ارادہ بدل گیا تھا۔ جموں و کشمیر اسمبلی میں بخشی غلام محمد کی حکومت نے متفقہ قرارداد منظور کی جس میں مہاراجہ کے الحاق کی توثیق کر دی گئی۔ (اگرچہ اس میں پاکستانی جموں و کشمیر کا کوئی نمائندہ نہیں تھا)۔ انڈیا کی نظر میں اس نے کشمیری امنگوں کی ترجمانی کر دی۔ انڈیا نے پاکستان پر سیٹو اور سینٹو میں شمولیت سے سرد جنگ کو برِصغیر پر لانے کا الزام لگایا۔
اگرچہ انڈیا پاکستانی کشمیر پر دعویٰ کرتا رہا ہے لیکن حقیقت میں اس کو حاصل کرنے پر کبھی کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔
استصواب کا معاملہ 1975 تک ہر لحاظ سے مردہ ہو چکا تھا۔ اندرا گاندھی حکومت کے ساتھ کشمیری حکومت کے کئے گئے معاہدہ کشمیر میں اتفاق کیا جا چکا تھا کہ جموں و کشمیر بھارت کا لازم حصہ ہے۔ پاکستان بھارت شملہ معاہدہ 1972 میں کیا گیا۔ جس کے بعد انڈیا کا موقف ہے کہ اب اقوامِ متحدہ اس پر رائے دینے کا مجاز نہیں۔ پاکستان کا سرکاری موقف ابھی تک استصوابِ رائے کا ہے۔ چونکہ پاکستان اور بھارت اس بارے میں کسی بھی چیز پر اتفاق نہیں کرتے۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا، دونوں ہی اپنے سرکاری موقف کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ دونوں ہی جانتے ہیں کہ یہ ناقابلِ عمل ہیں۔ لیکن اس سے پیچھے ہٹنا اندرونی دباوٗ کی وجہ سے افورڈ نہیں کر سکتے۔ اس لئے یہ مسئلہ غیرحل شدہ رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقوامِ متحدہ میں اس مسئلے پر آخری بار بات پانچ نومبر 1965 میں ہوئی۔ اس کے بعد اگلی بڑی پیشرفت 1996 میں ہوئی جب سیکورٹی کونسل نے ایسے پرانے حل طلب مسائل کی طویل فہرست کو ایجنڈا سے نکال دیا جن پر پانچ سال سے بات چیت نہیں ہوئی تھی۔ پاکستان کے احتجاج پر اسے دوبارہ شامل کیا گیا۔ اب ہر سال پاکستان کو رسمی طور پر درخواست دینا پڑتی ہے کہ اسکو فہرست میں برقرار رکھا جائے۔ 2010 میں اس کو ایک بار پھر نکال دیا گیا جو شاید تکنیکی غلطی ہو۔ اس وقت اقوامِ متحدہ میں اس مسئلے کی ٹھیک صورتحال غیرواضح ہے۔
(جاری ہے)
یہ تصویر بیس جولائی 1950 کو کھینچی گئی۔ اس میں لیاقت علی خان، جواہر لال نہرو اور اوون ڈکسن مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کر رہے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں