مٹی کی عورت، ڈاکٹر پروین عاطف۔۔۔۔۔۔فرقان مجید

دنیا کے ہر خطے اور تہذیب میں ایسی جاندار عورتوں کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے تاریخ میں اپنے نمایاں نقوش چھوڑے ہیں برصغیر کی مٹی بھی بہت زرخیز رہی ہے_ اسی مٹی کی ایک عورت جسے لوگ “ڈاکٹر پروین عاطف” کے نام سے جانتے ہیں .گزشتہ دنوں اسی مٹی میں خاموشی سے جا سوئی۔
اردو ادب پڑھنے والے انہیں افسانہ نگار, سفرنامہ نگار اور کالم نگار کے طور پر بہت اچھی طرح جانتے ہیں, لیکن ان کی زندگی کا سب سے دلچسپ پہلو جو انہیں اپنی ہم عصر خواتین میں نمایاں کرتا ہے وہ پاکستان میں ویمن ہاکی کے لئے ان کی خدمات ہیں _پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وومن ہاکی ایسوسی ایشن کا قیام پروین عاطف کی ہی کوششوں سے ممکن ہوا “جس کی وہ صدر بھی رہیں” انہوں نے سکولوں کالجوں اور گھروں سے خواتین ہاکی پلیئرز ڈھونڈ کر انہیں تربیت دلوائی اور پاکستان ویمن ہاکی ٹیم تشکیل دی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان ویمن ہاکی کے حوالے سے وہ ایک دلخراش یادداشت شیئر کیا کرتی تھیں   کہ جنرل ضیا الحق کا زمانہ تھا اور پانچ چھ ماہ کی زبردست تربیت کے بعد جب ٹیم جاپان میں ہونے والے ٹورنامنٹ کے لیے تیار ہوئی تو روانگی سے ایک دن پہلے جنرل ضیاء الحق کی طرف سے آرڈرز موصول ہوئے “کہ اب ہماری لڑکیاں ہاکی نہیں کھیلیں گی” اور دورہ منسوخ کر دیا گیا_وہ انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن (برسلز) کی کاؤنسل ممبر بھی منتخب ہوئیں اور مؤثر طریقے سے پاکستان کی بین الاقوامی نمائندگی کرتی رہیں۔
یاد رہے پروین عاطف اولمپین ہاکی پلیئر بریگیڈیئر عاطف جو پی ایچ ایف کے سیکریٹری بھی تھے ،کی اہلیہ تھیں_ان کی زندگی کا ایک اور روشن پہلو ان کا سوشل اور پولیٹیکل ایکٹیوزم ہے _سڑکوں پر احتجاج ھو یا اپنے قلم سے وقت کے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں پر تنقید , انہوں نے ہر طریقہ کار کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا انہوں نے متعدد سٹیج اور ٹی وی ڈرامے لکھے اور انہیں پروڈیوس بھی کیا
ان کی بے باک اور کڑوے سچ سے بھرپور تحریریں آنے والی نسلوں (جو اس راہ پر چلنا چاہیں گی) کے لیے مشعل راہ رہیں گی۔۔
سچ بولنا اور کھل کر بولناکوئی لگی لپٹی نہ رکھنا ان کے جینز میں شامل تھا وہ عظیم صحافی اور لکھاری “احمد بشیر” کی بہن اور افسانہ نگار نیلم احمد بشیر کی پھوپھی تھیں ،دعا ہے کہ یہ مٹی اتنی ہی زرخیز رہے اور ایسی عورتوں کو جنم دیتی رہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply