راز حیات والے بابا جی۔۔عارف انیس

مولانا وحید الدین خان بھی رخصت ہوئے! انا للہ و انا الیہ راجعون۔
ذہین آنکھوں اور متجسس سراپے والی دھیمی اور باوقار شخصیت کے مالک وحید الدین خان کو دیکھ ارطغرل والے “ابن عربی” کا خیال آتا تھا۔ وہ ان دس پہلے لوگوں کی فہرست میں شامل تھے جن سے زندگی بھر بہت کچھ سیکھا۔ جن سے ملنے کی حسرت تھی، مگر ہندوستان نہ جاسکنے کی وجہ سے پوری نہ ہوسکی۔ میں اگر ہندوستان جاتا تو ترتیب کے اعتبار سے انہیں دیکھنا، تاج محل دیکھنے سے پہلے بنتا تھا۔ وہ امن، آشتی، برداشت، انسانیت، علم اور عظمت کا تاج محل تھے۔

میرے چند ایک جو غیبی استاد اور مرشد تھے وہ ان میں پہلے نمبر پر تھے۔ جم ران، نپولین ہل، وین ڈاییر، سٹیون کووے،جیک کین فیلڈ، برائن ٹریسی ،دیپک چوپڑا ،ان سب دیو زاد لوگوں کو پڑھنے اور ملنے سے پہلے انہیں پڑھا اور انہیں ان سب سے اوپر ہی پایا۔ پرسنل ڈیویلپمنٹ یا خود کاری پر ان کا لکھا حرف آخر ہے۔ پندرہ برس کی عمر میں ان کی کتاب راز حیات پڑھی جو مجھ پر بیت سی گئی۔

میرے خیال میں پورے عالم اسلام میں اپنی ذات کی تعمیر اور نشوونما پر ان سے بہتر کسی نے نہیں لکھا۔ مگر کمال یہ تھا کہ صرف باتیں ہی نہیں کیں، پوری زندگی انہی اصولوں پر مرتب گزار دی۔

جماعت اسلامی ہند سے سفر کا آغاز کیا مگر پھر بہت آگے نکل گئے۔ وہ اپنی مثال آپ تھے۔ وہ دنیا میں شاید واحد شخص تھے جن سے دلائی لامہ کو بھی جھک کر ملنا پڑا۔ ان کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ راز حیات تک پہنچنے کے بعد اسے تقسیم کر کے گئے۔

“ایک امریکی خاتون سیاحت کی غرض سے روس گئیں۔وہاں انھوں نے دیکھا کہ ہر جگہ کمیونسٹ پارٹی کے چیف کی تصویریں لگی ہوئی ہیں۔ یہ بات انھیں پسند نہیں آئی۔ ایک موقع پر وہ کچھ روسیوں سے اِس پر تنقید کرنے لگیں۔ خاتون کے ساتھی نے اُن کے کان میں چپکے سے کہا: ’’میڈیم آپ اِس وقت روس میں ہیں‘ امریکہ میں نہیں ہیں‘‘۔ آدمی اپنے ملک میں اپنی مرضی کے مطابق رہ سکتا ہے ۔ لیکن اگر وہ کسی غیر ملک میں جائے تو وہاں اُس کو دوسرے ملک کے نظام کی پابندی کرنی پڑے گی۔ اگر وہ وہاں کے نظام کی خلاف ورزی کرے تو مجرم قرار پائے گا۔ ایسا ہی کچھ معاملہ وسیع تر معنوں میں دنیاکا ہے‘ انسان ایک ایسی دنیا میں پیدا ہوتا ہے جس کو اُس نے خود نہیں بنایا ہے۔ یہ مکمل طور پر خدا کی بنائی ہوئی دنیا ہے۔ گویا انسان یہاں اپنے ملک میں نہیں ہے بلکہ خدا کے ملک میں ہے۔‘‘ یہ تھے مولانا وحید الدین خان۔ وہ ہر شعر، مذاق، اخباری واقعے سے اپنے مطلب کی بات، کوئی نصیحت نکال لیتے تھے۔

خان صاحب، تاحیات اسلام کے داعی اور مارکیٹر تھے۔ سب سے کمال کی بات ان کی وہ نگاہ مرد مومن تھی جس نے تقریباً گزشتہ پچاس برس میں پولیٹیکل اسلام کے حوالے سے سب سے درست درایت کی۔ وہ اسلام سے تعلق رکھنے والی شاید واحد دیو قامت شخصیت تھے جو مذہب کو طاقت کے حصول کے لیے ناجائز سمجھتے تھے، سائنسی طرز فکر کے پرچارک تھے اور خواتین کے حقوق کے شدید قائل تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اسلامی معاشرے، سیاسی اسلام کی شکست کی وجہ سے ردعمل کی نفسیات کا شکار ہیں اور مغرب کو ایک حریف کی بجائے حلیف خیال کیا جانا چاہیے۔

90  کی دہائی میں جب اپنے بچنے میں ہمیں مست گل اور حرکت المجاہدین کا چورن بیچا جارہا تھا، وہ 1960 سے ہی واضح تھے کہ پولیٹیکل اسلام اور اسلام کے نام پر طاقت کا حصول اسلام اور مسلمانوں دونوں کے کڑاکے نکال دے گا۔ ان کی، اس ضمن میں تقریباً ساری پیشین گوئیاں پوری ہوئیں۔ پاکستان میں گزشتہ پچاس برس میں شدت پسندی کی بڑھوتری کے حوالے سے ان کا لکھا، حرف آخر ہے۔

“جب یہاں ہر تاریکی آخر کار روشنی بننے والی ہے تو وقتی حالات سے گھبرانے کی کیا ضرورت۔آدمی اگر یہاں کسی مشکل میں پھنس جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ صبر اور حکمت کے ساتھ اس سے نکلنے کی جدوجہد کرے، اگر بالفرض اس کے پاس جدوجہد کرنے کی طاقت نہ ہو تب بھی اس کو چاہیے کہ وہ خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے آنے والے کل کا انتظار کرے۔ اس دنیا میں جس طرح محنت ایک عمل ہے، اسی طرح انتظار بھی ایک عمل ہے۔ جو شخص عمل کا ثبوت نہ دے سکے، اس کو چاہیے کہ وہ انتظار کا ثبوت دے۔ اگر اس نے سچا انتظار کیا تو عین ممکن ہے کہ وہ انتظار کے ذریعہ بھی اسی چیز کو پالے جس کو دوسرے لوگ محنت کے راستے سے تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ قدرت کا نظام خود اپنے آخری فیصلہ کو ظہور میں لانے کے لئے سرگرم ہے، بشرطیکہ آدمی مقرر ہ وقت تک اس کا انتظار کر سکے۔”

بے شک اپنے بابا جی سچا انتظار کرنے والوں میں سے تھے۔ اعظم گڑھ میں پیدا ہونے والے وحید الدین خان نے 96 سالہ زندگی میں 200 سے زائد کتابیں تصنیف کیں، الرسالہ نے بلاشبہ لاکھوں قندیلیں روشن کیں۔ گورباچوف ایوارڈ، مدر ٹریسا ایوارڈ، ہندوستان کا پدما بھوشن ایوارڈ اور سینکڑوں مزید ایوارڈ ملے۔ وہ اردو، ہندی، عربی، فارسی اور انگریزی میں لکھنے اور بولنے میں مہارت رکھتے تھے۔ ان زبانوں میں لکھتے اور بیان بھی دیتے ہیں، خان صاحب نے اپنی پوری زندگی پڑھنے،سوچنے اور مشاہدہ کرنے کے لیے وقف کردی تھی اور اپنے آپ کو ” تفکیری حیوان”( the thinking animal) کہتے تھے۔ یہ نوبل انعام کی بدنصیبی ہے کہ وہ انہیں نہیں ملا۔ وہ اس حال میں اٹھے کہ ہمارے پاس ان جیسا کوئی نہیں رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان کی روانگی کا سوچتا ہوں تو آنکھیں نم ہوتی ہیں مگر پھر رشک بھی آتا ہے کہ ڈیوٹی پوری کرگئے بابا جی۔ اور پھر سورت الفجر کی یہ آیات کانوں میں گونجتی ہیں :
یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ ﴿٭ۖ۲۷﴾
اے اطمینان والی روح ۔
(سورة الفجر:۲۷)
ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً ﴿ۚ۲۸﴾
تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے خوش ۔
(سورة الفجر:۲۸)
فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ ﴿ۙ۲۹﴾
پس میرے خاص بندوں میں داخل ہوجا ۔
وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ ﴿۳۰﴾
اور میری جنت میں چلی جا ۔
(سورة الفجر:۳۰)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔