پڑیے گر بیمار تو(2)۔۔فاخرہ نورین

شادی کے بعد سے ہم لوگ ایک پلیٹ میں ایک دوسرے کے لئے روٹی اور بوٹی کے اچھے اچھے پیس چنتے اور ایک دوسرے کو کھلانے کے عادی ہو گئے تھے، چنانچہ جب سسرال میں پہلی مرتبہ کچن میں گئی تو بڑا عجیب منظر سامنے آیا ۔ زبیر منہ اندھیرے، صبح سویرے اٹھنے کے بعد اپنی نماز کی روٹین نبھا کر فارم کا چکر لگانے کے بعد کچن میں موڑھے پر بیٹھا تھا ۔واضح رہے کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ ایک بد چلن بھینس کی دلداریوں میں مصروف رہتا تھا اور وہ بھینس بھی ابا جی، زلفا مصلی اور دیگر نوکروں کو نظر انداز کر کے زبیر کے فارم میں آنے کے بعد اس کی طرف بھاگی بھاگی آتی تھی ۔اور جس کی اس اخلاقی بدعنوانی کا نوٹس لیتے ہوئے میں نے زبیر کو بھینسوں سے روابط محدود کرنے کی ہدایت نہیں ضد کی تھی ۔

ٹیبل کے گرد موڑھوں پر ابا جی کے ساتھ ساتھ گھر کے جملہ نراراکین بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے اور جملہ مادائیں پیڑھیوں پر بیٹھے یا اپنے پیروں پر چلتے مذکرین کے سامنے ناشتہ پروسنے میں مصروف تھیں۔ میں نے بھی ایک موڑھا گھسیٹا اور بیٹھ گئی ۔غصہ البتہ شدید آیا کہ پنڈی میں مَیں جب تک نہ آتی زبیر لقمہ  نہیں توڑتا تھا، یہ ڈیرے پر داخلے نے اس کی داخلی دنیا میں کیا تبدیلی بپا کر دی کہ اس کے خارجی معاملات ہی تبدیل ہو گئے۔

غصے اور تناؤ کی اس کیفیت میں بھی میں نوٹ کر چکی تھی کہ کچن کے موڑھانِ بالا سے پیڑھیانِ زیریں تک ایک تناؤ اور کھچاؤ کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے ۔ میں صرف اَن چاہی نہیں، بدتمیز بھی تھی اور بے خبر بھی ۔ چائے کا کپ اور سالن کی پلیٹ پراٹھے کے ساتھ طلب کی اور مردانہ میز پر درانے کی کوشش کی ۔
کڑیے زنانیاں ایتھے مرداں نال نہیں باہندیاں
ابا جی نے میری بریفنگ ہی نہیں حدود اور طرز زندگی بھی متعین کر دیا ۔
میں زبیر کے ساتھ ناشتہ کرتی ہوں ۔
میں نے اپنی ڈیڑھ سالہ شادی کی چند خوش نصیب صبحوں کا معمول ایسے بتایا جیسے گھٹی ملنے سے لے کر اس دم تک میں نے صرف زبیر ہی کے ساتھ ناشتہ کیا تھا ۔
کمرے کی حد سے باہر کوئی ایسا معمول بنانے کی اجازت اس گھر میں نہیں ۔
انھوں نے میرے رومان کے گرد خاردار تاریں لگانے کی کوشش کی ۔زبیر سر جھکائے ناشتہ کرتا رہا اور تمام حاضرین خصوصاََ عورتیں تمسخر بھری نگاہ سے میری گوشمالی دیکھنے میں مگن رہیں ۔ ان مسکراتی نظروں میں اڑتے چیتھڑے میرے تن بدن میں آگ لگا گئے۔

تم میرے ساتھ ناشتہ کرو گے بھلے یہاں بھلے کمرے میں ۔ میں نے تنہائی میں اس کے دستیاب ہوتے ہی اپنا فیصلہ سنا دیا ۔
ہمارے گھر کی یہ روایت نہیں ہے ابا جی پرانے خیالات کے آدمی ہیں، اس نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی لیکن میں ہتھے سے اکھڑ گئی۔
او کم آن یار میں نے ابا جی سے نہیں تم سے شادی کی ہے، اور میں ایسے کسی اصول کو نہیں مانتی۔ تم مہینے کے تین ہفتے ملک سے باہر رہتے ہو اور مجھے اس باہر رہنے کی ضرورت ہے نہ یہ میری خواہش ہے، بھلے تم چھوڑ کر آ جاؤ سب کچھ میں تمہارے ساتھ کو کافی سمجھ سکتی ہوں ۔میں کوئی ڈیمانڈنگ عورت نہیں ہوں لیکن بطور عورت میں بہت ڈیمانڈنگ ہوں ۔ مجھے تمہارے ساتھ کھانا اور سونا ہے اس پر کوئی کمپرومائز نہیں ہے ۔چاہے کوئی پسند کرے چاہے نہیں، مجھے تم چاہیے ہو کمرے سے باہر اور اندر میرا ایشو نہیں ۔
وہ سمجھ گیا اور ہم نے کھانا ناشتہ سب کمرے میں کرنے کا معمول بنا لیا ۔

شروع شروع میں تو گویا بھونچالی کیفیت رہی لیکن اس بات پر میں بے لچک تھی ۔میں اس کے پیسے دے سکتی تھی لیکن اپنے حصے کا وقت کسی قیمت پر نہیں ۔ اصولوں پر چلنے والی ہوتی تو میری شادی مڈل پاس کرنے کے بعد ہو جاتی اور جس عمر میں میری اپنی شادی ہوئی میں اپنے بچوں کے رشتے دیکھ رہی ہوتی ۔ مجھے محبت کی شادی کر کے اپنی مرضی سے رہنا تھا، سسرال والوں کی مرضی سے نہیں

کرونا لاک ڈاؤن کے دوران جہاں میں نے بہت کچھ تبدیل کیا وہیں کمرے کی بجائے ناشتہ کھانا کچن میں شروع کیا ۔۔یہ فیملی کے ساتھ تعلقات کی نوعیت بہتر بنانے اور اپنا بیڈ وومین کا تاثر کم کرنے کی کوشش تھی تاکہ فیملی سسٹم میں موجود مسائل کو دیکھتے رہنے کی بجائے ان کے حل کیلئے کوئی کوشش کی جا سکے۔
ہم موڑھوں پر بیٹھے ڈنر کر رہے تھے جب اس نے کھاتے کھاتے بڑے دلار سے کہا ۔
اچھا۔۔ دیتا ہوں ۔
میں نے بات اگنور کر دی کہ اس کے بھتیجے بھتیجی اس کے ساتھ ساتھ بلونگڑوں کی طرح رہتے ہیں ۔
اچھا نا صبر کرو سالن بھی لگاتا ہوں ۔
اس نے ایک لقمے پر سالن لگا کر فرش پر میاؤں میاؤں کرتی بلی کو دیا، بلی فوراَ ہڑپ گئی اور اپنی میاؤں میاؤں سے میرا میاں اپنی طرف متوجہ کر لیا ۔
اب میں چونکی۔ بلی ہو یا کتی اس کی توجہ صرف مجھ پر رہنی چاہیے ۔
ابے کیا کر رہا ہے تُو، اپنا کھا نا کھا یار، بلی تو ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتی ہے ۔
اچھا، اچھا ۔۔دے رہا ہوں ۔یہ لو۔
پہلی مختصر ترین اچھا میرے لئے اور باقی سارا جملہ شہد میں ڈوبا لہجہ بلی کے لئے تھا ۔کہا ہے نا کہ اسے باہرلی بہت سی بیماریاں لاحق ہیں ۔

میں بھی بُری نہیں اچھا خاصا نیک دل رکھتی ہوں اور مجھے اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ وہ بلی کو کھانا کھلائے، مسئلہ اور اعتراض صرف بلی سے اس کی گفتگو کا ہے۔ گھر کے دیگر افراد بلی کو اس کی میاؤں میاؤں پر روٹی دیتے ہیں مگر یہ کمپنی بھی دیتا ہے اور تسلی بھی ۔یہ مجھے گوارا نہیں کہ وہ ہر کتی بلی کو وقت تسلی اور کمپنی دے، اس معاملے میں میری اپنی فطرت بہت عجیب ہے ۔

یہ سلسلہ جب پیچ در پیچ پھیلتا چلا گیا تو میں نے کھانے کے دوران باقاعدہ لڑائی کرنا شروع کر دی ۔دیورانیاں پہلے پہل مذاق سمجھتی رہیں لیکن جب اس کا اور میرا معمول ایک ہی رہنے لگا تو انھوں نے بھی سیریس لینے کی کوشش محسوس کی۔

بھابھی کیا ہو گیا ہے، بلی ہی ہے، بھائی ہوراں کا ویسے بھی جانوروں سے بڑا جوڑ( لگاؤ) ہے ۔
مجھے نہیں پسند اس کا جوڑ(جڑت) اپنے علاوہ کسی بھی مادہ سے ۔ میں نے لہجے میں ذرا سی بھی لچک نہ دکھاتے ہوئے کہا ۔
روٹی سب کھلاتے ہیں بلیوں سے باتیں کس خوشی میں کرتا ہے، اتنے پیار سے یہ صرف مجھ سے بولتا ہوتا ہے میں یہ شراکت گوارا نہیں کرسکتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

توبہ تسی تے بلیاں تو وی جیلس ہوندے او، چھوٹی دیورانی نے ہنستے ہنستے کہا اور میں جانے کس زخم کی کسک محسوس کرتے ہوئے کہہ گئی۔
اصل میں کسی نے ہماری شادی کا سن کر کہا تھا نا کہ زبیر پتہ نہیں کیہڑی کتی بلی ویاہ لئی اے، تو جب بلی کا الگ وجود تسلیم ہوتا ہے تو مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے میں صرف کتی رہ گئی ہوں ۔ کچن کی دھندلی سردشام میں مَیں اور زبیر دونوں زخمی ہنسی ہنس پڑے، مگر عجیب بات ہے ہمارے علاوہ کوئی ہنسا نہیں، زخمی ہنسی تک نہیں ۔
جاری ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply