کیا منظور پشتین غدار ہے؟۔۔۔ ہمدرد حسینی

بہت سے لوگوں کو حیرت ہے کہ منظور پشتون کا اچانک ظہور اور مدت قلیل میں خیرہ کن عروج کیسے ممکن ہے. یہ ضرور بیرونی سازش ہے اور اس میں لازمی طور پر غیرملکی ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔مگر یہ اعتراض درحقیقت سماج اور انسانی معاشروں میں پیداہونے والی تبدیلیوں کے اسباب سے عدم واقفیت کی دلیل ہے. کوئی بھی بیرونی ایجنسی نہ تو کسی کو عوامی مقبولیت دلواسکتی ہے اور نہ ہی کوئی بیرونی فنڈنگ کسی شخصیت یا کاز کو فیصلہ کن پوزیشن پر لاسکتی ہے. یہ درحقیقت ایک لمبے پراسیس اور اسباب کے ایک طویل سلسلےکا نتیجہ ہوتا ہے جو اچانک کسی شکل میں ظہور کرکے سب کچھ تلپٹ کردیتا ہے۔۔۔انقلاب  فرانس کے ہنگام ملکہ کا یہ فرمان کہ احتجاجیوں کو اگر روٹی نہیں ملتی تو وہ کیک کیوں نہیں کھاتے اور اس فقرے سے آگ لگ جانا کچھ اس بیان کا اعجاز نہ تھا بلکہ وہاں پھیلی ہوئی طویل ناانصافیوں کے اونٹ پر بوجھ کا آخری تنکا تھاجس نے انقلاب فرانس کی شکل میں سب کچھ تہہ و بالا کردیا.

ایسی سینکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں الغرض کوئی بھی حادثہ ایک دن نہیں ہوتا بلکہ فلک کی کوکھ میں برسوں اس کی پرورش ہوتی ہے تب جاکر اس حادثے کی ولادت ہوتی ہے.
ناانصافیوں اور انسانی تذلیل کے ایک طویل سرنگ کے دہانے پر منظور پشتین روشنی کے ایک ہالےکی مانند نمودار ہوا ہے تو اس میں حیرت زدہ ہونے کی ضرورت نہیں.برسوں پہلی عطاالحق قاسمی نے سکول کے ایک استاد کا خط شائع کیا تھا اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی سے اپیل کی تھی کہ اس کا ازالہ کیا جائے۔۔خط میں مذکورہ استاد نے ایک فوجی چیک پوسٹ پر ان کے ساتھ بیتنے والی روداد بیان کی تھی کہ کس طرح ایک معمولی بات پر اسے گاڑی سے اتارا گیا اور تھپڑ مارا گیا جس نے اس کے چہرے پر نہیں اس کے روح پر چوٹ لگائی.

بجائے اس کے کہ اس قسم کی شکایات کا ازالہ کیا جاتا یہ واقعات مسلسل بڑھتے رہے.پشتونوں کے کلچر اور روایات کو پیش نظر رکھے بغیر ان کی تذلیل مسلسل جاری رہی۔۔کون ہوگا جس نے یہ کڑوا گھونٹ نہیں بھرا.وزیرستان کے پہاڑوں میں دونوں طرف کے سورماؤں  نے انتقام در انتقام کی ایسی خوفناک مثالیں قائم کیں جو اگر کبھی منظر عام پر آئیں تو رونگھٹے کھڑے ہوجائیں.

جب کراچی اور ملک کے دوسرے شہروں کی سڑکوں پر ماورائے عدالت باریش نوجوانوں کی اپنے ہی خون میں لتھڑی ہوئی لاشیں روز ہماری میڈیا کی زینت بننے لگیں تبھی ہمارا ماتھا ٹنکا تھا کہ ہم عذاب خداوندی کے ایسے حصار میں پھنسنے کیلئے آگے بڑھ رہے ہیں جس سے نجات کی صورت ہمیں پھر نظر نہیں آئےگی۔۔۔شامت اعمال ما صورت نادر گرفت۔

منظور پشتین نہ ہوتا تو خدا کسی اور کو کھڑا کرتا جو انصاف کی صدا بلند کرتا اور ہمارے لئے اتمام حجت کا سامان بنتا۔۔وقت بہت نازک ہے۔یہ کہنا کہ منظور پشتین غدار ہے یا اس کے ساتھی غدار ہیں انتہائی احمقانہ رویہ ہے اس پر مستزاد پشتونوں کو من حیث القوم غداری اور دہشت گردی کے طعنے دینا نہ صرف ظلم ہے بلکہ اس ملک کے ساتھ غداری ہے۔پشتون مزید اپنے چوکیداروں کو اپنا مالک نہیں سمجھ سکتے .ہر کسی کو اپنی اوقات میں رہنا ہوگا۔

منظور پشتین کے مطالبات کا من حیث القوم ساتھ دینا ہوگا۔اسے صرف پشتون کا مسئلہ سمجھ کر نظر انداز کرنے یا غیر اخلاقی انداز میں اس کا راستہ روکنے کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے.حب الوطنی کے مصنوعی بخار میں مبتلا ہوکر ان پر غداری کے فتوے لگانا تو حماقت کی انتہا ہوگی۔آرمی اور بوٹ پرستی کی مجنونانہ کوششیں مضحکہ خیز اور بے نتیجہ ثابت ہوں گی. اسٹیبلشمنٹ کو اپنے رویئے پر نظر ثانی کرنی ہوگی

اپنی قوم کے ساتھ ان کا وہی رویہ ہے جو مفتوح قوم کے ساتھ بیرونی فوج روا رکھتی ہے۔ کشمیریوں کے ساتھ بھارتی اور فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل والا سلوک کسی بھی طور پر ہمیں منظور نہیں  ہے۔ اس عمل کی کوئی بھی توجیہ ممکن نہیں  ہے۔۔۔ اس حقیقت سے انکار کوئی اندھا ہی کر سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نائن الیون کے بعد پشتونوں کو بحیثیت قوم اپنے مد مقابل گردانتی آرہی ہے اور وہی سلوک کر رہی ہے جو غیر کے ساتھ روا رکھا جانا چاہیے ۔ بیرونی دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی قوم کا دل جیتنا اور اسے مطمئن رکھنا بے حد ضروری ہے۔ ہم پوری فوج کو غلط نہیں  ٹھہرا سکتے مگر اس بات سے انکار کی گنجائش نہیں  ہے کہ فوج میں بے شمار لوگوں اور جنرلز کی ذہنیت قوم کو محکوم رکھنے کی ہے۔ جو مجموعی طور پر فوج کے کردارکو متاثر کر رہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دہشت گردی کے پیچھے وردی کے مقبول ہوتے ہوئے نعرے کو لطیف سے لطیف الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ۔۔۔اے باد صبا ایں ہمہ آوردہ تست۔اس پر کسی اور نشست میں بات ہوگی!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply