خوشا وہ دن۔۔حلیمہ

نیند پوری کرنا چونکہ ضروریاتِ زندگی میں شامل ہے ،سو رات کے کسی پہر ہوٹل میں جا کر سو جایا کرتے تھے۔ معمول کے مطابق اُس دن بھی کچھ عبادت کے بعد جا کر ہوٹل میں سو گئے تھے۔ تہجد کا وقت تھا اور والدہ کی آواز کانوں میں پڑی ۔۔بیٹا اُٹھو کعبہ کو دیکھنے کا جی چاہ رہا ہے، چلتے ہیں ،اور موسم بھی بہت خوشگوار ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے بارانِ رحمت آج خوب برسنا چاہتی ہے۔

یوں تو راقم الحروف نیند کے نہایت پکے ہیں مگر اُس روز مکہ مکرمہ کی صبا ،کعبے کی خوشبو کا کچھ حصہ ساتھ لیے جھوم رہی تھی۔ اُس رات میں کچھ تھا۔۔ اُس پاکیزہ صبا اور ماں کی شفقت بھری آواز نے باہم مل کر ایسا اثر  دکھایا  کہ اب مزید سونے کی خواہش نہ رہی۔ اُٹھ کر  کھڑکی سے جھانکا تو کچھ پل کے لیے آنکھیں بند کر لیں، کہ جیسے اُس لمحے کو پلکوں نے چومنا چاہا ہو اور لمبی سانس لی۔ اس حسرت سے کہ ہمیشہ کےلیے یہی ہوا تن من میں بس جائے۔

اب والدہ نے جلدی چلنے پر اصرار کیا تو میں  نے  وضو کیا، ضرورت کی اشیاء اٹھائیں اور چل دیئے۔ لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ رہے ہیں اور انگلیاں خود کو گناہ گار  سمجھتے ہوئے یہ بتانے جا رہی ہیں کہ وہ سفر مالکِ دو  جہاں کے گھر کی جانب تھا۔ اللہ اللہ۔۔

ہوٹل سے پانچ منٹ کے فاصلے پہ ربِ رحمت اللعالمین کا گھر تھا، یعنی کعبہ معظم۔ ہوٹل سے باہر قدم رکھا تو ہلکی سی چھینٹ یہ اطلاع دینے کے لیے ہاتھ پہ آ پڑی کہ بادل آج ربِ کائنات کے گھر کے شہر میں برسنے کی اجازت لے چکے ہیں۔

اب والدہ کے عشق کی تڑپ اور بڑھی اور اونچے سے یہ کلمات کہتے ہوئے رفتار کچھ تیز کر لی یا اللہ ! آج اپنے گھر میں تیز بارش دیکھنے کا موقع دے۔ یا اللہ ! بارش کھُل کے برسا اور ہمارے عیبوں کو دھو ڈال اور نجانے کیا کیا۔

مصنف کے اوسان کچھ خطاء تھے کیونکہ اُسکی زندگی کی بڑی خواہشات میں سے ایک مقدس خواہش بُرے اعمال کے باوجود پوری ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔ سو جب والدہ کی یہ صدائیں کان میں پڑیں تو کچھ ہوش آیا کہ ابھی خواہش مکمل پوری نہیں ہوئی ،ابھی رب سے مزید مانگنا ہے۔ سو موصوف نے بھی کلمات دہرانا شروع کردیے۔

الفاظ کے چناؤ کے معاملے میں یہ لکھتے ہوئے خود کو اَن پڑھ محسوس کر رہا ہوں۔ مسافت ختم ہوئی، قدم صحنِ حرم میں پڑا، نظریں کعبے پر ٹکی ہوئیں، دل اور دماغ دنگ حالت میں شاید کچھ دیر کے لیے ساکت ہو چکے تھے ،کیونکہ صحنِ حرم میں قدم کا رکھنا تھا کہ بارش نے زور پکڑ لیا۔

طواف شروع کیا، کچھ مانگنا تھا ؟

مجھے کچھ چاہیے تھا ؟

ایسا کچھ یاد نہ رہا۔۔۔۔۔ محسوس ہوا کہ سب مل گیا آج۔

اُس دن احساس ہوا کہ انسان کی روح تو بس یہ مانگتی ہے جو آج آنکھوں کے سامنے ہے اور جب روح کی طلب پوری ہو تو سکونِ قلب بڑھتا ہے اور سکونِ قلب کے آگے ہر دنیاوی شئے وقعت کھو بیٹھتی ہے۔ کچھ اپنی خواہشات پر نظر ڈالنا چاہی تو لگا جیسے کوئی پہاڑ پہ کھڑا چیونٹی کو تک رہا ہو۔

سات چکروں کے درمیان بارش نے زور پکڑے رکھا۔ زبان سے تو بس کچھ ہی کلمات نکلے “یا اللہ ! اس بندہِ نا چیز کی ایسی خواہش پوری کردی؟ جس خواہش کو دل میں رکھتے ہوئے کبھی اُسکے پورا ہونے کا یقین اُسے خود بھی نہ تھا “۔ ۔اور کچھ معافی اور شکر کے کلمات۔

مصنف نے والدہ کے ساتھ اُس منظر کا خُوب لطف اٹھایا اور ہمیشہ کیلئے اُس منظر کو دل و نظر میں سمو لیا۔
وہ کیفیت کبھی قلم سے لکھی، آنکھ سے دیکھی، کان سے سُنی، منہ سے سُنائی، عقل سے سمجھی نہیں جا سکتی جس پر ایسا یا کچھ ایسی بیتی وہ شاید محسوس کر سکتا ہے۔

مزید کچھ تحریر کرنے کی سکت نہیں۔ خُدا ہر مسلمان کو وہ کیفیت چکھنے کا موقع دے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

“خوشا وہ دن حرمِ پاک کی فضاؤں میں تھا”

Facebook Comments

Haleema Bibi
Student

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply