سب سے پہلے تو جماعت اسلامی کے تمام محبان سے دلی معذرت کہ جنہیں میری کل کی تحریر سے اس لئے دکھ ہوا کیوں کہ اس میں سماء چینل کی ایک مبینہ جعلی کلپ میں ظاہر کردہ بریکنگ نیوز کے حوالے سے امیر جماعت سراج الحق پر تنقید کی گئی تھی- مبینہ طور پہ سماء نیوز کی طرف سے اس جعلی کلپ میں یہ خبر دی گئی تھی کہ کہ امیر جماعت نے بلاول کے ساتھ میڈیا بریفنگ کے دوران یہ کہا ہے کہ وہ کرپشن کی جنگ پیپلز پاسرٹی کے ساتھ لڑیں گے۔۔ بعد میں اس پوسٹ کی مخالفت میںچند ریمارکس آئے توخاکسار نے یہ چیک کیا کہ جماعت کی طرف سے اس خبر کی تردید کب آئی اور کس بڑے چینل اور کس مؤقر ویب سائٹ پہ پیش کی گئی، تو مجھے یہ دیکھ کے سخت حیرانی ہوئی کہ سوائے ایک جگہ کے ، کہیں بھی یہ تردید موجود نہ تھی اور وہ بھی کئی گھنٹوںکے بعد کی گئی تھی، جبکہ جماعت ملک کی اس سطح کی جماعت ضرور ہے کہ وہ اگراس حوالے سے فوری تردیدی خبر چینلوں کو جاری کرتی تو کوئی بھی اسے نظرانداز نہیں کرپاتا ،کیونکہ چینلوںمیںتو خبروں کے حصول کی سخت مسابقت کا عالم ہے اسی طرح وہ ٹویٹر اور فیسبک کے معروف پپیجز پہ بھی اس کی فوری تردید کو ٹیگ کرکے اس جعلی خبر کا غبارہ پھوڑ سکتی تھی ۔۔ جبکہ اس جماعت کے وسائل اور اسکے سوشل میڈیا کی تیز پیشرفت کی جانی مانی صلاحیت سے سبھی اہل نظر واقف ہیں۔
مجھے امید ہے کہ جماعت اسلامی اپنی سست رو تردید کی اس درجہ سستی سے اجراء کی وجہ سے بالضرور آگاہ کرنا پسند کرے گی،اور جواب ضرور دے گی، کیونکہ اس سے یہ شک بھی کیا جاسکتا ہے کہ جماعت جان بوجھ کے اس اقدام سے گریزاں اس لیے رہی کیونکہ کافی دیر اس تذبذب میں رہی کہ کہیں اس سے پیپلز پارٹی ناراض نہ ہوجائے ۔ ایک سوال اسی نسبت سے یہ بھی کرنا چاہتا ہوں کہ بلاول ، سراج ملاقات کی خبر دیتے ہوئے ایک نہیں کئی اخبارات میں یہ اطلاع بھی دی گئی ہے کہ جماعت نے بلاول کے منانے پہ اپوزیشن لیڈر کی سیٹ کے لئے مریم کے مقابلے میں یوسف رضاء گیلانی کو ووٹ دینے کی حامی بھرلی ہے اور تاحال اس خبر کی کہیں سے بھی تردید نہیں آئی ہے۔
اگر ایسا ہے تو پھر یہ اقدام بھی اتنا ہی افسوسناک ہے کہ جتنی جعلی کلپ کی خبر ۔۔ اس سے جہاں سراج الحق ایک طرف چھوٹی برائی کے مقابلے میں بڑی برائی کو ترجیح دے رہے ہیں وہیں یہ حقیقت بھی نظرانداز کررہے ہیں کہ گیلانی اپنی بدعملی کے باعث سپریم کورٹ سے سزا یافتہ مجرم ہے اور یہی وہ شخص ہے کہ جسکی وزارت عظمیٰ کے دور میں اس نے اور اسکے بیٹوں نے قومی خزانے کو شِیرِمادر کی مانند ڈکارا تھا۔
یہاں ایک نظر جماعت کے ووٹ کی مبینہ حمایت پانے والے یوسف رضاگیلانی کے کارناموں پہ ڈال لینا مناسب ہے۔ ان حضرت نے اپنے دور میں سنت زرداری پہ عمل کرتے ہوئے اپنے بدعنوان بیٹوں کے ساتھ ملکر اس ملک کو اپنی مالی چراگاہ بناڈالا تھا ۔کون بھول سکتا ہے کہ ملک کے اٹھارویں وزیراعظم کے طور پر پہ چار برس اور ایک ماہ تک چلنے والے اپنے دور میں ہوئے رسوائے زمانہ حج کرپشن سکینڈل کو جس میں اسکے لگائے ہوئے ٹاؤٹوں نے حاجیوں تک کو نہیں چھوڑا تھا ،اور جی بھر کے لوٹا تھا ،اسی کے دور میں انکے بیٹے کے ایک دوست زین سکھیر نامی انٹر پاس کو آئی ٹی آپریشنز جیسے اہم ادارے کا سربراہ لگا دیا تھا جس میں اس نے اربوں روپے لوٹ کھائے تھے ۔ اور اسی طرح انٹر پاس توقیر صادق کو آئل اینڈ گیس کارپوریشن ( اوگرا) اس کا چیئرمین تعینات کیا تھا جس نے تھوڑی سی مدت میں قومی خزانے کو کم از کم 12 ارب روپے کا چونا لگا دیا تھا ۔جی ہاں گیلانی ہی وہ شخص ہے جس کے دور میں نیشنل انشورنس کارپوریشن کے چیئرمین کےعہدے پہ دبئی کے ایک نائٹ کلب کے منیجر اکمل نیازی کو جو ایک انٹر پاس شخص تھا، اسے اس اہم کارپوریشن کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا، جہاں اس نے آتے ہی اربوں روپے ڈکار لیے تھے۔
خود گیلانی صحاحب پہ یہ الزام ہے کہ انہوں نے طالبان سے مالی نوعیت کی ڈیل کرکے انہیں کروڑوں روپے کا چونا لگا دیا تھا جسکی پاداش میں اس کے صاحبزادے علی حیدر گیلانی کو اغواء کرلیا گیا تھا اور پھر بہت کچھ دے دلا کے اسے رہائی مل پائی تھی ۔یہی وہ حضرت ہیں کہ جن کے دور میں سنہ 2010میںسندھ میں بدترین سیلاب آیا اور ترکی کی وزیراعظم تانسو چلر نے اپنا بیش قیمت ہار بطور امداد حکومت کو بھیجا تو موصوف اسے گھر لے گئے اوراپنی بیگم فوزیہ گیلانی کو بطور تحفہ دے ڈالا اور جب انکی حکومت کے ختم ہونے کے کئی برس بعد اس ضمن میں انکشاف ہوا اور تحقیقات ہوئیں تو یہ چوری شدہ ہار برآمد ہوسکا ۔ اسی طرح ریکارڈ کے مطابق یہ گیلانی ہی ملک کا وہ واحد وزیراعظم ہے کہ جس نے مسند سنبھالتے ہی ملتان میں اپنی ذاتی وسیع و عریض رہائش گاہ کے گرد سرکاری خزانے کے 10 کروڑ روپوں سے بہت بڑی مستحکم قلعہ بند قسم کی دیوار بنوائی تھی جس کی مالیت کا تخمینہ آج 30 کروڑ روپے کے لگ بھگ ہے ۔
گیلانی کے اس پس منظر کی روشنی میں مجھے اور مجھ جیسے وطن عزیز کے نظریاتی محافظوں کو آخر کیوں یہ دکھ نہیں ہوگا کہ جماعت نے اسی بدعنوان گیلانی کی حمایت میں اپنے ووٹ کا فیصلہ کُن وزن ڈالنے کا ارادہ کرلیا ہے جس کی خبر کئی اخبارات میں موجود ہے ۔۔۔ آخر کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے ۔
اس اعلان سے پہلے سینیٹ میں چیئرمین کے الیکشن کے موقع پہ سراج الحق نے کسی فریق کو ووٹ نہ دینے اور غیرجانبدار رہنے کا جو فیصلہ کیا تھا وہ بہت احسن تھا اور میرا دل چاہ رہا تھا اسکی تحسین کروں مگر میرا دماغ یہ کہ رہا تھا کہ چونکہ یہ معاملہ ایک ووٹ پہ منتج نہیں ہونا لہٰذا انکے اس ایک ووٹ کی زیادہ اہمیت نہیں ، بلکہ اصل اہمیت تو اپوزیشن لیڈر کے انتخابی مرحلے کی ہوگی کہ جب معلوم شدہ حقائق کی رو سے جماعت کو چھوڑ کردونوں فریقوں کے پاس ووٹوں کی تعداد مساوی ہوگی کیونکہ یہ انتخاب کھلے عام اور شو آف ہینڈز کے تحت ہونا ہے اور ایسے میںجماعت کا ووٹ فیصلہ کُن ہوگا اور مجھے پورا خدشہ تھا کہ اہم امیر جماعت یہاں بھرپور ٹھوکر کھائیں گے اور اس اعلان نے یہی ثابت بھی کیا ۔
چونکہ یہ تحریر طویل ہورہی ہے چنانچہ سراج الحق کے فیصلوں، جماعت کے ساتھ اپنے ماضی و حال کے رویے اور تعلق اور متعلقہ امور پہ انشاء اللہ پھر دوسری تحریر میں بات ہوگی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں