بدن (43) ۔ انسولین/وہاراامباکر

ذیابیطس ایک بری بیماری ہے۔ لیکن کسی وقت میں یہ بہت زیادہ بری ہوتی تھی کیونکہ اس کے بارے میں کچھ کیا ہی نہیں جا سکتا تھا۔ اس کی تشخیص کے ایک سال کے اندر مریض کی تکلیف دہ موت ہو جاتی تھی۔ جسم میں شوگر لیول قابو رکھنے کا واحد طریقہ یہ تھا کہ مریض خوراک سے دور رہے اور بس اتنا ہی کھائے جو بمشکل زندہ رکھ سکے۔ اس سے مرنے والے لوگ فاقہ زدگی میں مرتے تھے۔ اور زندگی کو بڑھانے کا یہی طریقہ تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر 1920 کی دہائی کے آخر میں ایک خوبصورت اتفاقی واقعہ ہوا۔ ایک نوجوان ڈاکٹر فریڈرک بانٹنگ نے میڈیکل کے جریدے میں اس بارے میں ایک مضمون پڑھا۔ انہیں تحقیق کا کوئی تجربہ نہیں تھا اور نہ ہی مرض سے واقفیت تھی۔ انہوں نے اس پر کام کرنے کا ارادہ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لبلبے کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس میں دو بالکل الگ فنکشن ہیں۔ زیادہ تر حصہ ایسے انزائم بناتا ہے جو ہاضمے میں مدد کرتے ہیں لیکن اس میں خلیات کے گھچے ہوتے ہیں جو لانگرہان کہلاتے ہیں۔ ان کا فنکشن ایک کیمیکل پیدا کرنا ہے جسے آج ہم انسولین کہتے ہیں۔
انسولین ایک چھوٹی پروٹین ہے جس کا خون میں شوگر کا نازک توازن برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ہے۔ اس کی کمی بیشی کے نتائج جسم کے لئے بہت برے ہوتے ہیں۔ اس کا ایک مالیکیول صرف پانچ سے پندرہ منٹ رہتا ہے۔ اس کو دوبارہ بنانے کی مانگ مسلسل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
بانٹنگ کے وقت میں انسولین کے ذیابیطس کے ساتھ تعلق کا تو علم تھا لیکن مسئلہ اس کو ہاضمے کے عرقیات سے الگ کرنے کا تھا۔ بانٹنگ کو یقین تھا (جس کے پیچھے کچھ بھی شواہد نہیں تھے) کہ اگر لبلبے کی نالی کو باندھ دیا جائے اور ہاضے کے جوس کو آنت تک پہنچنے سے روک دیا جائے تو لبلبہ انہیں بنانا روک دے گا۔ ایسا سمجھنے کی کوئی بھی وجہ نہیں تھی لیکن انہوں نے ایک پروفیسر کو قائل کر لیا کہ وہ اس پر تجربات کرنے کے لئے جگہ، اسسٹنٹ اور کچھ کتے دے دیں جن پر تجربات کئے جا سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
بانٹنگ کے اسسٹنٹ ہربرٹ بیسٹ تھے جنہیں اس کا بالکل تجربہ نہیں تھا اور نہ ہی ذیابیطس کا کوئی علم تھا۔ لیکن ان دونوں نے کتوں پر تجربات شروع کر دئے اور حیران کن طور پر اچھے نتائج سامنے آئے۔
کسی مبصر نے اس پر لکھا ہے کہ “یہ تجربات غلط تصور کے طور پر تھے، غلط طریقے سے کئے گئے تھے اور اس کے نتائج غلط اخذ کئے گئے تھے”۔ لیکن چند ہی ہفتوں میں انہوں نے خالص انسولین بنانا شروع کر لی۔
اور جب یہ ذیابیطس کے مریضوں کو دی گئی تو نتائج معجزاتی تھے۔ وہ مریض جو بمشکل زندہ تھے، واپس بحال ہو گئے تھے۔ یہ موت سے واپسی تھی۔
ایک اور محقق جے بی کولپ نے انسولین کشیدہ کرنے کا زیادہ موثر طریقہ معلوم کر لیا اور یہ اتنی مقدار میں بننے لگی کہ دنیا میں لوگوں کی زندگیاں بچائی جا سکتی تھیَ۔ انسولین کو میڈیکل سائنس کی عظیم دریافت کہا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
بانٹنگ کو اس دریافت پر 1923 میں نوبل انعام مک لیوڈ کے ساتھ دیا گیا۔ مک لیوڈ وہ پروفیسر تھے جنہوں نے لیب میں جگہ دی تھی۔ لیکن ان کا تجرباتی کام میں کوئی حصہ نہیں تھا اور جب اس کا اہم بریک تھرو ہوا تھا تو وہ سالانہ چھٹیاں گزارنے اپنے ملک گئے ہوئے تھے۔
بانٹنگ کے مطابق مک لیوڈ اس انعام کے مستحق نہیں تھے۔ انہوں نے اپنی انعامی رقم کو اپنے اسسٹنٹ کے ساتھ شئیر کیا۔ جبکہ دوسری طرف کولپ اور بانٹنگ کی بھی لڑائی ہو گئی کیونکہ کولپ اپنا طریقہ کسی کے ساتھ شئیر کرنے کو تیار نہیں تھے۔
ان سب لڑائیوں کے درمیان دنیا کو انسولین کا تحفہ مل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذیابیطس دو اقسام کی ہے۔ دراصل یہ دو الگ بیماریاں ہیں۔ ٹائپ ۱ جس میں جسم انسولین بنانا بالکل بند کر دیتا ہے اور ٹائپ ۲ جس میں بنائی جانے والی انسولین کم موثر ہوتی ہے۔ ٹائپ ۱ موروثی ہے جبکہ ٹائپ ۲ کا تعلق غیرصحت مند لائف سٹائل سے ہے۔ لیکن یہ اتنا سادہ نہیں۔ اس کا جینیاتی حصہ بھی ہے۔ ٹائپ ۱ کا تعلق HLA جین میں ہونے والی خرابی سے ہے۔ لیکن ایسا نہیں کہ جس میں بھی یہ خرابی ہو، اسے ذیابیطس ہو جاتی ہے۔ اس میں کوئی اضافی اور نامعلوم ٹرگر بھی ہے۔
لیکن ایک بات جو کہی جا سکتی ہے کہ ہر جگہ پر اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 1980 میں دس کروڑ لوگوں کو ذیابیطس تھی جبکہ یہ تعداد 2014 میں چالیس کروڑ تک پہنچ چکی تھی۔ ٹائپ ۲ کا تعلق غیرمعیاری خوراک اور غیرفعال لائف سٹائل سے ہے لیکن ٹائپ ۱ بھی بڑھ رہی ہے۔ ہر سال تین سے پانچ فیصد اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ کا ہمیں علم نہیں۔
انسولین ذیابیطس کے مریضوں کی زندگیوں کے معیار میں بہت بہتری لائی ہے لیکن یہ پرفیکٹ حل نہیں۔ ایک بات تو یہ کہ اسے منہ کے ذریعے نہیں دیا جا سکتا۔ اسے انجیکشن کے ذریعے ہی دینا ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ ایک صحت مند جسم میں انسولین کی سطح ہر سیکنڈ میں ایڈجسٹ ہوتی رہتی ہے جبکہ ذیابیطس کے مریض میں اس میں چڑھاو صرف اس وقت آتا ہے جب مریض دوا لے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی سطح ہمیشہ ٹھیک نہیں ہوتی اور اس کا مجموعی طور پر منفی اثر ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply