لکھنا و بیان کرنا فن سے زیادہ عبادت ہے

لکھنا بہت بڑی ذمہ داری ہے، اس کا مطلب ہے جو شخص لکھتا ہے, وہ اس بات کا خاص خیال رکھے کہ اس کی تحریر پڑھنے کے بعد معاشرے میں اعلی اخلاقی, سماجی و علمی اقدار فروغ پائیں، لکھنے والا اپنے قلم کی طاقت سے معاشرتی رویوں کی سمت کا تعین کرتا ہے۔ لکھنے والے کے قلم سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ امانت ہے۔ ہم جب اپنی سوسائٹی پہ غور کرتے ہیں تو منفی سرگرمیوں کی بھرمار نظر آتی ہے۔ جہاں اس کی وجہ بڑھتی ہوئی سرمایہ دارانہ سوچ ہے، وہاں اس کی ایک وجہ میڈیا بھی ہے۔ میڈیا کے ذریعے لوگوں کے جذبات سے کھیلا جاتا ہے, کسی بھی واقعہ کو اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے معلومات کے برعکس ترغیب دی جا رہی ہو, معاشرے کو اکسایا جا رہا ہو, تعلیم دی جا رہی ہو کہ یوں بھی ہو سکتا ہے۔ اس کا نتیجہ ہمیں معاشرے میں بڑھتی ہوئی شدت پسندانہ سوچ کی صورت میں مل رہا ہے۔ ہم انسان ہیں مگر جب ہم اپنی سماجی زندگی پہ نظر دوڑاتے ہیں تو یونہی ہمارے ذہن میں خیال آتا ہے”نہ جانے کب ہم انسان بنیں گے” پھر سوچتے ہیں شاید تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہماری یہ حالت ہے، مگر دوسری طرف جب تعلیم یافتہ طبقے کو دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ سارے فساد کی جڑ ہی یہ تعلیم یافتہ طبقہ ہے۔ مقصدِ تعلیم صرف اور صرف کسی بہت بڑی نوکری كا حصول ہے۔ تعليم کا ہمارے اخلاق ہماری روزمرہ کی سماجی ضروریات اور عملی زندگی سے دور دور کا واسطہ نہیں۔ جتنی زیادہ ڈگریاں یا جتنی بڑی ڈگری اتنی ہی بڑی نوکری اور اتنا ہی زیادہ بے حسی، بے رحمی و لاعلمی کا مظاہرہ دیکھنے کو ملے گا۔
ہم تعلیم حاصل کرتے ہیں دھاک بٹھانے کے لئے, پڑھے لکھے لوگ نفس پرستی کا شکار نظر آتے ہیں, یوں لگتا ہے ہر شخص اپنے آپ کو عقل کل ثابت کرنے کی کوشش میں ہے۔ سوشل میڈیا پہ اکثر مباحثے چلتے رہتے ہیں اور کافی پڑھے لکھے اہلِ علم لوگوں کے مباحثے دیکھ لیجئے، اول تو انا پرستی نے انہیں اتنا جکڑا ہوا ہے کہ کسی بات پہ متفق ہی نہیں ہوتے۔ چاروناچار اگر کسی مسئلہ پہ بات کر بھی لیں تو سب سے پہلے اپنا علم جھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں، مد مقابل کو ہیچ ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور آخر میں فریقین ایک دوسرے کو ایسی ایسی باتوں میں الجھا تے ہیں کہ بات کہیں گم ہو جاتی ہے۔ مسئلہ کچھ ہوتا ہے بحث کچھ ہو رہی ہوتی ہے اور مدعا معلوم نہیں ہو پاتا ،اور جس مسئلہ پہ بحث ہو رہی ہوتی ہے اگر بغور دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ بات تو کسی بھی موضوع پہ نہیں ہو رہی، بس ایک لفظوں کی لڑائی ہے جو لڑی جا رہی ہے، سب سے مضحکہ خیز یہ کہ، ہم نے اپنی گفتگو کو جیت ہار کا مسئلہ بنایا ہوا ہے, سچائی تک رسائی سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، صرف اس پہ اکتفاء نہیں، بلکہ سونے پہ سہاگہ یہ کہ اگر کوئی کسی بات پہ پھنس جائے یا کسی سے کوئی ایسی ویسی بات منہ سے نکل جائے تو فریقین ایک دوسرے کو ذلیل و رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ عجیب بھونڈے انداز میں تضحیک آمیز رویہ سامنے آتا ہے کہ سامنے والا پریشان ہو جاتا ہے، اور ایک عجیب قسم کی منفی روش کا شکار ہو جاتا ہے, وہ علم حاصل کرتا ہے، چیزوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا ہے، اس لیے نہیں کہ اعلی اقدار کی ترویج کرے، بلکہ اس لئے کہ اس جانکاری کے ذریعے اپنی ہار کا بدلہ لے لوگوں کو نیچا دکھائے یعنی جو علم سب کے لئے نعمت و رحمت ہو سکتا تھا، ہمارے رویوں نے اسے وبالِ جان بنا دیا ہے۔
الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے لوگ کتابوں سے بہت دور ہو چکے تھے مگر پھر سوشل میڈیا کی بدولت پڑھنے کا رحجان بڑھ رہا ہے اور وہیں لکھنے والوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اس کے ساتھ المیہ یہ بھی ہے کہ لکھنے والوں کا رویہ انتہائی غیرذمہ دارانہ ہے۔ کسی بات, کسی واقعہ کو کیسے لکھنا ہے, کیا لکھنا ہے, کیوں لکھنا ہے, ایسے معلوم ہوتا ہے پتہ ہی نہیں اور نہ ہی جاننے کی کوشش کرتے ہیں بس ذہن میں خیال آیا اسے لفظوں کا پیراہن پہنایا اور سب کے سامنے سجا دیا۔ بلا سے اس لکھی ہوئی بات کا معاشرے پہ کیا اثر پڑے گا۔ یوں تو بہت سے واقعات ہیں لیکن تاحال ایک واقعہ ہمارے ملک کی یونیورسٹی میں ہوا, کہا جا سکتا ہے کہ طرفین کے لکھنے والوں نے لفظوں کے دریا بہا دئیے, بہت کچھ نظروں کے سامنے سے گزرا, مگر ایک تحریر بھی ایسی نہیں ملی جسے پڑھ کے یہ کہا جا سکے کہ یہ تحریر کسی ذمہ دارانہ سوچ کی غمازی کرتی ہے۔ لوگوں نے حق میں بھی لکھا اور مخالفت میں بھی اور طرفین کی تحاریر پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ دونوں طرف کے لکھنے والوں میں شدت پسندانہ سوچ کا عنصر ہاوی ہے یوں محسوس ہوتا تھا کہ کسی نے بھی نہیں سوچا کہ ان کے لکھے کا ہمارے معاشرے پہ کیا اثر پڑے گا, آیا اس سے مثبت پہلوؤں کی ترویج ہو گی یا منفی رحجان بڑھے گا۔ بس ہر ایک نے قلم اٹھایا شروع ہو گئے، قطع نظر اس کے کہ اس سے کیا سوچ پیدا ہو گی، اعلی معاشرتی اقدار پنپ سکیں گی یا معاشرہ مزید انحطاط کا شکار ہو گا۔
ہم انسان ہیں، اپنے آپ کو اعلی تصور کرتے ہیں، مگر جب معاشرے میں نگاہ دوڑاتے ہیں تو شرمندہ سے ہو جاتے ہیں، اکثر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اگر جانوروں کو کبھی عقل آ گئی تو ہماری کتنی تضحیک ہو گی ہم پہ کتنا ہنسیں گے کہ دیکھو یہ انسان ہے اس بات کا دعویدار ہے کہ یہ افضل و اعلی ہے نہ جانے کس بات کا زعم رکھتا ہے۔ ہمیں سیکھنے کی ضرورت ہے کہ علم کیا ہے، اس کا حصول کیوں ضروری ہے، مقصدِ علم کیا ہے، کسی سے علمی گفتگو کرنے کا کیا مطلب ہے، اپنا مافی الضمیر کیسے بیان کرنا ہے، کسی بھی موضوع کے سیاق و سباق, متن اور پیدا ہونے والے سوالات کے ضمن میں کیا میں اس قابل ہوں کہ بات کر سکوں, اگر بات کر سکتا ہوں تو ایسے اسلوب میں جو خالصتاً علمی گفتگو ہو, تبادلہ خیال ہو, نہ کہ کسی پہ سوچ مسلط کرنے کی کوشش کی جائے اور گفتگو کا مقصد صرف اور صرف حصول علم ہو۔ جب فریقین کسی موضوع پہ بحث کرنا چاہیں تو یہ جان لیں کہ بحث کرنا کسے کہتے ہیں, کیوں کی جاتی ہے, اس کے کیا فوائد و نقصانات ہیں, بحث کا مقصد علم جھاڑنا یا کسی کو نیچا دکھانا نہیں ہوتا, بلکہ کسی مسئلے کے حل کے لئے اہلِ علم کسی بات کے مثبت و منفی پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لئے بحث کرتے ہیں۔ معاشروں میں منفی و مثبت تمام طرح کے حالات پنپ رہے ہوتے ہیں اور لکھنے والا جب لکھنے لگے تو اس انداز سے لکھے کہ منفی پہلو کہیں دب کے رہ جائے اور منفی پہلوؤں سے نفرت سی ہونے لگے اور مثبت پہلوؤں کو اس انداز میں لکھیں کہ مثبت پہلو انتہائی نمایاں انداز میں واضح ہو جائیں بلکہ پڑھنے والوں میں مثبت پہلو کی طرف رغبت ہو منفی پہلوؤں کو اجاگر کرنا بہت ضروری ہے مگر اس انداز میں بیان کرنا کہ اس پہلو سے اجتناب کی بجائے اس پہلو کی طرف رغبت ہو جائے انتہائی افسوسناک ہے۔ لکھنا فن نہیں، عبادت ہے، عبادت میں خلوص شرط ہے۔ یوں سمجھیں کہ اپنے ہاتھوں سے اپنا نامئہ اعمال لکھ رہے ہیں۔ آپ کی تحریر کسی نہ کسی طور پہ معاشرے کی ذہن سازی کر رہی ہے۔ اگر لکھنے والے کی تحریر سے معاشرے میں اعلی اخلاقی، سماجی اور علمی اقدار نہیں پنپ رہیں تو لکھنے والے کو مزید پڑھنے کی ضرورت ہے, مزید محنت و لگن کے ساتھ اپنے آپ کو اس قابل بنائے کہ اس عظیم ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھا سکے۔

Facebook Comments

سانول عباسی
تعارف بس اتنا ہی کہ اک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply