پکچر ابھی باقی ہے۔۔ انجنئیر ظفر وٹو

پانی کی صورت حال کے حوالے سے ہمارے سارے اشاریے اس وقت منفی دکھا رہے لیکن الحمدللّٰہ پھر بھی پانی کے حوالے سے پاکستان کے لئے “گیم از اوور” والی صورت حال ابھی پیدا نہیں ہوئی۔ ہم شہنشاہ لوگ اپنی آنے والی نسلوں کے حصے کا پانی بھی استعمال (ضائع) کررہے ہیں لیکن ابھی بھی موقع ہے کہ ہم سنبھل سکتے ہیں۔

اہم فیصلوں کا وقت ہے۔ ایک راستہ خشک سالی ، قحط اور غذائی قلت کی طرف جاتا ہے تو دوسرا راستہ ہریالی، رزق کی کشادگی اور ملک کی ترقی کی طرف۔ انتخاب ہمارا ہے کہ ہم نے پہلے راستے پر اسی طرح چلتے رہنا ہے یا پھر دوسرے مگر سخت مشکل راستے کی طرف مڑنا ہے۔

پاکستان کے پانیوں کے حوالے سے گزشتہ دنوں دو بلاگز تحریر کرنے کا موقع ملا جن میں سے ایک انٹرنیشنل دریاؤں یعنی پڑوس سے پاکستان میں آنے والے پانی سے متعلق تھا اور دوسرا ملک کے اندر موجود پانی کی صورت حال اور اس کے استعمال کے متعلق
تھا۔ کمنٹس میں احباب بہت مایوس اور دُکھی نظر آئے لیکن پانی کے حوالے سے ابھی بھی ہم بہتر صورت حال میں ہیں۔ اصل ضرورت میسر پانی کے بہتر استعمال کی ہے۔

پاکستان کے پانیوں کی بہتر صورت حال کے اشاریے یہ ہیں

۱-ہمارے گلیشئیر محفوظ ہیں

دنیا بھر میں گلو بل وارمنگ یا عوامی تپش کی وجہ سے گلیشئیرز کے پگھلنے اور سمندر کے پانی کی سطح بلند ہونے کا شور ہے ۔ تاہم الحمدللّٰہ پاکستان کے حصے کے گلیشئیر اپنی بلندی اور لوکیشن کے لحاظ سے گلوبل وارمنگ سے سب کم یا بالکل متاثر نہیں ہوں گے انشااللہ۔ اگر کوئی ایسی صورت حال پیدا بھی ہوئی تو دنیا میں سب سے آخری متاثر ہونے والے گلیشئیر پاکستان کے ہوں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں انشااللہ برف پگھلنے سے ملنے والے پانی اسی طرح ملتے رہیں گے انشااللہ۔

۲- پاکستان کا بارش کا سالانہ چکر (سائیکل) کی وجہ سے بہت زیادہ تعداد میں بڑے ڈیموں کی ضرورت نہیں۔

پاکستان میں الحمدللّٰہ بارش کا سالانہ چکر تھوڑی بہت کمی بیشی کے ساتھ ریگولر ہے۔ بارش کے پانی کی ۸۵ فی صد تک آمد مون سون کے تین مہینوں میں ہوجاتی ہے جب کہ بقیہ ۱۵ فی صد سال کے باقی ۹ مہینوں میں ہوتی ہے ۔ ہماری پانی کی ضروریات (زرعی ضروریات) کا پیٹرن بارش کے پانی کے برسنے سے مختلف ہے اور ہمیں صرف ڈیمانڈ اور سپلائی میں فرق کو پورا کرنے کے لئے ڈیم چاہئیں۔ تاہم یہ ڈیم صرف سالانہ ڈیمانڈ اور سپلائی کے فرق کو پورا کرنے کے لئے چاہئیں ناکہ دو تین یا چار سال کے فرق کے لئے۔

۳- زراعت کے موجودہ طور طریقے بہتر کرکے منگلا اور تربیلا کی اسٹوریج سے زیادہ پانی بچایا جا سکتا ہے۔

پاکستان کے پانی کی سب سے بڑی کھپت زراعت میں ہے ۔ میسر پانی کا ۹۵ فی صد تک زراعت میں استعمال ہوجاتا ہے جس میں آدھا سطح زمین پر موجود پانی اور باقی آدھا زیرزمین پانی ہوتا ہے۔ جس سے زیر زمین پانی پر بھی بہت دباو پڑا ہے اور اس کئ سطح تیزی سے نیچے گئی ہے۔ کروڑوں سالوں کے ریچارج کے بعد بننے والی زیر زمین پانی کے یہ ذخیرے اب سالوں کی مدت میں تیزی سے خالی ہورہے ہیں اور ان کے ری چارج کے لئے بھی پھر بڑی لمبی مدت چاہیے۔

صرف اگر زراعت کے سیکٹر کو توجہ دی جائے تو استعمال ہونے والے پانی کے آدھے سے بھی کم حجم میں موجودہ سے زیادہ پیداوار لی جاسکتی ہے۔ اس کے لئے زراعت کے موجودہ فلڈ اری گیشن سسٹم کو چھوڑ کر ہائی ایفی شی اینسی سسٹم پر جانا ہوگا۔ پائپ سے ڈرپ آر گیشن اور فصلوں کی اچھے بیج اور اچھی اقسام کا چناؤ اور زراعت کے جدید طریقوں کو رائج کرکے ہم تربیلا اور منگلا ڈیم کے سائز کی اسٹوریج کا پانی بچا سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

لہذا ضرورت ہے کہ ہم ام مثبت اشاریوں پر کام کریں اور ساتھ ہی دریاؤں کے پانیوں پر اپنے حقوق واپس لیں۔ گیم از ناٹ اوور۔ پکچر ابھی باقی ہے۔ مایوس نہ ہوں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply