عید الاضحی اور تکہ پارٹیاں۔۔۔۔وسیم صدیقی

عید الاضحی کا دن عمومی طور پر گھر پر قربانی کرنے،گوشت بنانے اورقریبی رشتہ داروں اور ہمسایوں کو گوشت بانٹنے میںگزر جاتا ہے کیونکہ نوے فیصد گھرانے اس روز قربانی کا فریضہ ادا کر دیتے ہیں، جن دس فیصد گھروں میں عید کے دوسرے دن قربانی ہوتی ہے، وہ بھی صبح ہی صبح جانور کو ذبح کرکے فارغ ہوجاتے ہیں اور شام تک رشتے داروں کے یہاں گوشت باٹتے رہتے ہیں۔ ان دونوں ہی صورتوں میں زیادہ زور عزیزواقارب سے ملنے ملانے پر رہتا ہے۔ عید الاضحی کے دنوں میں گوشت کے پکوان کھانے کی روایت شاید اتنی ہی قدیم ہے، جتنی قربانی کی سنت۔ گھر میں قربانی ہو اور نئے نئے پکوان نہ بنیں ،یہ بھلا کس طرح ممکن ہے۔ بلاد العروس کی بات کریں، تو یہاں تکے کھانے اور پکانے کا رواج بہت پرانا ہے۔ عید کے دوسر ے دن بیشترشادی شدہ افراد سسرال کا رخ کرتے ہیں ،جہاں سہ پہر سے ہی تکوں کی تیاری شروع ہوجاتی ہے۔ دامادوں کو سسرال میں بنے تکوں کا سوچ کر ہی منہ میں پانی آجاتا ہے۔ ایسے میں بیٹیاں بھی اپنے میکے والوں کی طرف سے ہونے والی اس دعوت پر پھولے نہیں سماتیں۔ یوں تو تکوں کو رات کے کھانے میں پیش کیاجاتا ہے ،مگر اس کی تیاری سہ پہر سے ہی شروع ہوجاتی ہے۔سب سے پہلے گوشت کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر ان پر تکوں کا مصالحہ لگایا جاتا ہے۔ گوشت کو گلانے کے لیے مصالحے میں ہی کچا پپیتا یا ’کچری‘ملادی جاتی ہے۔ اس کے بعد مصالحہ لگے تکوں کو کچھ گھنٹوں کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ مصالحہ اچھی طرح گوشت کے ساتھ مل جائے۔مغرب ہوئی نہیں کہ گھرکے مرد کھلے صحن میں یا چھت پر جاکر عارضی انگیٹھی جلانے میں لگ جاتے ہیں۔ اس تکہ پارٹی کو مزید یادگار اور اس موقع پر ہلاگلہ کرنے کی غرض سے داماد بھی میدان میں کود پڑتے ہیں۔ بھلے ہی وہ ساراسال چولہے کے پاس نہ جاتے ہوں، مگر تکہ پارٹی میں اُن کا بھی بھر پور حصہ ہوتا ہے۔ وہ بھاگ بھاگ کر کام کرنے لگتے ہیں۔ انگیٹھی کے لیے کوئلے لانا یا منگوانا، مٹی کے تیل کا انتظام ، کوئلوں کو سلگاتے وقت ہوا کرنے کی غرض سے ہاتھ کے پنکھے کا بندوبست کرنا، سیخیں لانا، انہیں دھونا، سیخوں پر بوٹیاں لگانا، گرما گرم تکے اُتار کر پلیٹوں میں رکھنا، اس پر پیاز اور لیموں چھڑکنا،ساتھ میں کولڈ ڈرنک ، دہی ، رائتہ اور چٹنی کا انتظام وغیرہ وغیرہ ایسے کام ہیں، جو عید کے دوسرے دن عموماً ہر گھر میں ہونے والی تکہ پارٹی میں مردوں کی جانب سے بڑے چاؤ کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔عید کے دوسرے یا تیسرے دن کی پارٹیاں صرف تکوں تک ہی محدود نہیں رہتیں بلکہ ان پارٹیوں میں بریانی، کباب، کوفتہ، بھنا گوشت، بھنی ران، ہنٹر بیف، بہاری بوٹی، ریشمی کباب، چپلی کباب، شامی کباب،غرض کے ڈھیرسارے گوشت کے پکوان پیش کیے جاتے ہیں۔ گوشت کھانے کی اسی روایت سے آگاہی کا فائدہ سبزی فروخت کرنے والے بھی خوب اُٹھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عید کی آمد سے دوچار دن پہلے ہی لہسن، ادرک، پیاز، ہرادھنیا، ہری مرچ، لیموں ، کھیرا، مولی اور گاجر سمیت بہت سی سبزیوں کے ریٹ آسمان سے باتیں کرنے لگتے ہیں۔ان پارٹیوں کے حوالے سے کراچی کے باسیوں کا کہنا ہے کہ بقرعید پر پکوانوں اور پارٹیوں کا خصوصی انتظام نہ ہو،تو پھر عید کس چیز کی؟تہوار نام ہے معمول کی زندگی سے ہٹ کر کچھ کرنے کا،مزے اُڑانے کااور تہوار پر ہی یہ اہتمام نہ ہوں، تو پھر عام دنوں اور تہواروں میں فرق کیا رہ جائے گا

Advertisements
julia rana solicitors

دنیا نیوز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply