لارنس آف عربیہ اور ینبوع کی حویلی۔۔منصور ندیم

سعودی عرب کی وزارت سیاحت کی طرف سے ینبوع شہر میں ’لارنس آف عریبہ‘ کے نام سے مشہور برطانوی کردار تھامس ایڈورڈ لارنس (لارنس آف عربیہ) کی حویلی کو بحال کیا جا رہا ہے۔ اس حویلی کی بحالی کا مقصد سیاحت کو فروغ دینا ہے کیونکہ بہت سارے یورپی خصوصاً برطانوی سیاح حویلی دیکھنے کے لیے ینبوع پہنچیں گے۔

لارنس آف عریبیہ:

دنیائے عرب کی سیاست اور بغاوت میں ایک اہم کردار ادا کرنے والا لیفٹیننٹ کرنل تھامس ایڈورڈ لارنس (16 اگست سنہء 1888– 19 مئی سنہء 1935)، برطانوی علاقے ویلز میں پیدا ہونے والا تھامس ایڈورڈ لارنس (المعروف لارنس آف عربیہ) بہ لحاظ پیشہ ماہر آثار قدیمہ تھا۔ (مگر اس کے علاوہ ماہر انسانیات، ماہر آثاریات، آپ بیتی نگار، مصنف، فوجی افسر، منظر نویس، مترجم، جاسوس، سفارت کار، پائلٹ بھی تھا), تھامس ایڈورڈ چھوٹا سا ہی تھا کہ تاریخی عمارات دیکھنے کے شوق سے سفر پر جانے لگا۔ سنہء 1909 میں اکیس سالہ لارنس تن تنہا شام پہنچا اور وہاں آثار قدیمہ کا مطالعہ کرتا رہا۔ تاریخ میں گریجویشن کرنے کے بعد وہ سنہء 1910 تا سنہء 1914 لبنان‘ شام‘ مصر اور عراق میں آثار قدیمہ پر مصروفِ تحقیق رہا۔ اس دوران لارنس نے عربی زبان سیکھی، اور عرب قبائل کی روایات‘ معاشرت اور تاریخ سے آشنا ہوا۔

جنوری سنہء 1914 میں لارنس عارضی طور پر برطانوی فوج کا جاسوس بنا۔ فوج نے اس سے موجودہ اسرائیل میں واقع صحرائے النقب (Negev) کا سروے کرایا۔اس زمانے میں مصر کو چھوڑ کر بیشتر مشرق وسطی (شام‘ عراق‘ اردن‘ سعودی عرب‘لبنان اور اسرائیل) عثمانی ترکی خلافت میں شامل تھا۔ جولائی سنہء 1914 میں پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی۔ اس میں جرمنی اور عثمانی ترکی اتحادی تھے جن کا برطانیہ و فرانس سے مقابلہ ہوا۔ برطانوی اور فرانسیسی اتنے طاقتور نہیں تھے کہ وہ مشرق وسطی میں لشکر کشی کرسکتے۔

اس مسئلے کا حل مشرق وسطی میں موجود ’’عربسٹوں‘‘ نے نکالا۔ یہ اصطلاح ان عیسائی دانش وروں اور ادبا کے لیے استعمال ہوتی ہے، جنہوں نے مغربی استعمار کی آشیر باد سے مشرق وسطی میں انیسویں صدی کے دوران عرب قوم پرستی کی بنیاد رکھی۔ اس تحریک کے ذریعے مختلف ہتھکنڈوں سے عربوں کو ترکوں کے خلاف ابھارا گیا۔ مگر یہ حقیقت ہے ،عثمانی ترک حکومت کی نا انصافیوں نے بھی عرب قوم پرستی کو پنپنے میں مدد دی۔

بیسویں صدی کے آغاز تک یہ تحریک جڑ پکڑ چکی تھی۔ چنانچہ برطانیہ اور فرانس نے طے کیا کہ عرب قبائل کو عثمانی ترکی کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیاجائے، اسی سلسلے میں تھامس لارنس ہی نے ایک مبسوط مقالہ لکھا اور اس میں عرب قبائل کی تاریخ “قبائلی اختلافات” تہذیب و معاشرت اور اطوار تفصیل سے بیان کیے۔ مقالے میں لارنس نے لکھا ’’مشرق وسطی کے سنی عرب قبائل کو متحد کر کے وہاں ایسی خلافت کا قیام ممکن ہے جو طاقت و حشمت میں عباسی خلافت کے ہم پلّہ بن جائے۔‘‘

انگریزوں کی نظریں شریف مکہ،حسین بن علی پر جا کر ٹھہر گئیں اس وقت حسین بن علی خادمِ حرمین شریفین کی حیثیت سے عرب قبائل میں شہرت رکھتا تھا۔ مزید براں پہلے ہی اس کے دل میں شاہ حجاز بننے کی تمنا سمائی ہوئی تھی۔ اس کی جاہ طلب خواہشات سے انگریزوں نے فائدہ اٹھایا اور پُرکشش ترغیبات دے کر اسے عثمانی ترکی کے خلاف بغاوت کرنے پر آمادہ کر لیا۔ یہ جولائی سنہء 1916 کی بات ہے۔

اکتوبر سنہء 1916 میں لارنس آف عریبیہ کو حجاز بھجوایا گیا تاکہ وہ حسین بن علی کی فوج کے ساتھ مل کر عثمانی ترکوں کی چوکیوں پہ حملے شروع کر سکے۔ تب تک وہ کیپٹن بن چکا تھا۔ عرب بغاوت میں لارنس آف عریبیہ کا اہم کردار یہ ہے کہ اس نے حسین بن علی اور اس کے بیٹے، شہزادہ فیصل کو قائل کر لیا کہ وہ برطانوی جنگی حکمت عملی کے مطابق عمل کریں۔ اس حکمت عملی پہ چلتے ہوئے باغی عرب قبائل چھاپہ مار کارروائیاں کرنے لگے اور ترکوں سے براہ راست مقابلہ نہیں کیا گیا۔ جلد ہی حجاز اور نجد کے کئی قبائل شریف مکہ سے آن ملے۔ انہوں نے حجاز ریلوے کو سخت نقصان پہنچایا جس سے ترک فوج کو سپلائی ملتی تھی۔ سپلائی کٹنے سے عرب شہروں میں مورچہ بند ترک فوج محصور ہوگئی۔

برطانیہ نے شریف مکہ کی عرب فوج کو جدید اسلحہ دیا اور مالی امداد بھی دی۔ آنے والے دو برس میں لارنس آف عریبیہ کی راہنمائی میں اس عرب فوج نے حجاز و نجد میں کئی اہم قلعے ترکوں سے ہتھیا لیے۔ ان کامیابیوں کی بدولت وہ عرب فوج کے کمانڈر، شہزادہ فیصل کا دست راست اور لیفٹیننٹ کرنل بن گیا۔ لارنس آف عریبیہ نے عرب انقلاب کے دوران بدوؤں کو ترک حکمرانوں کی حکومت کا تختنہ الٹنے میں مدد دی تھی۔ ترکی اس وقت برطانیہ اور فرانس کے خلاف جرمنی کا اتحادی تھا۔ لارنس آف عریبیہ کو سلطنت عثمانیہ کے خلاف جنگ میں عربوں اور برطانیہ کی افواج کی مدد کرنے والا اہم کردار سمجھا جاتا ہے۔

دلچسپ بات یہ کہ جب مشرق وسطیٰ میں لارنس آف عریبیہ عربوں کے ساتھ مل کر ترکوں سے نبرد آزما تھا، تو برطانیہ، فرانس اور روس کی حکومتیں جنگ عظیم میں کامیابی یقینی دیکھ کر مشرق وسطیٰ کے حصّے بخرے کرنے کا معاہدہ تیار کرنے لگیں۔ نومبر سنہء 1915 سے معاہدے پر بات چیت شروع ہوئی اور وہ مئی سنہء 1916 میں پایہ تکمیل تک پہنچ گیا۔

تاریخ میں یہ معاہدہ ’’سائیکس پیکوٹ معاہدہ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔جس میں موجود عراق، کویت، اردن اور اسرائیل کے علاقے انگریزوں کے حصے میں آئے۔ لبنان، شام اور شمال مشرقی ترکی فرانسیسیوں کو ملے جبکہ استنبول سمیت بقیہ سارا ترکی روسیوں کومل گیا مغربی مورخین کا دعوی ہے کہ کرنل لارنس سائیکس پیکوٹ معاہدے سے بے خبر تھا۔ جب اواخر سنہء 1918 میں مشرق وسطیٰ میں ترک فوج کو شکست ہوئی تو پھر اسے معاہدے کا علم ہوا۔ اس کی بابت جان کر قدرتاً حسین بن علی کے علاوہ کرنل لارنس کو بہت صدمہ پہنچا۔ جبکہ مسلمانوں کے ایک بڑے گروہ کا یہ ماننا ہے کہ لارنس آف عریبیہ نے استعمار کے کارندے کے طور پر صرف خلافت عثمانیہ کو نقصان پہنچانے کے لئے باقاعدہ طور پر عربوں تک رسائی حاصل کی۔ لارنس آف عریبیہ کو سلطنت عثمانیہ کے خلاف جنگ میں عربوں اور برطانیہ کی افواج کی مدد کرنے والا اہم کردار سمجھا جاتا ہے۔

مشہور مورخ ڈاکٹر نیل فالکنر اپنی کتاب ’لارنس: جزیرہ عرب کی جنگ‘ میں لکھتے ہیں کہ لارنس آف عربیہ اور برطانیہ کے دیگر افسران نے برطانیہ کے بڑے اتحادی امیر فیصل بن الحسین کی قیادت میں برسر جنگ قبائل کی شکست کے بعد ینبوع کے دفاع کے لیے پیش قدمی کی تھی۔ امیر فیصل اور قبائلی سلطنت عثمانیہ کے حملے سے خوفزدہ تھے۔ کیونکہ ینبوع ہی فیصلہ کن مقام تھا۔ اگر ترکی اس شہر پر قبضہ کر لیتا تو بازی پلٹ سکتی تھی، اسی لئے برطانوی بحریہ کے 5 جہاز سلطنت عثمانیہ کے لشکر کو سبق سکھانے کے لیے ینبوع پہنچ گئے تھے۔ اس کی وجہ سے لارنس اور امیر فیصل عرب افواج کو جمع کرنے اور اگلے سال ترکوں کے خلاف یہ جنگ چھیڑنے میں کامیاب ہوگئے۔ ڈاکٹر فالکنر کا کہنا ہے کہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ینبوع ہی صحرا عرب میں مشہور حربی کارروائی کا نقطہ آغاز ثابت ہوا، اور اسی کی بدولت حجاز ریلوے لائن پر حملے ممکن ہوئے اور اسی کی وجہ سے العقبہ پر کنٹرول کے لیے چھ سو میل کا سفر کیا جاسکا۔

لارنس آف عربیہ نے خود اپنی سوانح حیات سے متعلق ایک کتاب تصنیف کی تھی جس کا نام ’حکمت کے سات ستون‘ Seven Pillars of Wisdomہے- لارنس نے اپنی اس کتاب میں اس یقین کا اظہار کیا کہ دسمبر سنہء 1916 میں ینبوع پر قبضے کی سلطنت عثمانیہ کی ناکامی کا واقعہ فیصلہ کن تھا- آگے چل کر لکھتے ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ سلطنت عثمانیہ ینبوع پر قبضے میں ناکامی کی رات ہی جنگ ہار گئی تھی- لارنس آف عریبیہ نے عرب انقلاب کے دوران بدوؤں کو ترک حکمرانوں کی حکومت کا تختنہ الٹنے میں مدد دی تھی۔ ترکی اس وقت برطانیہ اور فرانس کے خلاف جرمنی کا اتحادی تھا۔

لارنس آف عریبیہ کی حویلی :

سعودی عرب کے جنوبی شہر ینبوع میں آج بھی ایک قدیم حویلی موجود ہے جہاں عرب انقلاب کے زمانے میں لارنس آف عریبیہ نے قیام کیا تھا۔ اس وقت ینبوع بندرگاہ برطانوی عرب افواج کے اہم امدادی اڈے میں تبدیل ہوگئی تھی۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران برطانیہ اور عرب فوجیں سلطنت عثمانیہ سے جنگ کررہی تھیں۔

یہ حویلی لارنس آف عربیہ کے نام سے مشہور ہے۔ ینبوع شہر، مدینہ گورنریٹ کی کمشنری ہے اور یہ بحیرہ احمر کے ساحل پر واقع ہے۔ لارنس العرب نے یہاں سنہء 1915 قیام کیا تھا۔

ایک عرصے سے مورخین لارنس آف عربیہ کی حویلی کے تحفظ کی طرف توجہ دلا رہے تھے۔ یہ دو منزلہ حویلی غیر آباد پڑی ہوئی ہے۔ ینبوع کے پرانے باشندوں کا کہنا ہے کہ جب سے لارنس آف عربیہ یہاں سے گئے ہیں تب سے یہ حویلی غیر آباد ہے۔ ینبوع بلدیہ کے مطابق سال رواں کے آخر تک حویلی کی مرمت کا کام مکمل ہوجائے گا اور یہ سیاحوں کے لیے کھول دی جائے گی، فی الوقت کورونا وائرس کے باعث سفری پابندیوں کی وجہ سے غیرملکی سیاحوں کی آمد بند ہے۔ پابندیاں اٹھنے پر سعودی عرب غیرملکی سیاحوں کو اپنے یہاں آنے پر آمادہ کرنے کے لیے پرکشش مہم چلائے گی- حویلی کی مرمت کا پہلا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے- یہ تاریخی قدر و قیمت کی حامل حویلی ہے- بہت سارے غیرملکی سیاح ینبوع میں لارنس آف عربیہ کی حویلی دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

عرب دنیا میں اپنے مخصوص اہداف کامیابی سے حاصل کرنے والے تھامس ایڈورڈ لارنس المعروف لارنس آف عریبیہ کی شخصیت کا ایک اب تک پوشیدہ رہنے والا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ موصوف عرب دنیا کے ہوٹلوں میں قیام اور طعام کا بل ادا کرنے میں بھی ڈنڈی مارتا تھا، یہ حقیقت لندن کے برٹش میوزیم میں ایک سو سالہ پرانے مگر واجب الادا بل کے موجود ہونے سے سامنے آئی ہے۔ لارنس آف عریبیہ سنہء 1914 میں شام کے شہر حلب کے بارون ہوٹل بار میں گیا۔ یہاں لارنس نے کچھ ایپی ٹائزرز کے علاوہ مخصوص پسندیدہ مشروبات لیے، لیکن سو سال گذرنے کے بعد آج بھی اس بل کا ادا کیا جانا باقی ہے۔ لندن کے عجائب گھر میں کی یہ یادگار اسی حالت میں محفوظ کر دی گئی ہے۔

اس ہوٹل میں جب 23 سالہ شخص لارنس آف عریبیہ، جو اس وقت آثار قدیمہ کے مشن کا رکن تھا، وہ شام میں تین برس تک مقیم رہا اور بالآخر سنہء 1914 میں یہاں سے روانہ ہوا۔ تاہم بارون ہوٹل میں اس کا قیام چند دن ہی رہا تھا۔ عجائب گھر میں رکھی دستاویز کے مطابق لارنس آف عریبیہ ہوٹل کے کمرہ نمبر 202 میں مقیم رہا۔ ہوٹل کی بار میں اس دوران اس نے چھ مختلف قسم کی ”مرغوبات” سے لطف اٹھایا جن کا عثمانی دور کے 76 اعشاریہ ستر پیاسٹرز بل بنا، لیکن اس نے بل ادا کیے بغیر ہی ہوٹل چھوڑ دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ماضی میں ہوٹل مغربی دنیا کے ممتاز شخصیات کا مسکن رہ چکا ہے۔ اسی ہوٹل کے کمرہ نمبر 215 میں شامی بادشاہ فیصل نے قیام کیا اور لارنس کی یہاں سے روانگی کے چار سال بعد شام کی خلافت عثمایہ سے علیحدگی کا اعلان اسی ہوٹل کی بالکونی سے کیا۔ مصر کے جمال عبدالناصر بھی اسی ہوٹل میں مقیم رہ چکے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply