انسانوں کے زہریلے لہجے۔۔۔رمشا تبسم

زمانہ قدیم میں تیر, نیزے, تلوار سب زہر میں بھگوئے جاتے تھے۔ تا کہ دشمن پر جب حملہ کیا جائے تو وہ بچ نہ سکے ۔اگر گھائل ہو کر  زخم سے بچ جائے تو زہر اپنا کام آہستہ آہستہ دکھا جائے۔ کچھ زہر تو ایسے ہوتے تھے جس سے دشمن آہستہ آہستہ کچھ دنوں میں مرتا تھا۔ اس دوران وہ ایک نہ ختم ہونے والی اذیت جھیلتا ہوا اکثر موت کی دعا بھی کرتا تھا۔وہ موت جس سے گھائل ہوتے وقت وہ بچ نکلا تھا اور جسکی خوشی بھی منائی ہو گی کہ  ہتھیاروں کے وار مجھے مار نہیں سکے۔ میں زخمی ہوں مگر زندہ ہوں۔ اور پھر زہر کی اذیت سے وہی شخص موت مانگتا ہے اور تڑپ تڑپ کے بار بار مانگنا یہ تڑپ ، یہ اذیت اس  زخم کے لگنے کے وقت کی موت سے  زیادہ بھیانک اور دردناک ہوتی ہے۔ جسم میں چھوڑا گیا زہر چپکے چپکے اپنا کام کرتا ہے۔ اور زخم کھانے والا اکثر اس زہر سے انجان ہوتا ہے اور انجانے میں ہی تڑپ تڑپ کے مر جاتا ہے۔ زخم دینے والا بھی دشمن کی اسی تڑپ سے لطف اندوز ہونے کے لئے اس طرح کے  زہروں کا استعمال کرتا تھا۔ دشمن کی وقتی موت صرف وقتی تسلی اور خوشی دیتی ہے اور تڑپ تڑپ کے موت کی بھیگ مانگتا سسکتا , روتا, بلکتا دشمن ساری عمر جب جب یاد آئے گا ایک دِلی سکون کا باعث بنتا رہے گا۔

زندگیوں میں آنے والے اکثر لوگ بھی  زبانوں پہ ایسے ہی دیر تک اثر رکھنے اور آہستہ آہستہ ہمیں موت کے گھاٹ اتارنے والے زہر لئے پھرتے ہیں۔ زہر اب دکانوں ,بازوں اور زہریلے جانوروں میں کم اور انسانوں کے الفاظوں اور لہجوں میں  زیادہ ملتا ہے۔یہ انسان کبھی لہجوں کو زہر میں بھگو کے ہم پہ وار کرتے ہیں۔ کبھی لفظوں کو سانپ بنا کر ہماری روحوں پہ ڈسنے کے  لیے  چھوڑ دیتے ہیں ۔ اور کبھی نگاہوں میں ایسا زہر رکھتے ہیں کہ  وجود کو مردہ کرنے کے ساتھ ساتھ کردار کو بھی زہریلا کر دیتے ہیں۔ پھر بھی انکی دلی تسکین نہ ہو تو قہقہوں میں زہر ملا کر ہم پہ ہنستے ہیں کہ  ہم کبھی پھر ہنسنے کے قابل ہی نہیں رہتے۔ کبھی انکے زہر انکی  زبانوں سے, کبھی نگاہوں سے, کبھی قہقہوں سے ہوتے ہوئے ہمارے وجود میں شامل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور ہم نہ چاہتے ہوئے اور نہ جانتے ہوئے انجانے میں ان کا شکار ہوتے ہوتے ایسی حالت کو آ پہنچتے ہیں کہ  دعا کے لئے ہاتھ اٹھتے ہی لب موت کی التجا کرنے لگتے ہیں۔
انسان بھی ڈستا ہے اب
زہر ڈال کر لفظوں میں

ان زہریلے لہجوں کے زہریلے قہقہوں سے  زیادہ پُرسکون ہمیں پھر قبر کی تاریکی اور ویرانی محسوس ہوتی ہے۔ ان زہروں کو وجود میں لئے تڑپ تڑپ کر سسک سسک کر ہم مر جاتے ہیں اور ایسے زہریلے لوگ نہ جانے کیسے تسکین پا جاتے ہیں؟۔اور کیسے ان کو اپنی تعفن زدہ  زہریلی  زندگی سے گھن نہیں آتی؟

Advertisements
julia rana solicitors london

میں لہجوں کا زہر سہتی سہتی اب
بچھو کے خدو خال میں ڈھلتی جاتی ہوں۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply