• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • حکومتی مسلط کردہ مہنگائی اور مشکل فیصلے۔۔نصیر اللہ خان ایڈوکیٹ

حکومتی مسلط کردہ مہنگائی اور مشکل فیصلے۔۔نصیر اللہ خان ایڈوکیٹ

مبینہ طور پر عمران خان کی حکومت خراب تھی، مہنگائی بہت زیادہ تھی۔ اسلئے پی ڈی ایم نے مہنگائی کو قابو کرنے کیلئے عمران خان کی حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے گرا دیا۔ لیکن مہنگائی عمران خان کے حکومت کی نسبت ایک ہفتے میں 60 روپے اور اب 24 روپے پٹرول اور ڈیزل 59 روپے کی قیمت زیادہ کردیا گیا ہے۔ پی ڈی ایم مہنگائی مکاؤ مارچ دراصل حکومت کے سخت فیصلوں پر عمل درآمد کے لئے عمل میں لائی گئی تھی۔ البتہ صرف زبانی کلامی حکومت کو مورد الزام ٹہرا رہی تھی کہ عمران خان حکومت میں مہنگائی لائی گئی ہے اور جس کو کم کیا جانا چاہئے۔ لیکن اگر بغور جائزہ لیا جائے تو در اصل یہ پی ڈی ایم کی مہنگائی مکاو مارچ نہیں تھی بلکے مہنگائی بڑھاو مارچ تھی۔ جس کی وجہ سے ملک میں غربت مزید بڑھی اورغریبوں پر مزید معاشی تنگی آئی ہے ۔ اس سے پہلے بھی غریب کو دو وقت کی روٹی میسر نہ تھی لیکن اب حکومت کی سخت معاشی فیصلوں سے غریب کو ایک وقت کی روٹی ملنا محال ہے۔ عمران خان سے حکومت اسلئے چھینا گیا کہ مہنگائی ختم ہو جائے لیکن اس حکومت میں مہنگائی مزید بڑھی ہے لہذا مہنگائی کا لفظ اس کے لئے کم پڑتا دکھائی دے رہا ہے اسلئے اس کا نام مشکل فیصلے رکھ دیا گیا ہے۔ موجودہ بحران کا ذمہ دار کو ن ہے؟ ایک ماہ میں عمران خان حکومت سے دو سو فیصدی زیادہ مہنگائی۔ یہ ہوتا ہے انقلاب ، مہنگائی مکاو مارچ اور اسکے کرشمے اور یہ ہوتا ہے قابلیت اور یہ ہوتی ہے بصیرت! الامان الحفیظ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب رونا دھونا یہی ہوگا کہ عمران خان نے پاکستان کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ خراب معاشی فیصلوں کیوجہ سے پی ڈی ایم حکومت کوبھی مشکل فیصلے کرنی پڑ رہی ہیں۔ کوئی ملک قرض نہیں دے رہا۔ حتی کہ آئی ایم ایف ایک ارب ڈالر قرض بھی نہیں دیتے ہیں ۔گردشی قرضوں کا حجم اتنا ہے کہ ڈالروں میں آئی ایم ایف کو پچھلے حکومتوں کی لئے گئے قرضوں کی سودی قسطیں بھی پوری نہیں ہورہی ہے اوراس بحران سے نمٹنے کیلئے حکومت کو ناگزیر طور پر مزید مہنگائی اور مزید سخت معاشی فیصلےکیلئے قیمتوں میں ایزادگی کرنی ہوگی۔اس لئے حکومت نے مبینہ طور پر غریب کو اسکوٹر کیلئے دو ہزار روپے کی اسانی دی ہیں۔ جس کا میڈیائی واویلا کیا جارہا ہے۔ حکومت کا وعدہ ہے کہ سرکاری افسران سے پٹرول کی مد میں پہلے ہی کٹوتی کی گئی ہے، تاہم اس کٹوتی میں مزید ایزادگی کی گئی ہے۔ یہ ایزادگی کہاں اور کس قانون کے تحت وصول کی جاتی رہی ہے اور اس کٹوتی کے سد باب کیلئے حکومت مزید کیا ٹھوس اقدامات کر رہی ہے۔ دراصل حالیہ بجٹ2022 نے حکومتی پول کھول دیا ہے اور جس طرح اشرافیہ کے لئے آسانیاں فراہم کی گئی ہے وہ دیکھنی او ر حیران کرنی والی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر پہلے سرکاری اشرافیہ کوسرکاری امور کی انجام دہی کیلئے پٹرول کی ضرورت تھی تو اب کس طرح وہی ضرورت کم ہوئی اور مزید کم کی جائیگی۔یہ صرف عوام لولی پاپ کھلانے کا بہانہ ہے ۔اور درا صل عوام کو بے وقوف بنانے کا پروگرام کیا جا رہا ہےاور اشرافیہ کی کمی کو پورا کرنے کیلئے تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ حکومتی سرکار کہتی ہے کہ حکومت عوام دوست سخت معاشی فیصلے کر رہی ہیں ۔ عمران خان ہمیں حکومت نہیں کرنے دے رہی ہیں اور ان کو جیل میں ڈالا جائیگا۔ کسی صورت پی ٹی آئی کو حقیقی ازادی مارچ کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ آواز اٹھانے پر پی ٹی آئی کے ورکروں کو جیل میں ڈالا جائیگا۔ پاکستان کسی ایک شخص عمران خان کیلئے آزاد نہیں ہوا۔ ہمارے پاس اور کوئی چارا نہیں اور اس سے بھی سخت معاشی فیصلے کرسکتے ہیں۔ خزانے کے ساری کمی اور اشرافیہ کے لئے تنخواہوں کا انتظام کرنے کیلئے عوام پر انڈائریکٹ ٹیکسز کا بوجھ ڈالنا ناگزیر ہے ۔ تاکہ قومی اہداف اوراشرافیہ کے عیاشیوں کاانتظام ہوسکے۔ حکومت کودفاعی بجٹ اصولاً کم کیا جانا چاہئے تھا لیکن اس میں کمی کے بجائے زیادتی لائی گئی ۔
درحقیقت حکومت سمجھتی ہے کہ اعلی عدلیہ نے عمران خان کیلئے چھوٹ دی ہوئی ہے۔ عمران خان نیازی فتنہ گر اور فسادی ہے۔ اس نے ملکی اداروں کو دھمکیاں دی ہیں۔ قانون اور آئین کو توڑا ہے۔ اس پر بغاوت کا مقدمہ کیا جائیگا۔ ان کو اور ان کے ممبران کوبھاگنے نہیں دینگے۔یوں سخت معاشی فیصلوں کیلئے ہزاروں حیلیں، حجتیں اور بہانے بنائے جا رہے ہیں۔ مثلاً عمران خان یوں ہے اور عمران وہ ہے۔ سارا ملبہ عمران خان حکومت پر ڈالا جارہا ہے۔ اگر یہی قیمتیں عمران خان کو زیادہ کرنے دیتے تو عوام خود ان کو ووٹ کے ذریعے مسترد کردیتے۔لگتا ہے ایسا ہے کہ رجیم چینج ، امپورٹڈ حکومت فسانہ نہیں بلکہ ایک حقیقت تھی۔ سعودی عربیہ ، ترکی ،روس اور چین نے امداد کیلئے ہاتھ اٹھا دئیے ہیں۔ اور حکومت ہاتھ میں کچکول لئے در بہ در منتیں کر رہی ہیں ۔
ایک طرف بجلی اور گیس قیمتوں میں زیادتی لائی گئی تو دوسری طرف بارہ گھنٹے کی ناروا لوڈ شیڈنگ کا عذاب ہے۔ ایسی نااہلی کا تو عمران خان کی حکومت میں تصور کرنا محال تھا۔ پونے چار سال میں کبھی ایک گھنٹہ کیلئے بھی پچھلے حکومت میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوئی۔ دوسری طرف اشیائے خوردونوش کی قیمتیں دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہی ہیں۔ اب ایسی ترقی کا پی ڈی ایم جیسا اچار تو بن سکتا ہے ۔ لیکن ترقی کاخواب ادھورا ہی رہیگا۔ البتہ حکمران طبقے اور اشرافیہ کے مزے ہوگئے۔ حکومت کی بیرون ممالک کی انیاں جانیاں سب کو نظر آرہی ہے۔ اس تناظر میں سمجھتا ہوں کہ حالیہ بجٹ ایک طبقاتی بجٹ تھا جس میں اشرافیہ کے لئے آسانیاں لانا مقصود تھا۔ عوام پر پٹرول بم پھینکنا اور افسر شاہی کے ساتھ اچھے مراسم بڑھانا مقصد تھا۔ اس لئے از راہ کرم ترقی اور سخت معاشی فیصلوں کیلئے حکومت کو آگے آگے دیکھتے جائیں۔ فنانس بل میں ایسی نا قابل برداشت گرانی اور مہنگائی کو لایا گیا ہے کہ اس کے اثرات کو سمجھتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اورجس کا اندازہ پٹرول کی قیمتوں کے ہوش ربامہنگائی سے پتاچلتا ہے۔دراصل تبدیلی بھی مہنگائی اور مہنگائی مکاو مارچ بھی مہنگائی ہے۔عوام کو ورغلانے اور اقتدار میں آنے کیلئے کون کونسے سفید جھوٹ بولا جاتا ہے ۔ حکومت سے باہر ہوتے ہیں تو کہتے ہیں ہم یوں کرینگے ، وہ کردینگے اور جب اتے ہیں تو مہنگائی کے پہاڑ لادتے ہیں۔عجیب منافقت ہے ۔سیاسی وابستگی کے وجہ سے خواہ مخواہ چھپ کا روزہ رکھا ہے ۔اب کہنے کو کچھ نہیں بس حکومت کی اندھے تقلید میں منہ سے جاگ اڑتی ہے ۔ حکومت کہتی ہے کہ ووٹنگ اور الیکشن نہیں، پہلے مشکل معاشی فیصلے کرنے ہیں اورجون کے اختتام سے پہلے پٹرول کی قیمتوں کو تین سو روپے تک لانا ہے۔ حکومت کاماننا ہے کہ اب جو مہنگائی لائی گئی ہے وہ عبوری گورنمنٹ نہیں کرسکتی ہے۔ لہذا یہ حکومت اشرافیہ اور طبقاتی نظام کو کندھا دیتے ہوئے ان کے لئے مزید آسانیاں لائینگی۔
میں سمجھتا ہوں حکومت کی مسلط کردہ مہنگائی اور مشکل فیصلوں سے غریبوں پر زندگی کے ایام تنگ کئے گئے ہیں۔ مہنگائی اور مشکل فیصلوں سے غریبوں کے منھ کا نوالا چھینا گیا اور جس سے عوام کو خود کشیوں پر مائل ہوئے ہیں۔ جس سے جرائم میں اضافہ ہوا ہوگا ۔
ایسا لگتا ہے کہ حکومتی اقدامات کیوجہ سے چوری چکاری بڑے لیول سے گرا کر سٹریٹ لیول پر کرانے کی حکمت عملی بنائی گئی ہے۔ اس لئے بے چینی اور بے یقینی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ کیونکہ عوام تنگ ہوگی تو دس بیس روپے کی قیمتوں میں کمی سے حکومت کے کارکردگی کا اعتراف کیا جائیگا۔ عمران خان کو برا بھلا کہا جائیگا۔ اس وقت حکومت کا سارا فوکس آئندہ الیکشن میں دھاندلی پر مرکوز ہے۔ نیب، ایف آئی اے اور الیکشن آیکٹ میں ترامیم اس لئے تو عمل میں لائی گئی ہیں۔ پری پول ریگنگ کیلئے ڈی لیمیٹیشن عمل میں لائی گئی ہے ۔ ایک ایک گھر میں افراد کو دوسرے غیر متعلقہ حلقوں میں بھیج دیئے گئے ہیں لگتا ہے کہ حکومت دوبارہ کامیاب ہوکر مزید سخت اور مشکل فیصلے کرے۔ اس ملک کا خدا ہی حافظ و ناصر ہے۔

Facebook Comments

نصیر اللہ خان
وکالت کے شعبے سے منسلک ہوکرقانون کی پریکٹس کرتا ہوں۔ قانونی،سماجی اور معاشرتی مضامین پر اخباروں اور ویب سائٹس پر لکھنا پڑھنامیرا مشغلہ ہے ۔ شعوراورآگاہی کا پرچار اپنا عین فریضہ سمجھتا ہوں۔ پولیٹکل سائنس میں ایم اے کیا ہےاس لئے پولیٹکل موضوعات اورمروجہ سیاست پر تعمیری ،تنقیدی جائزے لکھ کرسیاست دانوں ، حکام اعلی اور قارئین کرام کیساتھ اپنا نقطۂ نظر،فہم اور فکر شریک کرتا ہو۔ قانون،تاریخ، سائنس اور جنرل نالج کی کتابوں سے دلی طور پر لگاؤ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply