قبول ہے۔۔جواد بشیر/اختصاریہ

دادی ماں کی عمر کافی ہوگئی تھی،وہ آخری عمر تک دوائیاں کھاتی رہیں،جو کہ وہ گزشتہ کئی سالوں سے کھاتی آرہی تھیں،ایک طویل عرصے سے زیرِ استعمال رہنے کی وجہ سے یہ دوائیاں اُن پر کچھ خاص اثر نہیں کرتی تھیں،مگر پھر بھی خود کی تسلّی کے لیے وہ پھر بھی بروقت دوائیاں کھایا کرتی تھیں،یہ دوائیاں اُن کے اندر رَچ بس گئی تھیں۔

میں سوچ رہا تھا،ہماری زندگی میں دردکی Doze ہمیں باقائدگی سے ملتی ہے،یہ ہمارے اندر رچ بس کیوں نہیں جاتا؟۔۔۔اس کو قبول کرکے ہم اس کے خلاف مزاحمت کیوں نہیں پیدا کرلیتے؟اس کوConsumeکرکے،اس سے Immune   کیوں نہیں ہوجاتے؟

شاید ہم درد کوقبول نہیں کرتے،اس کو قبول کرلینا،اس سے خود کو immune کرنے کے برابر ہے،درد سے چھٹکارے کی کوشش درد کی شدت کو اور بڑھا دیتی ہے،مجھے لگتا ہے قبول کرنے کی کوشش کرکے ہم درد سے بھی چھٹکارہ پاسکتے ہیں

نوٹ:میں یہاں جسمانی درد کی بات نہیں کررہاہوں !

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

جواد بشیر
تحریر بارے اپنی رائے سے کمنٹ میں آگاہ کیجیے!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply