بدترین مافیاز کے بہترین چمچے۔۔نذر حافی

ہمارے ہاں تبدیلی کیوں نہیں آتی!؟ یہ سوال ہر پاکستانی کے ذہن میں ہے، اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیوں ہمارے ہاں صرف حکمران تبدیل ہوتے ہیں، نظام تبدیل نہیں ہوتا تو آپ اس سوال کا جواب پانے کی خاطر پاکستان میں عوام پر لادے گئے ٹیکسوں کے بوجھ کی ہی بات کر لیں، آپ کو جواب دینے کیلئے اندرونِ ملک تو خیر بیرون ملک سے بھی چمچہ برادری حرکت میں آجائے گی۔ ان چمچوں کا کہنا یہ ہے کہ یہ سارے ٹیکسز تو ہم امریکہ، برطانیہ، فرانس، بیلجیم، روس، چین اور۔۔۔ میں بھی ادا کرتے ہیں۔ یہ چمچہ برادران صرف ٹیکس لگانے اور عوام کو نچوڑنے کی بات کرتے ہیں، لیکن یہ نہیں بتاتے کہ ان ممالک میں ٹیکس کے بدلے میں عوام کو جو سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، وہ کون کون سی ہیں! ہمارے ہاں کراچی سے لے کر خیبر تک اور خیبر سے آزاد کشمیر تک، حکومت کی طرف سے عوام کو سانس لینے کے لئے صاف ہوا، پینے کا پانی، ہسپتال میں دوائی، سڑکوں پر امن، گھروں میں تحفظ، سفر کیلئے مناسب ٹرانسپورٹ اور بچوں کیلئے معیاری سکول و کالج بھی میسر نہیں۔ انسانی حقوق کو تو چھوڑیئے، یہاں انسانی آبادیوں کے اردگرد کھڑے پانی کی نکاسی، گندگی، تعفن اور بدبو کے خاتمے کیلئے بھی کوئی انتظام نہیں، ڈینگی مچھروں کے خلاف ویکسین لگانے کے چرچے تو بہت کئے جاتے ہیں، لیکن ان مچھروں کے خاتمے کے لئے گندے جوہڑوں، نالوں، تالابوں اور غلاظت کے ڈھیروں کو نہیں اٹھایا جاتا۔

عوامی ٹیکس سے عوام کی جو خدمت کی جاتی ہے، اس کی ایک جھلک اگر دیکھنی ہو تو ملک کے طول و عرض میں موجود لاری اڈوں کی صورتحال کو دیکھ لیجئے۔ ہر شہر میں لاری اڈہ ایک عوامی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ روزانہ بڑی تعداد میں لوگوں کی لاری اڈوں پر آمد و رفت ہوتی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں سب سے غلیظ ترین اور گندی ترین جگہ لاری اڈہ ہی ہوتا ہے۔ ان لاری اڈّوں پر ٹرانسپورٹ مافیاز کیسے لوگوں کو مہنگی ٹکٹیں فروخت کرتے ہیں! لوگ گندگی اور سڑاند میں کیسے سانس لیتے ہیں، کھانے کے نام پر انہیں کیسی کیسی غلاظتیں کھلائی جاتی ہیں اور ہوٹلنگ مافیا ان سے بھاری بھر کم پیسے وصول کرنے کے بعد انہیں کیسے گندے کمروں میں رہنے پر مجبور کرتا ہے، یہ ایک الگ ہی داستان ہے۔ٹیکس خوری میں مصروف حکومتوں کے پاس کوئی ایسا ادارہ نہیں، جو عوام کے احترام میں حد اقل لاری اڈوں پر صفائی کو ہی مثالی بنا دے، پینے کے صاف پانی کا ہی انتظام کر دے، ہوٹلوں کے کھانوں، کمروں اور واش رومز کی صفائی اور صحت کے معیار کو ہی کنٹرول کرے۔ ہمارے ہاں اکثر ٹریفک حادثات، گاڑیوں کی تیز رفتاری، سڑکوں کی غلط ڈیزائننگ اور گاڑیوں کی مرمت نہ ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں، لیکن گاڑیوں کی رفتار کو چیک کرنے، سڑکوں کے نقشوں کی اصلاح اور گاڑیوں کی فٹنس کی دیکھ بھال کے لئے ہمارے پاس ٹیکس ہی کہاں ہیں۔

اس وقت بھی ملک کے مصروف ترین تجارتی مرکز کوئٹہ سے تفتان جانے والے مسافروں کو ٹرانسپورٹ مافیا ایک ہزار روپے کی ٹکٹ پندرہ سو روپے، پچیس سو روپے اور پینتیس سو روپے میں فروخت کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ ان مسافر بسوں کے اوپر ٹنوں کے حساب سے کیا سامان لادا اور لپیٹا جا رہا ہے، اس کے بارے میں بھی کوئی نہیں جانتا۔ غیر قانونی لوگ جن کے پاس پاسپورٹ اور شناختی کارڈ نہیں ہوتے، انہیں ان مسافر بسوں میں سیٹوں کے درمیان نیچے راہرو میں بٹھا لیا جاتا ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ بچے، نوجوان اور جوان اگر پاکستانی ہی ہیں تو اپنے ملک میں چوروں کی طرح چھپ کر کیوں سفر کرتے ہیں اور اگر پاکستانی نہیں ہیں اور یا پھر کسی غیر قانونی مشن پر نکلے ہوئے ہیں تو پھر انہیں یہ مدد کیوں فراہم کی جاتی ہے! ہماری سرحدوں پر انسانی اسمگلنگ کا یہ بدترین دھندہ اپنے عروج پر ہے۔ ہم نے یہ صرف ایک بارڈر کا ذکر کیا ہے، اب افغانستان اور چین کے بارڈر کا ذکر کرنا ہی عبث ہے۔ کوئٹہ سے تفتان کے راستے میں لیویز اور سکیورٹی اہلکاروں کی یہ مجال ہی نہیں کہ وہ کسی مشکوک مسافر کا شناختی کارڈ چیک کرکے ٹرانسپورٹ مافیا سے ٹکر لیں۔

چنانچہ ہمارے بہادر جوان رائفلیں تان کر صرف ان افراد کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ چیک کرتے ہیں، جو سیٹوں پر اپنی فیمیلیز کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں، اس چیکنگ کے دوران جو لوگ کمیشن طے کرکے راہرو میں بٹھائے گئے ہوتے ہیں، ان کی طرف دیکھا بھی نہیں جاتا۔ اس سے ہمیں یہ بھی اندازہ ہو جانا چاہیئے کہ ہمارے ملک میں جگہ جگہ لگے ہوئے سکیورٹی ناکوں کے باوجود دہشت گرد کس طرح کارروائیاں کرکے فرار ہو جاتے ہیں۔ البتہ چمچہ برادران کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ ہمیشہ سے ہوتا آرہا ہے، لہذا اسے ابھی بھی ہونے دیجئے۔ عوام ہمیشہ کی طرح صرف ٹیکس ادا کرے اور باقی جو نظام جیسے چلتا آرہا ہے، ویسے ہی چلنے دیجئے۔ اب رہا یہ سوال کہ ہمارے ہاں تبدیلی کیوں نہیں آتی!؟ تو اس سوال کا مختصر جواب یہی ہے کہ یہاں بدترین مافیاز کو بھی بہترین چمچے مل جاتے ہیں، کبھی میڈیا کی صورت میں اور کبھی سیاسی لیڈروں اور نام نہاد دانشوروں کی شکل میں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply