برگد۔صدف مرزا/تبصرہ ۔فوزیہ قریشی

بڑے بڑے موٹیویشنل سپیکرز کی زبانی اکثر ہم لوگ گوروں کی لازوال اور بے مثال داستانیں سنتے آئے ہیں۔
بے شمار کالمز ، کہانیاں لکھے گئے اور فلمیں تک بنائی گئیں۔ بے شک گورے اپنے لوگوں کو بہترین خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں اور ہم انہیں گوروں سے متاثر ہو کر اپنی زندگیوں کو بدلنے کی بھی کوشش کرتے ہیں جبکہ ہم اس بات سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ ہمارے ارد گرد دیسی لوگوں کی لازوال کہانیاں اٹھتی بیٹھتی ، چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں لیکن ہم کبھی ان باہمت داستانوں کو رقم نہیں کرتے اور نہ ہی ان کو اس طرح سے خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جو ان کا حق ہے۔

اگر کہانی کسی دیسی ہیرو یا ہیروئن کی ہے تب تو ہمارے اپنے بھائی بند ٹانگ کھینچنے  کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ کہیں وہ ان سے بہتر نہ سمجھ لیا جائے۔ یہ حسد  ہے یا پھر عادت سے مجبور رویے، ہم ان پر غور نہیں کرتے کیونکہ ہمیں اپنے سِوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔

آج میں ایک ایسی عورت کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہوں گی۔جِے کسی کے بھی خراج کی ضرورت نہیں، لیکن پھر بھی “برگد “پڑھنے اور ان سے ملنے کے بعد مجھ سے رہا نہیں گیا۔

وہ بہادر عورت جس کو ہم ان کی تحاریر، کالمز، شاعری اور افسانوں کے حوالے سے جانتے ہیں لیکن” برگد” کو پڑھنے کے بعد مجھ جیسے قاری کو یہ احساس بھی  ہوتا ہے کہ یہ تو ایک با ہمت خاتون کی کہانی ہے۔

ایسی عورت جس نے کبھی ہمت نہ ہاری ۔ ایسے ایسے حالات سے گزری کہ بڑے سے بڑا چٹان جیسا مرد بھی جہاں ہمت ہار جائے۔
انہی  حالات میں صدف جی نے اپنا سفر نئے حوصلے نئے ولولے سے شروع کیا۔
صدف جی سے میرا تعارف بہت کم عرصے پر محیط ہے۔
فیس بک پر مجھ جیسی چند سطریں گھسیٹنے والی کو ایک ریکویسٹ موصول ہوتی ہے جسے میں قبول کر لیتی ہوں۔ پھر ٹائم لائن سے آئے دن ایک تعارف ہوتا ہے۔ ایک اینرجیٹک ، دبنگ عورت کا تعارف۔
جسے سکون نہیں جس کے پاؤں کبھی کسی دھرتی پر نظر آتے ہیں تو کبھی کسی۔
جس کا اوڑھنا بچھونا ادب ہے۔
محبت میں گُندھی” دکھنے میں خوبصورت اور نرم و نازک حسینہ “ست رنگی شخصیت کی مالک ہے۔
ہمارا آمنا سامنا کمنٹس ، پوسٹس اور تحاریر کے حوالے سے ہوا۔
حاضر جواب اتنی کہ  جواب سن کر عقل دنگ رہ جائے۔
یہ میرا اُن سے سوشل میڈیائی تعارف تھا۔

دو ماہ پہلے پاکستان جانے کا اتفاق ہوا تو ثانیہ شیخ سے ملاقات ہوئی جس سے کالز ،کمنٹس اور شاعری کی وجہ سے ایک خوبصورت رشتہ تشکیل  پا چکا تھا۔ ثانیہ نے ملنے کی خواہش کی تو ہم اسے ملنے چلے گئے۔ فیس بک پر مختصر حال و احوال لکھا اور چند تصویریں اپ ڈیٹ کیں۔
جن کو فلٹر سے خوب سجایا تاکہ عمر کی ڈھلتی سفیدی کو ڈھانپا  جا سکے اور ہم اس میں کچھ کامیاب بھی ہو گئے۔

ہماری اس پوسٹ کے بعد خوبصورت آواز کے میسیجز موصُول ہوئے۔یہ میسیجز صدف جی کے تھے۔ وائس میسیجز میں، ہماری فلٹر شدہ تصاویر کی جی کھول کر تعریف کی گئی اور ایک تحفہ بھیجنے کی خواہش بھی۔
تحفہ چونکہ کتاب کی صُورت تھا تو ہم انکار نہ کر سکے۔
وعدے کے مطابق چند دن بعد ثانیہ جی ” برگد ” لے کر حاضر ہوئیں۔
برگد ” کو پڑھنے کا موقع مجھے پاکستان میں میسر نہ آسکا تو میں اس خوبصورت تحفے کو اپنے ساتھ یہاں لندن لے آئی۔
برگد ”
بابل کی شخصیت کے گرد گھومتی خودنوشت۔۔

یوں تو اُردو نثری اور شعری ادب میں ماں کے حوالے سے بہت عمدہ تحریریں موجود ہیں۔مشہور ادیب، دانشور اور بیوروکریٹ قدرت اللہ شہاب کا اپنی والدہ کے بارے میں خاکہ ’’ماں جی‘‘ بہت مشہور ہوا۔ جو قدرت اللہ شہاب نے اپنے افسانوی مجموعے ’’سرخ فیتہ‘‘ اور آپ بیتی ’’شہاب نامہ‘‘ کا بھی حصہ بنایا۔

اسی طرح مشہور افسانہ نگار محمد حامد سراج نے اپنی والدہ پر بھرپور رپورتاژ ’’میا‘‘ پوری کتاب لکھ ڈالی۔ جس کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ کئی اور شعراء اور ادیبوں نے ماں کے حوالے سے دل کو چھونے والی تحریریں لکھی ہیں لیکن باپ کی شخصیت پر کبھی کسی نے اتنی تفصیل سے نہیں لکھا۔

صدف مرزا ڈنمارک میں مقیم ہیں ۔ بہترین شاعرہ، افسانہ نگار اور ماہرِ تعلیم بھی ہیں۔ آجکل وہ لندن یونورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔
صدف جی کی آپ بیتی ’’برگد‘‘ ان کے والد کی شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔

بیٹیاں دنیا کے کسی بھی کونے میں چلی جائیں ساری زندگی اپنے بابل کی شخصیت کے حصارمیں رہتی ہیں۔
صدف جی کی یہ آپ بیتی صرف ان کے اباجی کے گرد نہیں گھومتی ہے بلکہ یہ ایک با ہمت لڑکی کی داستان بھی ہے۔ دو الگ معاشروں کی عکاسی کرتی یہ آپ بیتی بہت سوں کو جھنجوڑتی ہے کہ اگر ہم ہمت کریں تو کچھ بھی نا ممکن نہیں۔

آپ بیتی کے نام ’’برگد‘‘ رکھنے کے بارے میں صدف جی  نے طویل واقعہ بیان کیا ہے۔
’’ڈاکٹر عبداللہ نے مہمان نوازی کا انت کرتے ہوئے مجھے نہ صرف دہلی کی یادگاروں سے ہمکلام ہونے کا موقع دیا بلکہ جاوید اختر سے میری ملاقات کا اہتمام بھی کرڈالا۔
جاوید اختر کو میری ڈینش شعروادب کی کتاب کے بارے میں علم تو تھا، سو دریافت کیا کہ آج کل کیا لکھ رہی ہوں۔ میں نے بتایا کہ اپنے والد کے بارے میں ایک کتاب تحریر کرنے کی کوشش میں مصروف ہوں۔
اچھا۔ نام کیا رکھا ہے؟
نام سادہ سا ہے۔ میں نے کہا۔ میرے پیارے ابا جی۔
“صدف مرزا۔”
انہوں نے ایک لمحہ توقف سے کہا، کیا یہ نام حتمی ہے؟
جی حتمی تو نہیں لیکن میرے ذہن میں ایک سادہ سے نام کے طور پر یہی خیال ہے۔
اچھا تو پھر کچھ اور سوچو۔ یہ نام ایک عام سی بیٹی تو تجویز کر سکتی ہے
لیکن ’نہیں‘ جیسی نظم کہنے اور جرات سے پڑھنے والی صدف مرزا اس عام سے عنوان کے پیچھے نہیں کھڑی ہوسکتی۔”

میں ایک لمحے کے لیے تو بالکل گنگ رہ گئی۔ مجھے نہ صرف ان کی یادداشت کی داد دینا پڑی بلکہ اس احساس نے ممنون کر دیا کہ انہیں میری نظم کا عنوان بھی یاد ہے۔
میں نے ایک لحظے کے بعد کہا ’’برگد‘‘

پہلے یہ نام سوچا تھا، پھر خیال آیا کہ یہ ایک عام سا استعارہ ہے۔ دراصل پہلے میری کتابوں کے نام ابا جی تجویز کیا کرتے تھے”۔
جاوید اختر بغیر کچھ کہے اٹھے، اپنی کتاب اٹھا کر اس کا ایک صفحہ کھولا اور ایک نظم پرانگلی رکھ دی۔
’’برگد‘‘۔۔۔
ڈاکٹر عبداللہ اور میں خاموشی سے انہیں دیکھتے رہے۔

’چلیے پھر آج ہم کتاب کا نام بدل دیتے ہیں۔ آپ نے اسے نیا نام دیا ہے۔ میں نے کہا۔
’’نہیں۔ میں نے صرف توجہ دلائی ہے۔ نام آپ کے ذہن کے بینک میں نہ صرف موجود تھا بلکہ آپ نے اپنی فہرست میں بھی شامل کیا ہوگا۔‘‘ وہ سہولت سے بولے۔

میرے پیارے اباجی ایک ایسی بیٹی کی طرف سے دیا گیا عنوان لگ رہا تھا جس نے بس صرف ابا کے آنگن میں زندگی بسر کی ہو۔ آپ اسے وہ نام دیجیے جو ایک باشعور شاعرہ اور مصنفہ کی سوچ میں ابھرے۔‘‘

میں ان دونوں احباب کی کرم فرمائی کیسے بھول سکتی ہوں۔ اس دن کے بعد میں نے اس کتاب کو ’برگد‘‘ کے نام سے ہی موسوم کیا۔”

کتاب کا  انتساب بہت عمدہ  ہے۔
’’دنیا کے ہر اس والد کے نام، جس نے اپنے بیٹوں کی طرح بیٹیوں کو بھی اپنے نام اور شناخت کا حوالہ سمجھا،
جو نام اور نسل کے غرور اور افتخار کو دورِ جاہلیت کی یادگار بنا ڈالتا ہے،
جو اپنے خون کی حرمت ہر صورت میں قائم رکھتا ہے، خواہ وہ  ایک شیرِنر کی رگوں میں آگ کے شعلوں کی طرح بھڑکتی پھرے، یا اس کی بیٹی کی رگوں میں نئی نسلوں کی امین کی طرح سیراب کر دینے والی زرخیز بارش کی رم جھم کی طرح رواں ہو،
بضعۃ الرسول، سیدہ فاطمۃ الزہراؓ سے لے کر امامِ اعظم ابوحنیفہ ؒ تک اپنے والد کے نام کو زندہ رکھنے کی روایات بکھری پڑی ہیں، بیٹیوں کے نام سے زندہ رہنے والوں کی عظمت کے نام‘‘
کتاب کے نام کے ساتھ ایک مصرعہ
’’تمہارے نام کی نِسبت سے نیک نام ہوں میں‘‘ درج ہے
اور میاں محمد بخش کا کلام صدف مرزا کے والد سے پیار کو واضح کرتا ہے۔
اے بابل توں قبلہ کعبہ دِل تے جان میری دا
دائم اسم شریف تُساڈا وِرد زبان میری دا
دَر تیرے دی خاک اسانوں سُرمہ عَین نورانی
تخت تیرا کوہِ طور تے، چہرہ چشمہ فیض ربانی
ظل اللہ وجود تُساڈا، چھتر میرے سِرسایہ
قدم تیرے دی دھوڑ مبارک چاہاں تاج بنایا

صدف مرزا کا اپنا شعر ہے۔
مرے کلام میں بابل وہ استعارہ ہے
صدف مجھے جو مری زندگی سے پیارا ہے

بابل کے لیے ہربیٹی کے جذبات کچھ ایسے ہی ہوتے ہیں، لیکن انہیں تحریر کرنا کسی کسی کو ہی نصیب ہوتا ہے۔
صدف جی محبت کرنے والی وہ پیاری بیٹی ہے جس نے اپنے والد صاحب کی محبت اور شفقت کو خراج دے کر امر کر دیا ہے۔ برگد ایسے خاندان کی داستان ہے جو اس دنیا کے لوگ نہیں لگتے۔

آس پاس پھیلے شر و فساد کے اس دور میں محبت ،پیار و خلوص بانٹنے والے اور ادب کی شمعیں آنے والی نسلوں کے دل میں روشن کرنے والے درویش صفت لوگ ہیں۔
چند دنوں سے میرا “برگد ” سے ایک خوبصورت تعلق سا جُڑ سا گیا ہے۔

سرہانے پڑا یہ برگد کا مضبوط و تناور درخت مجھے چھاؤں دیتا ہے۔
سارا دن کی تھکی ماندی میں اس کی چھتر چھایا میں بیٹھ کر کسی اور ہی دیس میں پہنچ جاتی ہوں۔
مجھے کبھی لگتا ہے کہ صدف جی کے پُرکھوں سے میرے پُرکھوں کا ضرور کوئی عالمِ ارواح کا تعلق رہا ہوگا۔
بہت سارے واقعات کی مشابہت سے کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ یہ میرا بھی بچپن ہے یا پھر مجھ جیسی لاکھوں بیٹیوں کے بابل کی کہانی ہے۔

اس داستان کو ابھی میں نے مکمل نہیں کیا۔
لیکن !! میں یہ کہنے پر مجبور ہو گئی ہوں کہ میں نے آج تک اس طرح کی درویش صفت، دبنگ ،پیار بانٹنے والی پاک روح نہیں دیکھی۔
جب تک میں ان سے ملی نہیں تھی تو مجھے لگتا تھا کہ ہم کہیں عالمِ ارواح میں ضرور ملے ہیں۔
ملنے کے بعد تو یہ لگا کوئی اپنا ،کوئی پیارا مجھے دُور دیس سے ملنے آیا ہو۔ برگد صرف ایک باپ بیٹی کی ” آپ بیتی” نہیں ہے۔

یہ ایک ہمت والی لڑکی کی بھی آپ بیتی ہے جس پر ایسا ایسا وقت آیا کہ جس میں کسی بچنا محال تھا لیکن یہ باہمت لڑکی ان حالات میں بھی پھر سے کھڑی ہوئی۔ نہ صرف کھڑی ہوئی بلکہ اپنے آس پاس موجود لوگوں کے لئے بھی مشعلِ راہ بن گئی۔
میں ان کی زندگی کے اُتار چڑھاؤ کو پڑھتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہو گئی ہوں کہ یہ ہیں اصل ہیرو۔
“ہمارے دیسی ہیرو ”
جنہیں اگربر وقت سراہا نہ گیا یا اِن کی ہمت کی داستان کو عام نہ کیا گیا تو یہ اِن جیسی با ہمت خاتون کے ساتھ زیادتی ہوگی۔
اگر بر وقت کسی اعزاز ،میڈل یا پذیرائی سے نوازہ نہ گیا تو یہ اس دور میں اپنے دیسی ہیروز سے زیادتی کا دور ہوگا جو ان کی قدر نہ کر سکا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں صرف اتنا کہنا چاہوں گی کہ اس کتاب کو خود پڑھیے اور فیصلہ کیجیے کہ
کیا ان جیسے دیسی ہیروز کو اُن کی ہمت کی داستان پر خراج نہیں پیش کرنا چاہیے جو کہ اُن کا حق بھی ہے؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply