• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • تعلیمی ادارے کھولنے یا بند کرنے پر حکومت اور نجی تعلیمی اداروں کے مالکان آمنے سامنے ۔۔ غیور شاہ ترمذی

تعلیمی ادارے کھولنے یا بند کرنے پر حکومت اور نجی تعلیمی اداروں کے مالکان آمنے سامنے ۔۔ غیور شاہ ترمذی

اس مہینے کی 28 تاریخ کے بعد بھی تعلیمی اداروں کو 11 اپریل تک مزید بند رکھے جانے کے معاملہ پر حکومت اور نجی تعلیمی اداروں کے مالکان آمنے سامنے آتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ حکومت تمام تعلیمی اداروں کو بند رکھنے پر مُصر ہے جبکہ نجی تعلیمی ادارے اسے اپنے کاروبار کا نقصان سمجھتے ہوئے تعلیمی ادارے کھولنے پر بضد ہیں۔ ایک طرف حکومت اگر بچوں کو کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہونے والے تدریسی نقصانات کو کم سے کم رکھنے میں یکسر ناکام نظر آتی ہے تو نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کو بھی یہ غم ستائے جا رہا ہے کہ وہ بچوں کے والدین سے ادارے بند ہونے کے باوجود ملنے والی فیس کے علاوہ دیگر اوپری کمائیوں سے لطف اندوز نہیں ہو پا رہے۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ ایسے اضلاع جہاں کورونا کے کیسز کی شرح زیادہ ہے وہاں تعلیمی ادارے 11 اپریل تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے این سی او سی نے 15 مارچ سے 28 مارچ تک سلیکٹڈ علاقوں میں تمام اسکولز، کالجز، یونیورسٹیز، اکیڈمیز اور مدارس بند کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن اب این سی او سی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ان ہی اضلاع میں اب 11 اپریل تک تعلیمی ادارے بند رکھے جائیں گے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی تمام تعلیمی ادارے 11 اپریل تک بند رہیں گے جبکہ اس بات کا فیصلہ صوبے کریں گے کہ کن اضلاع میں اسکول بند کرنے ہیں۔

وفاقی وزیر کے اعلان کے بعد پنجاب کے صوبائی وزیر ڈاکٹر مراد راس نے اعلان کیا ہے کہ لاہور، راولپنڈی،گوجرانوالہ، گجرات، ملتان، سیالکوٹ، فیصل آباد، سرگودھا اور شیخوپورہ میں تعلیمی ادارے 11 اپریل تک بند رہیں گے جبکہ پنجاب کے دیگر اضلاع میں معمول کے مطابق تعلیمی سرگرمیاں جاری رہیں گی۔ دوسری طرف خیبرپختونخوا کے صوبائی وزیر تعلیم شہران خاں ترکئی نے اعلان کیا ہے کہ کورونا سے متاثرہ نو (10) اضلاع میں تمام تعلیمی ادارے 11 اپریل 2021ء تک بند رکھے جائیں گئے جن میں پشاور، مردان ،چارسدہ، صوابی، کوہاٹ ، لوئر دیر ، ملاکنڈ ،سوات، نوشہرہ اور بونیر شامل ہیں۔ صوبہ سندھ کے وزیر تعلیم سعید غنی کا کہناہے کہ سندھ میں فی الحال اسکول کھلے رہیں گے اور جہاں ضرورت پڑی صرف وہاں اسکولوں کو بند کیا جائے گا۔ سعید غنی نے مزید کہا کہ نیشنل کمانڈ کے اجلاس میں ملک کے تمام بڑے شہروں میں کورونا کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ سندھ اور بلوچستان میں صورتحال کنٹرل میں ہے اور یہاں شرح بہت زیادہ نہیں لہذا ان صوبوں میں کورونا کے تدارک سے متعلق مجوزہ ایس او پیز پر سختی سے کاربند رہتے ہوئے تعلیمی ادارے کھلے رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کورونا یقیناً جان لیوا مرض ہے اور تعلیمی اادارے کھولنے سے پہلے حکومت کو چاہیے کہ وہ طلباء، اساتذہ اور دیگر سٹاف کی صحت کو سب سے پیلے ترجیح دے۔ مالی نقصانات کا ازالہ ہو سکتا ہے لیکن تعلیمی ادارےکھولنے کی وجہ سے اگر طلباء، اساتذہ اور دیگر سٹاف میں کورونا پھیل گیا تو یہ نقصان ناقابل تلافی ہو گا۔ یہ درست ہے کہ کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں ہونے والی  بندش سے 4 کروڑپاکستانی طلباء کی تعلیم مستقل متاثرہوئی ہے جبکہ 2.5کروڑ پاکستانی بچےپہلے ہی اپنے آئینی حق سے محروم ہیں۔ اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہونے والے تعلیمی نقصان کا ازالہ نا ممکن ہے۔ حکومت کی طرف سے شروع کئے جانے والے آن لائن تعلیم وتعلیم گھر ٹی وی اور ریڈیو ڈرامہ کو فلاپ پروگرام کہا جا سکتا ہے۔ زمینی حقائق تو یہی کہتے ہیں کہ آن لائن تعلیم کی سہولت ملک بھر میں محض2%طلباء تک ہی محدود ہے۔ ایک محتاط اندازے  کے مطابق کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے اب تک 10 ہزار سے زیادہ نجی سکولز مکمل بند ہو چکے ہیں اور 7 لاکھ سے زیادہ ٹیچرز بےروزگار ہوچکے ہیں۔ جو نجی تعلیمی ادارے آن لائن کلاسز چلا کر کسی حد تک طلباء کی تدریسی ضروریات پوری کر بھی رہے ہیں، وہاں کے اساتذہ بھی انتہائی دگردوں صورتحال کا شکار ہیں۔

سی این این کے فرید ذکریا نے کورونا کے دس سبق کے نام سے جو کتاب لکھی ہے، اس میں انہوں نے ایک سبق یہ بیان کیا ہے کہ سیاستدانوں کو طبی ماہرین کو سننا چاہیے۔ اس لحاظ سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ این سی او سی کا سربراہ کسی طبی شعبے کے ماہر کو بنایا جاتا۔ پھر بھی اگر اپنی پاور شو کرنے کے لئے اسد عمر کو ہی یہ عہدہ دینا لازمی تھا تو پھر این سی او سی میں زیادہ سے زیادہ ڈاکٹروں کو نمائندگی ملنی چاہیے تھی اور ان کی رائے کو اہمیت دینی چاہیے تھی مگر این سی او سی یا حکومت نے اس معاملے میں بھی ڈاکٹروں کی بات نہیں مانی۔ وفاقی وزیر اسد عمر کے بارے میں ریکارڈز موجود ہیں کہ انہوں نے جس ادارہ کی بھی سربراہی کی، اُس کی لٹیا ڈبو دی۔ این سی او سی کے ساتھ بھی اسد عمر نے یہ حشر کیا ہے۔ اس وقت عالمی انڈیکس میں کیسز اور اموات کے لحاظ سے پاکستان کا نمبر 30 ہے لیکن باقی ممالک کا ڈیٹا مستند ہے اور وہاں مناسب ٹیسٹنگ ہوئی ہے جبکہ ہمارے ملک میں10 فی صد لوگ بھی ٹیسٹ نہیں کراتے۔ یوں خدشہ ہے کہ ہمارے ملک میں متاثرین کی اصل تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے جو این سی او سی بتارہا ہے اور اسی طرح کورونا سے مرنے والوں کی تعداد بھی کئی گنا زیادہ ہے۔

دوسرا ظلم ہماری حکومت نے ویکسین کے سلسلے میں کیا۔ تبدیلی سرکار نے صومالیہ اور یوگنڈا کی طرح پاکستان کو ان ممالک کی صف میں شامل کردیا جنہوں نے بروقت ویکسین کی خریداری کے لئے کوئی آرڈر نہیں دیا۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں ویکسی نیشن سب سے آخر میں شروع ہوئی اور اس وقت اگر آپ جان ہاپکنز یونیورسٹی کا ویکسی نیشن کے حوالے سے چارٹ دیکھ لیں تو پاکستان کا گراف سب سے نیچے ہے۔ چین سے جو خیراتی ویکسین ملی، اس کو لگوانے کے لئے بھی این سی او سی نے مناسب بندوبست نہیں کیا۔ باقی پاکستان میں تو کیا حالت ہوگی آج تک اسلام آباد کے تمام طبی عملے کو ویکسین نہیں لگی۔ ایسی صورتحال میں طلباء، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے سٹاف کو کورونا ویکسین لگانے کا عمل ممکن نہیں ہے۔ اگر کورونا ویکسینیشن نہیں ہوتی تو تعلیمی اداروں کو کورونا کنٹرول کیے بغیر کھولنا ممکن نہیں ہو سکے گا کیونکہ بچوں کی تعلیم بہت اہم سہی لیکن والدین کے لئے بچوں کی زندگیاں اور اُن کی صحت زیادہ ضروری ہیں۔

حکومت کے ان اعلانات کے بعد آل پاکستان پرائیویٹ سکولزفیڈریشن نے انہیں مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نجی سکولزمزید بند نہیں ہوں گے۔تعلیمی ادارے کھلے رکھیں گے۔ آج ہونےوالے این سی او سی اجلاس میں سکولوں کی بندش کا فیصلہ کسی صورت قبول نہیں حکومت تعلیم دشمن پالیسی ترک کرتے ہوئے بچوں کے روشن مستقبل کا سوچے ،جبری فیصلے قبول نہیں کرتے تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ این سی او سی اجلاس میں ملک میں جاری تعلیمی بحران کے خاتمے کےلئے تجاویزپرعمل کیاجائے نہ کہ تعلیم دشمن پالیسی پرعمل کیاجائے۔ فیڈریشن کے چئیرمین کاشف مرزا نے کہا کہ تمام نجی تعلیمی ادارے کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے والے ایس او پیز پر سختی سے عمل کرتے ہوئے ڈبل شفٹ میں50%حاضری کے ساتھ کلاسز میں تدریس جاری رکھیں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ طلبا،اساتذہ اور اسٹاف کو کورونا ویکسین ترجیحی  بنیادوں پرلگانے کا بندوبست کرے۔ کورونا کے پھیلاؤ کی اصل وجہ حکومتی وسیاسی اجتماعات ہیں جنہیں فوراً بند کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے وزیراعظم، چیف جسٹس، آرمی چیف اور NCOC سے غیر قانونی سیاسی اجتماعات رکوانے اور تعلیمی سلسلہ بحال رکھنے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ جب ہر جگہ سب کھلا ہے توسکولزمزید بند نہیں ہوں گے اور اگر زیادہ ضرروی ہے تو مائیکرو لاک ڈاؤن کاآپشن استعمال کیا جائے۔ کاشف مرزا نے حکومت کو متنبہ کیا کہ اگر نجی تعلیمی اداروں کے تادیبی کاروائیاں بند نہ ہوئیں تو لانگ مارچ ہو گا اور پورے پاکتان سے اساتذہ،طلباءاور اداروں کے مالکان مل کر اسلام آباد ڈی چوک میں دھرنا دیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حکومت کے خلاف پہلے ہی سرکاری ملازمین، ہیلتھ ورکرز اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ دھرنا دینے کے اعلانات کر رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں نجی تعلیمی اداروں کے مالکان۔ ملازمین، اساتذہ اور طلباء بھی دھرنا دینے پہنچ گئے تو اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کو پکی پکائی سٹیج تیار ملے گی۔ فی الحال چونکہ پیپلز پارٹی کی طرف سے اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے سے انکار پر 26 مارچ سے ہونے والا لانگ مارچ ملتوی کر دیا گیا تھا لیکن اگر نجی تعلیمی اداروں سے متعلقہ لوگ اپنی کاروباری بندشوں سے گبھرا کر باہر نکل  آئے تو صورتحال حکومت کے کنٹرول سے باہر ہو سکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ شعبہ صحت سے متعلقہ لوگوں کو کورونا ویکسین لگانے کی ترجیح برقرار رکھتے ہوئے دوسری ترجیح شعبہ تعلیم کو دے اور تمام تعلیمی اداروں میں طلباء، اساتذہ اور دیگر تمام ملازمین کو فوری طور پر آکسفورڈ ایسٹرا زینیکا کورونا ویکسین لگانے کا بندوبست کرے کیونکہ اس ویکسین کی مکمل طور پر طبی آزمائش کی گئی ہے اور اسے یورپی یونین سمیت دیگر کئی ممالک میں استعمال کے لئے دوسری ویکسین سے زیادہ محفوظ قرار دیا گیا ہے۔ جب تک ویکسی نیشن کا یہ عمل مکمل نہ کیا جائے، تب تک تعلیمی اداروں کو مکمل طور پر کھولنے کا فیصلہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ بچوں کی  تعلیم بہت ضروری ہے مگر اُن کی صحت اور زندگی سب سے زیادہ ضروری ہے۔

Facebook Comments