نئی فزکس(56)۔۔وہارا امباکر

اکیسویں صدی میں سائنس کی ایک بڑی خبر ہگز بوزون کا مشاہدہ تھا۔ لیکن اس مشاہدے کا آخر مطلب کیا تھا؟ ایسا نہیں تھا کہ کسی نے اس کو آنکھ سے دیکھا یا یہ پارٹیکل تصویر کھنچوانے کے لئے کہیں نمودار ہو گیا یا پھر یہ بھی نہیں کہ کسی سے ٹکرانے پر سکرین پر کچھ نظر آ گیا اور نہ ہی اس پارٹیکل کے کسی آپریٹس سے ہونے والے انٹرایکشن کا نتیجہ براہِ راست دیکھا گیا ہے۔ دریافت اور مشاہدہ کے بارے میں اب حسیات پر بھروسہ نہ کرنے کا تصور اس قدر واضح ہو چکا ہے کہ کسی نے سوچا بھی نہیں کہ اس مشاہدے پر اعتراض کیا جائے۔

ہگز پارٹیکل کا ایویڈنس ریاضیاتی ہے۔ یہ الیکٹرانک ڈیٹا کے خاص دستخطوں کی numerical خاصیتوں سے نکالا گیا ہے۔ یہ ڈیٹا ریڈی ایشن کے ملبے سے جنریٹ ہوا تھا جو تین سو ٹریلین پروٹون کے آپس میں ٹکرانے اور پھر اس سے شماریاتی تجزیے کا نتیجہ ہے جو اس تصادم سے بہت دیر بعد حاصل کیا گیا۔ اور اس میں تین درجن ممالک کی دو سو کمپیوٹنگ کی سہولیات استعمال ہوئیں۔ آج جب فزسٹ کہتے ہیں کہ “ہم نے ہگز پارٹیکل دیکھ لیا” تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے۔

ہگز اور دوسرے سب ایٹامک ذرات سائنسدانوں نے اسی طرح دیکھے ہیں۔ اور ایک وقت میں ناقابلِ تقسیم لگنے والا ایٹم اب آبجیکٹس کی پوری دنیا لگتا ہے۔ اور پانی کے ایک قطرے میں ایسی ایک ارب ارب دنیائیں ہیں۔ جو نہ صرف ناقابلِ تقسیم ہیں بلکہ براہِ راست انسانی مشاہدے کی حد سے کئی ڈگری دور ہیں۔ آپ انیسویں صدی میں فزکس کے کسی بڑے سائنسدان کو ہگز بوزون کا نہیں سمجھا سکتے۔ اور یہ تو بالکل بھی نہیں کہ اس کو آخر “دیکھا” کیسے ہے۔

مشاہدے کا نیا طریقہ، جو انسانی حسیاتی تجربے سے الگ ہو، نئی سائنسدانوں کے لئے نئے کام لے کر آیا۔ نیوٹن کی سائنس کے مشاہدات حسیات کے ذریعے محسوس کئے جاتے تھے۔ ٹیلی سکوپ یا مائیکروسکوپ کی مدد توہوتی تھی لیکن آلے کے دوسری طرف انسانی آنکھ ہوا کرتی تھی۔ بیسویں صدی کی سائنس میں مشاہدے کی اہمیت رہی لیکن “دیکھنے” کی تعریف وسیع ہو گئی۔ اس میں شماریاتی مشاہدات، جیساکہ ہگز کو دیکھنا، بھی شامل ہو گیا۔ اور مشاہدے کی طرف اس نئے رویے کے لئے فزسٹ کو ذہنی تصاویر ڈویلپ کرنا تھیں جو کوانٹم جیسے تصورات کی عکاسی کر سکیں۔ ایسے تصورات جو انسانی ادراک سے بہت پرے ہیں اور تجریدی ریاضی کی بنیاد پر ہیں۔

نئی فزکس نے سائنسدانوں میں تفریق پیدا کر دی۔ ایک طرف فزکس کی تھیوریوں میں ریاضی کا بڑھتا ہوا کردار اور دوسری طرف تجربات کا پیچیدہ ہوتا ڈیزائن۔ اس سے تجرباتی فزکس اور تھیوریٹیکل فزکس الگ سپیشلائزشن بن گئے۔ (بعد میں ان تجربات کے نتائج اخذ کرنے کے لئے کمپیوٹیشنل فزکس کی ایک اور الگ سپیشلائزیشن بھی آ گئی)۔

اور یہی وہ وقت تھا جب بصری آرٹ میں بھی اسی طرح کی تقسیم ہو رہی تھی۔ روایتی representational آرٹسٹ اور دوسری طرف کیوبزم اور تجریدی آرٹ کے بانی جو کوانٹم تھیورسٹ کی طرح دنیا کو بالکل ہی الگ انداز میں “دیکھتے” تھے۔ ایسا ہی لٹریچر اور موسیقی میں بھی تھا۔

حسیات کی حد سے آگے کے دنیا کی تخلیقی کارناموں میں دنیا کو نئے تخلیات کے ایندھن کی ضرورت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماضی کا مطالعہ کرتے ہوئے نکتہ نظر بنانا آسان ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ ہوا کیا تھا۔ جب آپ اس وقت سے گزر رہے ہوتے ہیں تو آپ یہ سب کچھ نہیں جاتے۔ جو لوگ انیسویں صدی کے آخر میں ایٹم کو سٹڈی کر رہے تھے، انہیں کوئی اندازہ نہیں تھا کہ آگے کیا آنے والا ہے۔ آج ہم اس وقت کو دیکھ کر حیران ہو سکتے ہیں کہ اس وقت کے فزسٹ کا خیال تھا کہ ان کی فیلڈ اب تکمیل کے قریب ہے اور اس وقت وہ نوجوان طلبا کو مشورہ دے رہے تھے کہ فزکس کی طرف نہ آئیں کیونکہ یہاں اب کچھ خاص کرنے کو باقی نہیں رہا۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے فزکس کے ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ نئے طلبا کی حوصلہ شکنی کرنے میں شہرت رکھتے تھے کہ ان کا کہنا تھا کہ اب کچھ اہم باقی نہیں رہا۔ جرمنی میں میونخ یونیرسٹی کے فزکس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ نے 1875 میں طلبا کو فزکس کے کیرئیر کی طرف آنے سے بچنے کی وارننگ دی تھی کہ “فزکس سائنس کا وہ شعبہ ہے جو تقریباً مکمل ہو چکا ہے”۔

ٹائٹینک ایک شاندار بحری جہاز 1912 میں اپنے سفر پر نکلا تھا۔ اس کے بنانے والوں نے کہا تھا، “یہ جہاز اتنا پرفیکٹ ہے جتنا بنایا جا سکتا ہے”۔ 1900 میں فزکس اسی ٹائٹینک کی طرح لگتی تھی۔ ہر لحاظ سے مکمل، ہر سمت سے شاندار۔ خاموشی سے اپنے بنیادی خیالات کی غرقیابی کے قریب بڑھ رہی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply