• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • طبی عملہ اور املاک کے خلاف تشدد کے واقعات کا شرعی جائزہ(حصّہ اوّل)۔۔۔ڈاکٹر محمد عادل

طبی عملہ اور املاک کے خلاف تشدد کے واقعات کا شرعی جائزہ(حصّہ اوّل)۔۔۔ڈاکٹر محمد عادل

تعارف

3مئی 2019ء کو ٹائپ ڈی ہسپتال کاٹلنگ ضلع مردان میں دومریض ایک عورت اور بچہ الگ الگ لائے گئے ،دونوں  حالت کی اتنی تشویشناک تھی کہ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نے انہیں DHQ  مردان منتقل کرنے کا کہا۔تحصیل سطح کی اس ہسپتال میں اس وقت 1122 کی ایک ایمبولینس موجود تھی۔ چونکہ بچے کو ابتدائی طبی امداد پہلے فراہم کی گئی لہٰذا اسے ایمبولینس میں لایا  گیا،اسی اثنا  میں عورت کے لواحقین آئے اور ایمبولینس میں بچے کی جگہ عورت کو منتقل کرنے پر زور دینے لگے،بات تلخ کلامی تک پہنچ گئی ۔بالآخر ایمبولینس ڈرائیور نے عورت اور بچے دونوں کو ایک ساتھ منتقل کرنے کی حامی بھری ،لیکن  عورت کے لواحقین بضد تھے کہ صرف عورت  کو لےجایا جائے ۔بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی اور عورت کے لواحقین میں سے ایک نے ڈرائیور پر پستول تھان لی اور فائر کردیا۔ ڈرائیور بچ گیا لیکن  گولی ڈیٹنل وارڈ کے اردلی  کو لگی جو موقع پر جاں  بحق ہوگیا۔

([1])۔ایسے بیسیوں واقعات ہمارے ہسپتالوں میں روزانہ کا معمول بن چکے ہیں۔جس سے طب جیسا معزز و محترم شعبہ  ایک محاذ جنگ کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

اسی طرح  عصر حاضر میں جہاں بھی فریقین باہم متصادم ہوتے ہیں تو دورانِ جنگ طبی عملہ اور ان کی املاک و تنصیبات  بھی دیگر اہداف کی طرح نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ جس سے طبی عملہ  کو ہر وقت جان کا خطرہ رہتا ہے۔

طبی عملہ  کی حفاظت یقینی بنانے کی غرض  سے  مختلف فورمز پر اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ،اس حوالہ سےانٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس (ICRC) بھی سرگرم عمل ہے ۔ پاکستان جیسے مذہبی ماحول رکھنے والے ممالک میں اس مسئلہ کی حساسیت اور روک تھام کی کوششوں کو عوامی سطح  مقبولیت  دینےکے لئے ضروری ہے کہ اس مسئلہ کی شرعی نقطۂ نظر سے پیش کیا جائے۔ اسی ضرورت کے پیش نظر راقم نے اس تحقیقی مقالہ میں  طبی عملہ پر حملوں اور تشدد کا شرعی جائزہ لیا ہےاور ان حملوں کی وجوہات تلاش کرکے،ان کے روک تھام کے لئے کچھ تجاویز دی ہیں۔

یہ آرٹیکل  تین حصوں پر مشتمل ہے: پہلے حصے  میں ICRC کے زیر اہتمام طبی امداد خطرے میں (HCiD) پروجیکٹ کا تعارف مقاصد اور طریقۂ کار بیان کیا گیا ہے۔ دوسرے حصے میں جنگ اور عام حالات میں طبی عملہ اور ان کی تنصیبات  پر حملوں کا شرعی جائزہ لیا گیا ہے جبکہ  تیسرے حصے  میں ان حملوں اور تشدد کی وجوہات  بیان کی جائیں  گی ،جس کے متعلق معلومات طبی  عملہ میں شامل چوکیدارسے لے کر میڈیکل آفیسر تک  کےاہلکاروں سے اکھٹی کی گئی ہےاور آخر میں حملوں اور تشدد کی روک تھام  کے لئے چند  تجاویز  دی گئی ہیں ۔

 HCiD (طبی امداد خطرے  میں)پروجیکٹ  کا تعارف

طبی امداد خطرے میں(Health care in Danger) انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس (ICRC) کے زیرِاہتمام  ایک  پروجیکٹ ہے۔2008ء میں ICRC کے زیرِ اہتمام طبی عملہ اوراملاک پر حملوں کے متعلق آگاہی حاصل کرنے کے لئے 16 ممالک  میں ایک سروے کیا گیا،یہ سروے 3 سال میں مکمل  ہوا ۔اس سروےکے نتائج سے یہ بات علم میں آئی کہ طبی  عملہ اور املاک پر حملوں کا مسئلہ ایک انتہائی خطرناک شکل اختیار کر چکا ہے اور  جو صورتحال  در پیش ہے ،اس کو مد نظر رکھ کر مستقبل میں کوئی بھی اس شعبے میں آنے کو تیار نہ ہوگا۔لہٰذا  انٹرنیشنل ریڈ کراس کی اکتیسویں اجلاس  منعقدہ  دسمبر 2011ء میں(HCiD) پروجیکٹ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا([2])۔RAISING PUBLIC AWARENESS ON VIOLENCE AGAINST H

HCiD  کے مقاصد اور طریقۂ کار

HCiD  پروجیکٹ کا بنیادی  مقصد مسلح تصادم  اور دیگر ہنگامی  صورتحال کے وقت مریضوں  اور زخمیوں تک  طبی   عملہ اور امداد  کی رسائی ممکن بنانا نیز طبی عملہ ،تنصیبات  اور املاک کی حفاظت یقینی بنانا اور اس حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہے۔ان مقاصد کے حصول کے لئے مندرجہ ذیل  تین مختلف مگر باہم منسلک اطراف میں کام کا انتخاب کیا گیا:

1۔ طبی  عملہ پر تشدد اور املاک  کو نقصان پہنچانے  کی روک تھام کے لئے عوامی سطح پر  شعور اجاگر کرنا

2۔  قومی سطح پر طبئ عملہ پر تشدد کے خلاف بہترین حکمت عملی کی تشکیل کےلئے تگ  و دو کرنا

3۔عالمی و ملکی سطح پر متعلقہ کمیونٹی کو متحرک کرنا

دیکھا جائے تو ابتداء سے اب تک اس سلسلے میں کئی ممالک میں کانفرنسز،  سرویز  اور دیگر عملی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔پاکستان میں سب سے پہلے 2015ء میں HCiD کا پروجیکٹ شروع کیا گیا ۔ اس  پروجیکٹ کے تحت پاکستان میں طبی عملہ کی حفاظت اور ایمبولینس کو راستہ دینے کے حوالے سے ابھی تک  تین مرتبہ مختلف   نعروں(slogans) کے ساتھ آگاہی  مہم چلائی گئی ہے۔ سن 2016ء میں “راستہ دیں” ، 2017ء میں “پہلے زندگی” اور 2019ء میں “بھروسہ کریں “کے نعرے(slogan)اپنائے گئے۔

اس کے علاوہ 2019ء میں پاکستان کے 16  اضلاع میں طبی عملہ اور املاک پر حملوں کے حوالے سے ایک سروے کیا گیا  جسے

“Violance Against Healthcare Workers: A Survey Across 16 Cities of Pakistan”

کا نام دیا گیا۔ اس سروے میں 6 ماہ کے دوران طبی عملہ اور املاک پر حملوں کا ڈیٹا اکھٹا کرنے کے ساتھ اس کی وجوہات بھی تلاش کی گئی۔یہ ایک حوالہ سے آگاہی مہم بھی تھی([3])۔

اس کے علاوہ کراچی کی سطح پر بھی ریسرچ سوسائٹی آف انٹرنیشنل لاء کے تعاون سے شعبہ صحت سے منسلک قانونی ڈھانچے پر نظرثانی کا اہتمام کیا گیا،تاکہ شعبۂ صحت سے منسلک کارکنوں،اداروں اور ٹرانسپورٹ کی سیکورٹی سے متعلق موجودہ قانونی نظام کے اندر نقائص کی نشاندہی کی جاسکے اور اس حوالے سے بہتری کے لئے سفارشات دی جا سکیں([4])۔

طبی عملہ پر حملوں کے اعداد وشمار اور ICRC کی  کوششیں

طبی امداد خطرےمیں(HCiD) کے ڈیٹا کے  مطابق دو تہائی سے زائد طبی عملہ کو کسی نے کسی صورت میں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔طبی عملہ میں شامل تقریباً ہر درجہ کے اہلکار بنا تفریق جنس و عہدہ کے تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ان میں  فزیشن، نرسز،ٹیکنیکل اسٹاف، سیکورٹی اسٹاف،ایمبولینس ڈرائیوروغیرہ شامل ہیں۔ البتہ دستیاب  ڈیٹا  کے مطابق  تشدد کے اکثر واقعات ایمرجنسی کے شعبہ  میں رونما ہوتے ہیں۔یہ حالات صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ  اکثر ممالک میں  طبی عملہ کو ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ خطرناک بات یہ ہے کہ اکثر طبی عملہ مختلف وجوہات کی بناء پر  تشدد کرنے والوں کے خلاف قانونی کاروائی نہیں کرتا ،جس سے ایسے واقعات میں روز افزوں اضافہ ہو تا جارہا ہے([5])۔

ان واقعات کی روک تھام کے حوالے سے ICRC کو عوامی آگاہی کے علاوہ کئی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں،جن میں ایک بڑی کامیابی اقوام متحدہ کے  سلامتی  کونسل سے اس حوالہ سے قراراداد کی منظور ی ہے۔اس قرارداد  سے عالمی سطح پر اس پیغام کو اجاگر کیا گیا اور تمام ممالک کو  اس مسئلہ کی حساسیت  کا احساس دلایا گیا۔یہ قرارداد 3مئی 2016کو  سلامتی کونسل میٹنگ نمبر 7685میں  منظور کی گئی ۔  اس قرارداد میں  واضح طور  پر طبی عملہ کو عزت و تحفظ  کی فراہمی  یقینی بنانے پر زور دیا گیا([6])۔

یاد رہے کہ HCiDپروجیکٹ 2011ء میں شروع کیا گیا،لیکن طبی عملہ کی تحفظ کے حوالےسے دفعات جنیوا کنونشنز اور  اس کے اضافی ملحقات (پروٹوکولز)  میں پہلے سے موجود تھے۔ان دفعات میں طبی عملہ اور املاک کی حفاظت کے لئے تقریباًٍ ایک ہی بات دہرائی گئی ہے ۔ جنیوا کنونشن 1949ء کی  آرٹیکل 24، جنیوا کنونشن کےاضافی  پروٹوکول نمبر1 دفعہ 15،16 اور پروٹوکول  نمبر2 کی دفعہ9،10میں طبی عملہ کی تحفظ کی بات کی گئی۔

ان عالمی قوانین کے علاوہ ممالک کی  سطح پر بھی طبی عملہ اور ان کی املاک و تنصیبات کو مکمل  تحفظ کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے  وہاں موجود قوانین میں مزید بہتری پیدا کرنے کے لئے مختلف فومرز پر ان کے زمہ داروں سے بات چیت کی جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر محمد عادل
لیکچرار اسلامک اسٹڈیز باچا خان یونیورسٹی چارسدہ خیبر پختونخوا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply