ممنوعات۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

ہر معاشرے کی  اپنی  اقدار ہیں، ان اقدار کی بنیاد سماج و تہذیب کی تاریخ اور مذہب و اخلاقیات کے طے کردہ دائرے ہیں، معاشرے میں جہاں مباحات یعنی جائز امور کی ایک طویل فہرست ہے وہیں ممنوعات بھی تعداد میں کم نہیں۔

سماج میں ممنوعات کا نقصان یہ ہے کہ چونکہ چوکس اذہان کیلئے یہ چیزیں پُر تجسس اور پُر کشش ثابت ہوئی ہیں، لہذا اگر کسی فکر یا فعل کو ممنوع قرار دیا جائے گا تو ایسا ذہن اس فکر یا فعل کے ارتکاب کی کوشش میں چور دروازہ تلاش کرے گا کیونکہ سامنے کا راستہ سماجی اقدار کے دباؤ میں بند ہے، اسی رویے کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ عوام الناس کی اکثریت ان سرگرمیوں میں خود ملوث ہونے یا اسے کنگھالنے کی بجائے کسی ایسے شخص پُر اعتماد کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جو خود کو ان میدانوں کا ماہر قرار دے کیونکہ ایسا کرنے سے عام آدمی اندرونی خوف کی بنیاد پر جملہ ذمہ داریوں سے خود کو مبرّا محسوس کرتا ہے۔

ہمارے ہاں مذہب اور جنس، یہ دو میدان ایسے ہیں جہاں آزادئ فکر ایک گناہ یا کم از کم باغیانہ جسارت کے زمرے میں آتی ہے اور اس کا نقصان یہ ہے کہ نسل در نسل جنسی مسائل کے نام پر ہم اپنی جسمانی صحت اور مذہبی امور کی آڑ میں روحانیت کا بیڑا غرق کئے ہوئے ہیں، جسمانی اور روحانی صحت کے ساتھ ساتھ یہ دونوں ممنوع افکار انسان کی نفسیات کو بری طرح متآثر کرتے ہوۓ معاشرے میں ایک طوفانِ بدتمیزی کی دعوت کا ذریعہ ہیں۔

فرانس کے ماہرِ جنسیات ولیری تاسو نے کہا تھا کہ ازدواجی فعل ایسی کامن چیز ہے کہ کرۂ ارض کا ہر جاندار اسے بخوشی اور بغیر کسی تردد کے انجام دیتا ہے سوائے انسانوں کے، کیونکہ انسان نے اس فعل پر ممنوع کا ٹھپا لگا کر اسے پر اسرار بنا ڈالا، نتیجے میں ایک عام ذہن اس فعلِ لطیفہ کو کوئی مافوق الفطرت فعل سمجھتے ہوئے اپنی صلاحیتوں پر شک کرنے لگتا ہے، یہی نفسیاتی پریشانی تمام جنسی مسائل کی جڑ ہے۔

ہمارے ہاں عوام الناس کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ لوگوں نے خود کو اس فیلڈ کا ماہر بتایا اور دیکھا دیکھی استاد الحکماء کا خطاب پا بیٹھے، ایسے حکماء آپ کو ہر شہر اور ہر قصبے کے گلی نکڑ پہ مل جائیں گے، ان کی چال میں اعتماد حیران کن ہوتا ہے، گفتگو کے دوران ہاتھوں کی جنبش اور دو چار فارسی زبان کے پیچیدہ الفاظ سن کر ایک عام فہم نوجوان خود کو اس نام نہاد جنسی ماہر کے سپرد کرنے میں دیر نہیں لگاتا، تھوڑا سا غور کرنے پر آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ جو شخص جنسیات کی طب، ہارمونز کے میکانزم اور بلڈ سپلائی کی بنیادی الف ب بھی نہیں جانتا وہ آپ کو کیا مشورہ دے سکتا ہے، بلکہ آپ کو کسی سے مشورہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟
لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ اس موضوعِ ممنوع کا خوف لوگوں کے ذہن میں ایسا بٹھایا گیا کہ فرد سوچنے کا تردد بھی نہیں کرتا، ایسے میں ان ٹھگوں کی دکانداری خوب چل رہی ہے۔
ہمارے ہاں دیواروں پر لکھے اشتہارات اس بات کے گواہ ہیں کہ اس سادہ سے فعل کو کس قدر گھمبیر بنا دیا گیا، نتیجتا نوجوان نسل جسمانی نفسیاتی اور سماجی پیچیدگیوں میں گردن تک دھنس چکی ہے۔

پلنگ توڑ اور گھوڑے جتنی طاقت، والی اصطلاحات کو سنتے یا پڑھتے ہوئے ایک نوجوان کے ذہن میں پہلا خیال یہی آتا ہے کہ شاید کامیاب جنسی فعل صرف یونانی دیوتاؤں کا خاصہ ہے اور میں اس قابل نہیں، بس پھر یہ سلسلہ چل پڑتا ہے۔

دوسری طرف مذہب کی آڑ میں جو کھیل کھیلا گیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فکری طور پر معاشرہ آج ایک بند گلی میں آن کھڑا ہے ۔ رائے دینا تو دُور کی بات، یہاں سوال کرنا ہی جرم بن گیا، حالانکہ یہ بات بالکل سادہ ہے کہ سوال کا ذہن میں ابھرنا فرد کی موضوع سے دلچسپی کی علامت ہے لیکن ہمارے ہاں ہمیشہ اسے مشکوک سمجھا گیا اور فرد کے عقیدے یا ایمان میں بگاڑ کا نام دیا گیا۔

فقہی یا شرعی مسائل پر آپ بات کریں یا سوال کریں تو پہلے آپ کو عربی زبان سمجھنے یا فقہ و تفسیر کا علم حاصل کرنے کا کہا جائے گا، لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ جن لوگوں نے ان علوم پر دسترس حاصل کر رکھی ہے وہ ایک دوسرے کو کافر یا زندیق کیوں قرار دے رہے ہیں؟
اور اگر کوئی سر پھِرا تمام نصیحت کردہ علوم کو سیکھ بھی لے تو کہا جائے گا کہ الہامی کتاب کو صحیح معنوں میں سمجھنے کیلئے خدائے برتر کا خصوصی کرم ہوتو بات بنے گی وگرنہ آپ جیسے کئی آئے اور کئی گئے، یعنی یہاں علمِ لدنّی کی شرط لگا دی جائے گا اگرچہ یہ طے ہونا باقی ہے کہ علمِ لدنی کے حصول کی نشانیاں کیا ہیں ؟

اس سے آگے کا مرحلہ مزید پیچیدہ ہے، روحانیت میں پیر صاحب کی نگاہِ کرم کے بغیر آپ کوئی بھی منزل نہیں پا سکتے چاہے قرآن و احادیث پر جتنا بھی عبور حاصل ہو، عام آدمی کو چونکہ قرآن کے قریب بھٹکنے کی بھی اجازت نہیں کہ اس سے فرد کے گمراہ ہونے کے امکانات ہیں اس لیے ضروری ہے کہ شرعی مسائل کیلئے مولوی صاحب اور روحانیت کے حصول کیلئے کسی پیرِ کامل کی خدمات لی جائیں، اکثر مولوی صاحبان کا معاملہ یہ ہے کہ منطق کی ایسی بھول بھلیوں میں گھمائیں گے کہ غریب آدمی اندر سے خدا پر ایمان ترک کر دے گا، جبکہ صاحبِ حیثیت کوئی بھی فتوی اپنے حق میں لے سکتا ہے، مسلمان سلاطین کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔

پیری و مریدی کے شعبے نے جو شعبدے بازیاں ہمارے ہاں دکھائی ہیں انسانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، فرد کو ایسے غلام بنا لیا گیا کہ رومی سلطنت کے امراء بھی ان کی جال سازیوں پر غش کھا اٹھیں۔
پیر صاحب اپنے تخت پر براجمان ، بھاری انگوٹھیوں سے بھری انگلیوں اور سرمے سے بھری آنکھوں کی مدد سے جب ایک طلبگار پر پُر اسرار نگاہ ڈالتے ہیں تو فرد کی ٹانگیں کانپ اٹھتی ہیں، اور فرد اپنا تن من دھن
مرشد کے قدموں پر ڈھیر کر دیتا ہے۔

ایک لطیفہ یاد آیا، کسی پِیر سے ایک شخص نے پوچھا کہ اس پیری مریدی کا کوئی فائدہ بھی ہے ؟
پیر صاحب نے جواب دیا کہ کیوں نہیں، ابھی پچھلے مہینے ہی تو نئی گاڑی خریدی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان دھندوں میں فائدہ یکطرفہ ہے، پیر اور حکیم ہی فائدے میں ہیں، دوسری طرف نقصان ہی نقصان ہے، نسلوں کا نقصان جو سماج کی بنیاد تک ہِلا کے رکھ دیتا ہے۔
خدائے بزرگ کا تخلیق کردہ نظام کامل ہے، اپنی جسمانی اور روحانی صلاحیتوں پر شک کرنے کا کوئی جواز نہیں، آپ خود ہی اپنے حکیم اور خود ہی اپنے مرشد ہیں، اسی اعتماد کے ساتھ آپ آگے بڑھئے اور زندگی کی رعنائیوں کو سمیٹئے کہ آپ کے پاس وقت کم ہے ، ایسے میں ان جعلی فضولیات میں زندگی گنوانا انتہائی گھاٹے کا سودا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply