پنجاب رنگ۔رانا اورنگزیب

 سردیوں کے دن ٹھنڈی ہوا۔چاروں طرف لہلہاتے گندم کے سبز کھیت۔خشک چھوئی سے ڈھکے میٹھے اور لمبے گنے۔ایک طرف بہتا شفاف نہری پانی کا کھال۔کھال کے ساتھ ہی کماد کے کھیت کے درمیان چلتا ہوا بیلنا۔بیلوں کے گلے میں بندھی گھنٹیوں کی ٹناٹن جو بھر پور رواں دواں زندگی کا پتا دیتی ہے۔ بیلنے میں گنے لگاتے ہوۓ میرے چچازاد تایازاد میں خود۔ٹھنڈا میٹھا نتھرا ہوا دنیا کے تمام کاربونیٹیڈ ڈرنکس پر حاوی گنے کے رس کا مزہ۔پکتے ہوۓ گڑ میں ڈالی گاجروں کا مربہ۔گرما گرم تازہ گڑ کے چٹخارے،گڑ میں پکے ہوۓ مکئی کے بھٹے،گھر میں ماں کے ہاتھ کا بنا ہوا ساگ،ساگ کے درمیان میں رکھا ہوا پگھلتا خالص مکھن،بھٹی پر بھنے ہوۓ مکئی چاول اور چنے کے خستہ دانے،بقول اقبال
 ہاں دکھا اے تصور پھر وہ صبح شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ  ایام تو
گرمیوں میں شہتوت نیم شیشم پیپل اور برگد کی ٹھنڈی چھاؤں۔جہاں سارے گاؤں کے بزرگ اپنی اپنی چارپائی اٹھاۓ آ جاتے۔حقے کا دور چلتا،بچے اسی چھاؤں میں  سارا دن گولیاں کھیلتے،چھانٹے (چابک)والے لٹو چلاتے جن کو کھوتا لاٹو کہتے تھے۔دوپہر سارے گاؤں کے لڑکے بالے نوجوان جوان کنوارے اور شادی شدہ نہر پر گزارتے،جہاں تیراکی کے مقابلے ہوتے شرارتیں ہوتی،لڑائیاں جھگڑے ہوتے اور یاریاں بنتی بگڑتی،شام میں بھینسوں کو  چھپڑ پر لے جانا کسی بھی سوئمنگ پول پر جانے سے اچھا تھا۔ بھینس کی دم پکڑ کے چھپڑ میں تیرنا،نہاتی بھینس کے اوپر مہاراجہ بن کے بیٹھنا،گندم کی کٹائی کے وقت کھیتوں میں تیتر کے بچوں کے پیچھے بھاگنا،خربوزے تربوز  اور چبڑ کھاتے پھرنا۔
بیل گاڑی پر مربے(کھیت) پر  جانا،جھلار کی ٹنڈوں سے گرتے پانی کو دیکھنا،رہٹ اور جھلار تو میں نے اسی کی دہائی کے بعد نہیں دیکھے۔مگر خراس اور گیئر تو اب بھی کہیں کہیں مل جاتے ہیں۔اب تو پنجاب کے گنے میں مٹھاس ہے نہ مکئی میں سواد۔نہ سرسوں کے ساگ میں ذائقہ نہ مکھن میں طاقت،نہ بزرگوں میں برداشت نہ جوانوں میں امنگ،اب بھینسیں نہلانے والے چھپڑ یا تو ختم ہو چکے یا بیماریاں پھیلانے والے بدبودار گندے جوہڑ بن چکے ہیں ۔اب کہیں بیلنا چلتا بھی ہے تو اس کے آس پاس کسی غیر کے بچے کا گزر ممکن نہیں۔اب گڑ کوئی  نہیں کھانے دیتا۔اب تیل والے بیرل میں کوئی  دیسی کھانڈ کے لیے راب نہیں جماتا۔اب کہیں شکر مٹھیاں بھر بھر نہیں کھلائی  جاتی۔اب مائیں گھروں میں جندری پر سویاں نہیں بناتیں۔اب بے بے صالحہ بھٹی نہیں جھونکتی،اب بچے بھٹی پر اپنی باری کے انتظار میں شام نہیں کرتے۔
اب پینو ماچھن کے تندور پر لڑکیاں روٹی لگوانے نہیں آتیں۔اب کوئی  باپ اپنے بچے کو کندھے پر اٹھا کے کبڈی میچ نہیں دکھاتا۔اب شیرے پہلوان کی کشتی نہیں ہوتی۔ اب شادی میں دو چارپائیاں جوڑ کے خادم کا سپیکر نہیں لگتا۔اب ویل ویل کی آواز نہیں آتی۔اب سہرے گانے والے کے نام پر ا س کے دوست فرمائش کرکے عالم لوہار کا دکھڑا نہیں سنتے۔اب لوگ ایک دوسرے کی ونگار(بیگار)نہیں کرتے۔اب سردی میں  نہری پانی شفاف نہیں ہوتا۔اب عورتیں شادی پر دس دس دن پرات نہیں بجاتیں۔اب صبح اذان کے وقت مائیں دودھ میں مدھانی نہیں ڈالتیں۔اب بچے روز صبح سویرے ورزش اور کثرت نہیں کرتے۔ اب کھیت سے نہ بیل کی گھنٹیاں بجتی سنائی  دیتی ہیں نہ ہی تتاتتاتتا پراہاں کی آوازیں آتی ہیں۔
اب ادھ رڑکے بھی نہیں       ملتے۔اب مرغ کی آواز بھی بے وقت سنائی دیتی ہے اب کھیت سے سبحان تیری قدرت کی آوازیں بھی معدوم ہوچکی ہیں۔عرصہ ہوا گھریلو چڑیا بھی ہم سے ناراض ہوکے چلی گئی۔اب کوا بچے سے روٹی چھینتے نہیں دیکھا جاتا۔چبڑ خواب ہو چکے۔۔۔کیسی کیسی سوغاتیں تھیں جو ہم نے ترقی کے نام پر گنوا دی۔اب تو گبھرو بھی پنجاب میں نہیں ملتے بلکہ فیشن زدہ ہڈیوں کے ڈھانچے بالوں کی کلغی بناۓ انسان کم چھپکلی کے بچے زیادہ لگتے ہیں۔ پرانی زندگی میں مشکلیں بھی ہوں گی مگر آسانیاں بہت زیادہ تھیں۔مہمانوں کو دیکھ کے دل کے دورے کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے بلکہ مہمان کو اللہ کی رحمت سمجھا جاتا تھا۔پنجاب کا کوئی  گاؤں کوئی  بستی ایسی نہ تھی کہ جہاں راہ چلتے مسافر کو عزت واحترام سے کھانا نہ ملتا یا رات بسر کرنے کی اجازت نہ ملتی۔اب تو ڈیرے دار لوگ بھی کسی کو بلاوجہ چاۓ پانی پوچھنا مصیبت سمجھتے ہیں بلکہ کئی تو ایسے ہیں کہ ملنے والوں کو بھی سوکھے منہ نہیں پوچھتے کسی وقت میں غریب سے غریب دیہاتی بھی راستہ چلتے لوگوں کو کھانے کے لیے روک لیتے تھے۔
میرا پنجاب کبھی بھی بے غیرت و بے حمیت نہیں رہا جیسا کہ ڈراموں فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔آج سے چالیس سال پہلے جو کچھ پنجاب کے بارے میں دکھایا جاتا رہا ہے پنجاب آج بھی وہاں نہیں پہنچا۔ہماری بہنیں بیٹیاں کھلے گلے اور اونچے تہہ بند باندھے ناچتی گاتی نہیں ہیں یہ سب چند ذہنی مریض اور ہوس کے پجاریوں کی ذاتی ذہنی پراگندگی ہے جو فن کے نام پر پنجاب کو بدنام کیا جاتاہے۔ہماری بہنوں بیٹیوں کا کردار نرگس، دیدار، صائمہ یا انجمن جیسی طوائفیں نہیں نبھا سکتی۔نہ ہی چند ضمیر فروش فلم ساز ڈرامہ نگار یا ڈائریکٹر جو کہ پنجاب میں عورت کا کردار ناچتی گاتی معاشقے لڑاتی اپنی اور اپنے گھر والوں کی عزت سرعام نیلام کرتی طوائف کے روپ میں پیش کرتے ہیں۔
پنجاب کی بیٹی ہرگز ہرگز ایسی نہیں۔پنجاب کی بیٹیاں دیکھنی ہوں تو کالج یونیورسٹی میں تعلیم دیتی عورت کو دیکھو۔مدارس میں عالمہ کا کورس کرتی،ہزاروں پنجابی لڑکیاں ڈاکٹر ہیں صحافی ہیں بینکار ہیں۔بزنس وومین ہیں۔گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ملازمت کرتی پولیس میں محکمہ تعلیم میں پڑھنے میں بھی بیٹیاں ہی اس وقت اپنے والدین، گاؤں ،محلے، علاقے، شہر کا نام روشن کر رہی ہیں۔آئی ٹی کی کم عمر ماہر ارفع کریم پنجاب کی بیٹی تھی۔بحرحال ہم نے اپنا ماضی اور وقار بطور مسلمان کھویا تھا۔بطور پاکستانی بھی کھو چکے۔اقوام عالم میں ہمارے بارے میں کوئی  اچھی راۓ نہیں پروان چڑھی نہ ہماری کوئی  عزت ہے نہ ہمارا کوئی  وقار۔ہم پاکستان کی اکائی  سے کٹ کے پنجابی بنے تو بطور پنجابی بھی اپنا تشخص قائم نہیں رکھ پاۓ۔
گنوا دی  ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر ہم کو افلاک نے دے مارا!

 

Facebook Comments

رانا اورنگزیب
اک عام آدمی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply