• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستانی شہری کا کھتارسس/پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کیلئے دوہرا ووٹ کیوں ضروری ہے؟۔۔اعظم معراج

پاکستانی شہری کا کھتارسس/پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کیلئے دوہرا ووٹ کیوں ضروری ہے؟۔۔اعظم معراج

پاکستان کی مذہبی اقلیتیں ان پر مختلف ادوار میں کئے گئے انتخابی نظاموں کے تجربات سے کیوں مطمئن نہیں؟ اوران 75سالہ تجربات کی روشنی میں اب دوہرا ووٹ کیوں مانگ رہی ہیں؟ اور ان کے لئے دوہرہ ووٹ کیوں ضروری ہے؟
آئیں اس سوال کا جواب ماضی اور حال میں پاکستانی مذہبی اقلیتوں کے لئے وضع کئے گئے انتخابی نظاموں اور اس سوال سے متعلق دستیاب اعداد و شمار اور زمینی حقائق کے ذریعے ڈھونڈتے ہیں۔
پاکستان کے2017ءکی افراد شماری کے غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 77,49,988(ستتر لاکھ انچاس ہزار نو سو اٹھاسی )غیر مسلم شہری ہیں۔ جن کے ووٹوں کی تعداد29مارچ2018کے الیکشن کمیشن کے اعلامیے کے مطابق 36لاکھ تین سو ہے۔ جن میں ہندو ووٹرز17,77,289 (سترہ لاکھ ستتر ہزار سات ہزار دو سو نواسی) مسیحی ووٹرز16,38,748(سولہ لاکھ اڑتیس ہزار سات سو اڑتالیس )ہیں جبکہ احمدی ، بہائی ،سکھ ، پارسی اوربدھست ووٹرز مجموعی طور پرتقریباً دو لاکھ پندرہ ہزار ہیں۔ ان لاکھوں ووٹرز کی مذہبی شناخت پر اس وقت38نمائندے ایوانوں میں ہیں۔جن میں چار سینیٹر ،دس ایم این اے اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں چوبیس ایم پی اے ہیں۔ لیکن یہ سارے ووٹر اتنے نمائندے ہونے کے باوجود اپنے آپ کو لاوارث اور سیاسی یتیم سمجھتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو ہمارا سماجی ناانصافی پر مبنی معاشرہ ہے جو کہ کمزور کیلئے بالکل غیر محفوظ ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب رنگ فرقے اور مسلک سے ہو۔ لیکن غیر مسلم پاکستانیوں کی بے چینی کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے حلقے کے ایم این اے، ایم پی اے ایسی صورت میں جب ایسی کسی صورت حال کا سامنا عددی اعتبار سے کسی چھوٹے گروہ کو ہو تو عموماً ایسی صورت میں حلقے کا نمائندہ زیادہ ووٹوں والی برادری کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے ۔متعلقہ برادری کا نمائندہ کیونکہ اپنی برادری کے ووٹوں سے منتخب ہو کر نہیں آتا لہٰذا وہ ایسی صورت میں اپنی پارٹی مفادات کے ساتھ ہوتا ہے ناکہ متعلقہ برادری کے ساتھ، اس میں اس بیچارے کا کوئی قصور بھی نہیں ہوتا ۔کیونکہ وہ ہمیں جواب دہ ہی نہیں ہیں۔ لہٰذا اس کی ہمدردی اسی کے ساتھ ہو گی، جس نے اسے چاہے ہماری شناخت پر ہی لیکن جنبش قلم سے سینیٹر، ایم این اے یا ایم پی اے بنا دیا ہوتا ہے۔ اس کے لئے یقیناً وطن عزیز کی سیاسی اشرافیہ بھی ذمہ دار ہے اور ہم عام لوگ بھی اور ہمارے سماجی، مذہبی، سیاسی رہنما بھی۔ جو آج تک کوئی ایسا انتخابی نظام وضع ہی نہیں کروا سکے۔ جس سے اس ملک کے تقریباً اٹھتر لاکھ دھرتی کے بچوں جو کہ اس ملک میں آزادی ہند، قیام پاکستان، تعمیر پاکستان اور دفاع پاکستان میں بھی دھرتی کے دوسرے بچوں کے ساتھ پیش پیش رہے ہیں۔ وہ چاہے روپلوکولھی ،جوگندر ناتھ منڈل ، جسٹس بھگوان داسں، صوبوگیان چندانی ہوں یا دیگر ایسے ہزاروں پاکستان کے قیام تعمیر و تشکیل کے معماروں کے جانشین ہوں۔ سردار ہری سنگھ کے جانشین ہوں، جنہوں نے قائد کی آواز پر اپنے خاندان کے 129 افراد کی قربانی دے کر امرتسر سے لاہور ہجرت کی ہو۔ یا راجہ تری دیو کے ہم مذہب ہوں جس سے اپنی راج دہانی (ریاست) چھوڑ کر سقوط ڈھاکہ کے بعد قائد کے وطن سے اپنی آخری سانسوں تک وفاداری نبھائی۔ اس میں ان بے شمار پارسیوں کی اولاد یں بھی ہیں،جو جدید کراچی کے معمار ہیں ان کی خدمات بھی کسی سے کم نہیں اس طرح اس ملک کے مسیحی بچے بھی دوسرے پاکستانی مسلم و غیر مسلم پاکستانیوں کی طرح اس دھرتی کے بچے ہیں۔ آزادی ہند کے سپاہی بھی ہیں قوم و معاشرے کے معمار بھی ہیں اور محافظ، غازی اور شہید بھی ہیں غرض یہ اٹھتر لاکھ کے قریب غیر مسلم دھرتی کے بچے آج بھی دن رات اپنی اپنی بساط کے مطابق اس ملک قوم و معاشرے کی تشکیل میں مصروف عمل ہیں۔لیکن ان سب حقائق کے باوجود بھی یہ پاکستانی شہری اپنے بنیادی سیاسی حقوق سے کیوں محروم رہے اس کے لئے ہم غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے وضع کئے گئے اب تک انتخابی نظاموں کا جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں ستر سال میں ان دھرتی واسیوں کے لئے کون کون سے انتخابی نظام تھوپے گئے
1946 سے 1954تک دو دفعہ بننے والی اسمبلیوں میں بل ترتیب 14اور11ممبران تھے۔ یہ ممبران سلیکشن کے ذریعے ایوانوں میں پہنچے تھے۔ جن میں سے صرف دو مسیحی اور دو ہندو پاکستانیوں کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا۔ 1962سے 1964 اور1965سے1969تک بننے والی اسمبلیاں مخلوط طرز انتخاب سے بنیں۔ نتیجتاً مخلوط الیکشن میں کوئی غیر مسلم سیٹ نہ حاصل کرسکا۔
7دسمبر1970 ء میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر الیکشن ہوئے پورے پاکستان سے صرف ایک صوبائی اسمبلی سے رانا چندر سنگھ اور قومی اسمبلی کے لئے راجہ تری دیو کے علاوہ کوئی غیر مسلم پاکستانی انتخابات نہ جیت سکا۔ مسیحیوں نے اپنے ادارے قومیائے جانے اور ایوانوں میں نمائندگی نہ ہونے پر احتجاج کیا۔30اگست1972ءکو راولپنڈی میں حکومت وقت نے جلوس پر گولی چلائی آر۔ ایم۔ جیمز اور نواز مسیح شہید ہوئے۔ جدوجہد جاری رہی۔
21نومبر1975ء کو آئین پاکستان میں چوتھی ترمیم کے ذریعے غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے قومی اسمبلی میں چھ سیٹیں مختص کی گئی۔
جن پر چار مسیحی، ایک ہندو اور ایک پارسی پاکستانی ممبران قومی اسمبلی بنے۔ اس ترمیم میں سیٹیں مخصوص ضرور کی گئیں لیکن غیر مسلم پاکستانیوں کے قومی ووٹ کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کی گئی۔
1977 کے انتخابات میں بھی یہ ہی طریقہ انتخاب اپنایا گیا غیر مسلم پاکستانیوں نے بھی قومی سطح پر اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ مارشل لاءلگا۔1985میں صدارتی حکم نامے سے غیرمسلم پاکستانیوں کو جداگانہ طریقہ انتخاب دیا گیا قومی اسمبلی کی سیٹیں چھ سے دس کر دی گئی جن میں چار ہندوں، چار مسیحیوں کے لئے اور دو دیگر اقلیتوں کے لئے تھی لیکن اس حکم نامے سے جہاں غیر مسلم پاکستانیوں کو اپنے نمائندے مذہبی شناخت پر چننے کا حق مل گیا وہی ہزاروں سال سے اس دھرتی پر بستے ان دھرتی واسیوں کو ایک جنبش قلم سے قومی دھارے سے کاٹ کر سیاسی اچھوت بنا دیا گیا۔ اس امتیازی طریقہ انتخاب سے 1985 سے1997ءتک پانچ بار انتخابات ہوئے مذہبی شناخت پر نمائندے دے کر قومی ووٹ چھین لیا گیا۔ لوگ قومی شناخت کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔ جس کے نتیجے میں2002ء کے الیکشن سے پہلے غیر مسلم پاکستانیوں کو واپس قومی دھارے میں واپس لایا گیا جس سے انہیں 849 حلقوں میں دوبارہ ووٹ دینے کا حق مل گیا۔ مذہبی شناخت پر تینوں ایوانوں میں 38نمائندے بھی دستیاب رہے۔لیکن ان 38 نمائندوں کو منتخب کرنے کا اختیار سیاسی اشرافیہ نے متناسب نمائندگی کے نام پر اپنے پاس رکھ لیا۔ لہٰذا اب ان غیر مسلم پاکستانی شہریوں کی مذہبی شناخت پر38نمائندوں کو صرف پانچ یا چھ پارٹیوں کے سربراہ اور ان کے مشیر سلیکٹ کرتے ہیں جو کہ غیر آئینی اور غیر جمہوری ہے۔ جس سے دوہری نمائندگی ہونے کے باوجود پاکستان کی مذہبی اقلیتوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔
غیر مسلمان پاکستانیوں کے لئے انتخابی نظاموں کے پچھتر سالہ تجربات اور پاکستان کے معاشرتی و جمہوری معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ ہی نتیجہ نکلتا ہے۔ کہ اگر غیر مسلم پاکستانیوں کو ایوانوں میں ان کی مذہبی شناخت پر نمائندگی بھی دینی ہے اور انہیں قومی دھارے میں بھی شامل رکھنا ہے۔ جو کہ ان کا بنیادی انسانی شہری اور سیاسی حق ہے تو انہیں آئین میں ترامیم کرکے دوہرے ووٹ کا حق دیا جائے۔
”کیونکہ ماضی کے مخلوط اور جداگانہ طریقہ انتخاب سے مخلوط طریقہ انتخاب سے مذہبی شناخت پر نمائندگی ملنے کے امکانات نہایت کم اور جداگانہ سے وہ قومی دھارے سے کٹ جاتے ہیں جبکہ حالیہ مخلوط کے ساتھ متناسب نمائندگی سے دوہری نمائندگی کے باوجود وہ ان نمائندوں کو اپنا نہیں چند سیاسی پارٹی راہنماوں کا نمائندہ سمجھ کر ان سے غیر مطمئن اور بے چین ہیں“
لہٰذا جس طرح 1947ء سے 1970 تک کے تجربات سے سیکھ کر چوتھی آئینی ترمیم کی گئی پھر 1985ءسے1997ءتک کے تجربے سے سیکھ کر2002ءمیں انتخابی نظام تبدیل کیا گیا اسی طرح 75سال میں کئے گئے چھ تجربات سے سیکھ کر اس انتخابی نظام میں بے ضرر سی آئینی ترامیم سے دوہری نمائندگی کو دوہرے ووٹ کے ذریعے سے نافذ العمل کروایا جائے یہ آئینی ترمیم پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے ساتھ آئین پاکستان کی شق 226 کی بھی ضرورت اور ڈیمانڈ ہے۔ اس سے یقینا ملک و قوم کو مضبوط کرنے میں اور اقوام عالم میں ملک کے وقار میں اضافہ کرنے میں مدد ملے گی۔ اور اس سے کسی بھی سیاسی جماعت کے مفادات پر ضرب بھی نہیں پڑتی لیکن اگر یہ نظام ایسے ہی چلتا رہے تو یہ پاکستان کی سیاسی و ریاستی اشرافیہ کی اجتماعی سیاسی دانش پر ایک سوال ضرور ہے مزے کی بات یہ ہے کہ446جمہوریت کے علمبردار 342ممبران قومی اسمبلی اور 104اراکین سینیٹ کے ہوتے ہوئے یہ دوہرے ووٹ کے لئے پیش کی گئی قرار داد2013ءسے ڈیفر ہوئی پڑی ہے۔
لہٰذا اس بے ضرر آئینی ترمیم کو جتنی جلدی ہو سکے دونوں ایوانوں سے منظور کرکے نافذ العمل کرکے اقوام عالم کو یہ پیغام دیا جا سکتا ہے کہ ہم نے مذہبی اقلیتوں کا 75سالہ مسئلہ حل کر دیا ہے۔

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضا  کار اور 18کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply